• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگلے روز ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارکر لندن میٹر و پولیٹن پولیس نے گرفتار کرلیا جس سے اُن کے پرستاروں میں غم و غصہ کی لہر پھیل گئی اور 3 جون 2014ء کو کراچی میں کشیدگی پیدا ہوئی اور درجنوں گاڑیاں نذر آتش، ایک شخص ہلاک اور متعدد افراد زخمی ہوئے ، اسٹاک ایکسچینج 800 پوائنٹس گر گئی ، کراچی برطانوی قونصل خانہ عارضی طور پر بند کردیا گیا اور پولیس نے قونصل خانے کو گھیرے میں لے لیا ۔ امریکہ ، برطانیہ اور آسٹریلیا نے اپنے شہریوں کو کراچی اور سندھ کے علاقوں میں نہ جانے کی ہدایت کردی ۔
وزیراعظم نے بجا طور پر اسے حساس معاملہ قراردیا اور یہ اعلان بھی کیا کہ وہ اس سلسلے میں قانونی و اخلاقی مدد سے گریز نہیں کریں گے، سو انہوں نے برطانیہ میں اپنے سفارخانہ کوہدایت کردی کیونکہ اس کے علاوہ وہ کربھی کیا سکتے ہیں غیر ملک کا معاملہ ہے، جس کی شہریت جناب الطاف حسین کے پاس ہے، انہوں نے الطاف حسین کو منی لانڈرنگ کیس میں گرفتار کیا ہے، البتہ ایسی صورت میں یہ بھی ہوتا ہے کہ وزیراعظم اور حکومت کے ارکان اپنی گڈ ول استعمال کرکے کچھ سہولت الطاف حسین کو پہنچاسکتے ہیں، برطانوی قوانین سخت ہیں اور پاکستان اور برطانیہ کے درمیان ملزمان کے تبادلے کا بھی کوئی معاہدہ نہیں ہے کہ پاکستا ن اُن کو برطانیہ سے مانگ لیتا۔ تاہم پاکستان کی سیاسی پارٹیوں نے الطاف حسین کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا یا ہمدردی کا اظہار کرکے ایک اچھی روایت قائم کی، پی پی پی کے چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا کہ الطاف حسین کے ساتھ انصاف ہونا چاہئے، پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے متحدہ کے کارکنوں سے ہمدردی کا اظہار کیا۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ الطاف حسین برطانیہ کے شہری ہیں وہ اپنا دفاع اچھی طرح کرسکتے ہیں۔ تاہم خورشید شاہ نے اُن کی گرفتاری خبر آنے کے بعد سب سے پہلے یہ کہا کہ حکومت متحدہ کی مدد کرے اور چوہدری برادران کا یہ ہی کہنا تھاکہ الطاف حسین کے ساتھ انصاف ہونا چاہئے ، جماعت اسلامی کے سربراہ مولانا سراج الحق نے کہا کہ پاکستان کے کسی شہر کا امن تباہ نہیں ہونا چاہئے ، میری اپنی رائے ہے کہ متحدہ پر امن رہ کر پاکستان کے لوگوں کے دل جیت سکتی ہے اور زیادہ سے زیادہ ہمدردی حاصل کرکے لوگوں کے مشورے اور قانونی طریقے استعمال کرکے اپنے رہنما کے خلاف منی لانڈرنگ کے کوکیس کمزور کرسکتی ہے برطانوی ہائی کمشنر نے اس سلسلے میں یہ کہا کہ میٹروپولیٹن پولیس خودمختار ہے حکومت برطانیہ مداخلت نہیں کر سکتی ۔ البتہ الطاف حسین ایم کیو ایم پاکستان میں کئی فلاحی ادارے چلارہی ہے ،وہ اس پہلو پر غور کرے۔
3 جون کوہی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے 43 کھرب 2 ارب کا بجٹ پیش کیا۔ بجٹ میں کم سے کم اُجرت 10 ہزار سے بڑھا کر 12 ہزارکردی گئی، پنشن اور تنخواہوں میں 10فیصد اضافہ کیا گیا، گریڈ 15 تک میڈیکل الائونس میں 10 فیصد اضافہ ، جبکہ قومی ترقیاتی پروگرام میں 13 فیصد اضافہ کے بعد اس مد میں 1175 روپے ہوگا۔ پاک چین اقتصادی راہداری کیلئے 49ارب روپے مختص، لاہور کراچی موٹر وے کیلئے 30ارب کی تجویزدی گئی ہے۔ دفاعی بجٹ میں71 ارب روپے کا اضافہ جو اُسکے پچھلے بجٹ سے 8.8فیصد زیادہ ہے کا اعلان کرکے وزیرخزانہ نے کہا کہ افواج پاکستان کو تمام ضروری وسائل فراہم کردیئے ہیں۔ ایک لاکھ سے زیاد ہ بجلی بل پر 10فیصد ایڈوانس ٹیکس، لیپ ٹاپ ، پنکھے اور فریزر مہنگے جبکہ یوپی ایس اور ٹریکٹر کے داموں میں کمی کا اعلان کیاگیا۔ ٹیکس وصولی پر تبصرہ بدترین کارکردگی کہہ کر کیاگیا۔ بجلی کے منصوبوں کو کافی اہمیت دی گئی ، دیامر بھاشا ڈیم ، کچھی کینال، تولنگ ڈیم ، شادی کو ڈیم ، تمبر ڈیم ،منگلہ ڈیم توسیعی منصوبہ ، ۔کنڈال ، کرم تنگی ڈیم اور گومل زامز ڈیم مکمل کرنے کا اعلان کیاگیا، نیلم جہلم سے 969 میگاواٹ، دیامر بھاشا سے 4500میگاواٹ ، تربیلا توسیع منصوبے سے 1410میگاواٹ، تھر کوئلے سے... 100، چشمہ جوہری توانائی 600میگاواٹ، کراچی کوسٹل پاور سے 2200 میگاواٹ ، سے ، جامشورو تبدیلی منصوبہ کو تھر کوئلہ سے تبدیل کرکے 3120گاواٹ بجلی حاصل کی جائے گی۔
وفاقی کابینہ نے بجٹ کی منظوری دیتے ہوئے کہا کہ بجٹ واقعی اچھا ہے ، بے نظیر انکم سپورٹ کیلئے 118 ارب روپے مختص کئے گئے ، قومی اسمبلی کے ممبر جمشید دستی نے اس پر سخت احتجاج کیا انہوں نے کہا بجٹ عوامی نہیں انہوں نے بجٹ کی کاپیاں پھاڑیں تو اسپیکر نے اُنہیں تنبیہ کی کہ وہ دوسرے طریقے استعمال کریں گے۔ اپوزیشن خاموش رہی۔ تاہم تاجروں نے اسے اپنی امنگوں کا عکاس بجٹ قرار دیا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ٹیکس نادہندگان پربوجھ بڑھایاہے۔ وزیراعظم کو نہ جانے یہ کیوں کہنا پڑا کہ حکومت کے خاتمے کی تمام قیاس آرائیاں غلط ثابت ہوں گی۔عام رائے یہ ہے کہ یہ امیروں کا بجٹ ہے امیروں کو تمام رعایت دی گئی ہے اور غریبوں کو مونگ پھلی کے برابر رعایت دی گئی ہے اور اسے زیادہ سے زیادہ روایتی بجٹ قرار دیا جاسکتا ہے۔
بجٹ سے ایک روز پہلے پاکستان کے صدر ممنون حسین نے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیاجسے ایک بھرپور خطاب کہا جاسکتا ہے اس لئے کہ ایک تو یہ خطاب اُردو میں تھا اور ملک کے گوشے گوشے میں اسی وقت پہنچ گیا جس وقت یہ خطاب کیا جارہا تھادوسرے ممنون حسین نے جو زبان استعمال کی تھی وہ عام آدمی کے سمجھنے والی زبان تھی۔
انہوں نے ملک کے تمام مسائل کے ساتھ خارجہ امور پر خطاب کیا جس کو خود وزیراعظم پاکستان نے متاثر کن تقریر کہہ کر سراہا، انہوں نے اپنی تقریر میں جمہوریت کی تعریف اس طرح کی کہ جمہوریت شخصیات پر قومی اداروں کو ترجیح دینے کا نام ہے۔ جماعتی مفادات قومی مفادات پر حاوی نہیں ہونا چاہئیں۔میڈیا پر پابندی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تاہم انہوں نے میڈیا کو مشورہ دیا کہ اپنا ضابطہء اخلاق خود مرتب کرے۔ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق حل کرانے پر زور دیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ خطہ میں تبدیلیاں رونما ہونیوالی ہیں جن کا ثمر پاکستان کو ضرور ملے گا۔ ایران ،بھارت، افغانستان کے ساتھ تعلقات کے حامی ہیں کہ یہ پڑوسی ممالک ہیں، انہوں نے چین کے ساتھ گہری دوستی کا بار بار ذکر کیااور یک جان دو قالب کہکر دریا کو کوزے میں بند کردیا۔ عدلیہ، مسلح افواج کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔
تاہم اداروں کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنے کا مشورہ بھی دیا۔ اس اجلاس پر قومی اسمبلی کے ممبر جمشید دستی نے صدر پاکستان پر اعتراض کیا اور بعد میں ٹی وی چینل پر بھی جملہ بازی کی مگر ان کا اصرار تھا کہا یہ تقریر ایوان وزیراعظم میں لکھی گئی۔طریقہ یہ ہے کہ وہ حکومت کی طرف سے صدر کے پاس اپنے کارہائے نمایاں کو بڑھا چڑھا کر بھیجا جاتا ہے مگر اس دفعہ صدر کا اپنا حصہ اپنی تقریر میں ڈالا گیا اور محترم دستی صاحب کے علم میں یہ بات نہیں ہے کہ صدر پاکستان ، پاکستان کی انتہائی مقتدر تعلیمی درسگاہ آئی بی اے گریجویٹ ہیں۔ صدر پاکستان نے قرآن حکیم کا حوالہ دیتے ہوئے شعر پڑھ کر اپنی تقریر کا اختتام کیا۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال اپنی حالت کے بدلنے کا
تازہ ترین