• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسحٰق ڈار کی بجٹ تقریر ختم ہوئی تو ٹی وی چینلز پر وہی پرانی بحث شروع ہو گئی کہ بجٹ عوام دوست ہے یا اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ۔اس لا یعنی و بے معنی بحث سے کنی کترا کر میں گھر سے باہر نکل گیا۔دفعتاً خیال آیا کیوں نہ بجٹ کے اثرات کا جائزہ لیا جائے۔کریانے کی ایک دکان پر ٹی وی چل رہا تھا اور ادھیڑ عمر کا شخص بڑے انہماک سے بھانت بھانت کے تبصرے سُن رہا تھا۔میں نے گھی،تیل اور سگریٹ کے نرخ پوچھے تو دکاندارنے اچٹتی نظر ڈالتے ہوئے کہا،بجٹ آنے کے بعد قیمتیں بڑھ گئی ہیں ،تم نے کچھ لینا ہو تو بتائو،ورنہ مجھے لسٹ بنانے دو۔میں نے کہا،بائو جی! ابھی تو بجٹ منظور ہی نہیں ہوا اور آپ نے قیمتیں بڑھا دیں؟اس نے کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہوئے جواب دیا،کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ بجٹ منظورنہ ہوا ہو،پیش ہو گیا ہے تو منظور بھی ہو جائے گا۔میں نے سوچا جس طرح اس دکاندار نے گھی،تیل اور سگریٹ کی قیمتیں بڑھا دی ہیں ،ویسے ہی دودھ،دہی اور گوشت بھی سستا ہو چکا ہو گا،کیوں نہ آج گوشت پکایا جائے اور دودھ بھی ضرورت سے زیادہ لے لیا جائے۔سرشاری کی کیفیت میں بٹ چوک پر واقع اچھا گُجر ملک شاپ پہنچ گیا۔جب دودھ اور دہی لینے کے بعد پیسے دینے لگا تو معلوم ہوا کہ دودھ بدستور 60روپے جبکہ دہی 80روپے کلو ہے۔ٹی وی تو وہاں بھی چل رہا تھا،میں نے کھسیانی ہنسی کے ساتھ پوچھا،جناب ! آپ نے بجٹ تقریر نہیں سنی،دودھ اور دہی کے نرخ کم ہو گئے ہیں،سب ٹی وی چینلز پر یہ خبرچل رہی ہے۔اس نے مجھے حیرت سے تکتے ہوئے کہاـ’’یار تو پاگل ایں کہ جان کے کر ریا ایں‘‘ (یارتم پاگل ہو یا جان بوجھ کر اس طرح کی باتیں کر رہے ہو)میں نے سمجھا شاید گوالوں نے بجٹ منظور ہونے کے بعد نرخ کم کرنے ہوںگے اس لئے مجھے طنزیہ انداز میں جواب دیا گیا ہے۔اس لئے میں نے ایک بار پھر پوچھا،کتنے دن بعد دودھ اور دہی سستا ہو جائے گا؟’’جب کشمیر آزاد ہو جائے گا تب...‘‘ اس کے ساتھ ہی کائونٹر پر بیٹھا شخص اور اس کے سب ملازم ہنسنے لگے اور میںبھرپور عزت افزائی کے بعد باہر نکل آیا۔اس کے بعد گوشت کی دکان،پھر الیکٹرک ا سٹور اور آخر میں سیمنٹ بجری کی دکان پر کس طرح کا مکالمہ ہوا ہوگا،میرا خیال ہے یہ تفصیل بتائے بغیر ہی آپ سمجھ گئے ہونگے ۔
انہیں خیالات کے ساتھ واپس آ رہا تھا کہااچانک میرے قریب ایک چنگ چی رکشہ المعروف چاند گاڑی آ کر رُکی۔ڈرائیور نے ایک خاتون کو زبردستی نیچے اُتار دیاکیونکہ اس کے پاس کرایہ نہیں تھا۔میں نے اس بزرگ خاتون کے پاس جا کر اظہار ہمدردی کرتے ہوئے کہا،آپ رکشوں اور ویگنوں پر دھکے کیوں کھاتی پھرتی ہیں۔حکومت غریبوں کی مشکلات دور کرنے کے لئے بہت سے اقدامات کر رہی ہے۔بینظیر انکم اسپورٹ پروگرام کے ماہانہ وظیفے میں اضافہ کر دیا گیا ہے اوراس بجٹ میں تو کمال کر دیا ہے ڈار صاحب نے،بڑی گاڑیوں پر ڈیوٹی کم کر دی گئی ہے تاکہ غریب عوام چھوٹی گاڑیوں پر تنگ ہونے کے بجائے بڑی اور آرام دہ گاڑیاں خرید سکیں۔اس سے پہلے کہ میں بجٹ کے مزید فضائل بیان کرتا،خاتون نے غصے سے تلملاتے ہوئے کہا،تو جانا ایں ایتھوں کہ میں لاواں جُتی(تم جاتے ہو یہاں سے یا میں اتاروں جوتا)
یہ سب ہونے کے بعد بھی تشفی نہ ہوئی تو میں نے انجمن تاجران کے ایک صدر سے یک طرفہ دلچسپی کے امور پر تبادلہ ٔ خیال کرنے کا فیصلہ کر لیا۔میں نے چھوٹتے ہی بجٹ پر ماہرانہ رائے مانگ لی۔موصوف روائتی ناشکرے پن کے ساتھ گھسے پٹے جملے دہرانے لگے کہ بجٹ میں عوام کو کچھ نہیں ملا،غریب دشمن بجٹ سے مہنگائی مزید بڑھ جائے گی،امیر امیر تر ہوتے جائیں گے اور غریب غریب تر ہوتے جائیں گے۔میں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا،آپ نے شائد بجٹ ٹھیک طرح سے پڑھا نہیں۔یقینا آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی،بجٹ میں تو کم آمدن والے افراد کو بہت ریلیف دیا گیا ہے۔مثال کے طور پر گزشتہ بجٹ میں انویسٹرز اور بروکرز پر ظلم کا پہاڑ توڑتے ہوئے کیپیٹل گین ٹیکس کی شرح 10فیصد سے بڑھا کر 17.5فیصد کر دی گئی تھی مگر اب ان ’’غریب غرباء‘‘ کی مشکلات کا ادراک کرتے ہوئے کیپیٹل گین ٹیکس کی شرح ایک بار پھر کم کر کے 12.5فیصد کر دی گئی ہے۔ایک اور غریب پرور اقدام یہ اُٹھایا گیا ہے کہ کارپوریٹ ٹیکس کی شرح 33فیصد سے کم کر کے 20فیصد کر دی گئی ہے اس سے وہ غریب ضرور مستفید ہونگے جو اربوں روپے لگاکر بھی تنگدستی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ہاں البتہ ان مالدار افراد کو کڑوی گولیاں کھلانے کا فیصلہ ضرور کیا گیا ہے جن کے پاس بیشمار دولت ہے۔نئی بجٹ دستاویزات کے مطابق 120ارب روپے کی سبسڈیز ختم کر دی گئی ہیں کیونکہ ان سے طبقہ امرا ءعیاشیوں کا مرتکب ہو رہا تھا۔اس سے پہلے کہ میں غربت و تنگدستی کی زندگی بسر کرنے والے عوام کو دیئے گئے ریلیف کی مزید وضاحت کرتا ،انجمن تاجران کے صدر نے مجھے ٹوکتے ہوئے کہا،ٹھہرو پہلے میری بات سُن لو۔ایک مرتبہ کلاس میں ٹیچر نے بچوں سے کہا کہ غربت پر مضمون لکھ کر دکھائیں۔سب بچوں نے اپنے اپنے فہم کے مطابق مضمون لکھا،ایک بچہ جو منہ میں سونے کا چمچ لیکر پیدا ہوا تھا اور ٹیچر کو پورا یقین تھا کہ یہ ایک نہ ایک دن ضرور وزیر خزانہ بنے گا،اس نے لکھا: ’’ہمارے پڑوس میں ایک غریب خاندان رہتا ہے۔بے چارے 10مرلے کی کوٹھی میں رہتے ہیں،گھر تو اپنا ہے مگر ہے بہت بوسیدہ ۔ان کی غربت کا عالم کیا بتائوں،بیچاروں کے پاس صرف دو نوکر ہیں اور وہ بھی انتہائی غریب۔اس غریب خاندان کے پاس صرف ایک ہی گاڑی ہے اور وہ بھی تین سال پرانی جی ایل آئی۔کیا ہی اچھا ہوتا اگر ان کے پاس بچوں کو اسکول چھوڑنے کے لئے الگ گاڑی ہوتی اور ان کی ماما کو شاپنگ پر جانے کے لئے ڈرائیور کا انتظار نہ کرنا پڑتا۔مجھے تو ان پر بہت ترس آتا ہے۔ان کے بچے ہفتے میں ایک مرتبہ ہی کے ایف سی جا پاتے ہیں۔ان کا کُتا اکثر بیمار رہتا ہے کیونکہ یہ اسے امپورٹڈ بسکٹ نہیں کھلا پاتے۔قیامت خیز گرمی میں مجھے تو یہ سوچ کر ہی چکر آنے لگتے ہیں کہ بیچارے سنٹرل اے سی نہ ہونے کی وجہ سے کس طرح گزارا کرتے ہونگے؟تین کمروں میں اسپلٹ یونٹ تو لگے ہوئے ہیں مگر باتھ روم جاتے وقت تو لگ پتا جاتا ہو گا؟حکومت کو چاہئے کہ ان غریبوں کی فلاح و بہبود کے لئے اقدامات کرے تاکہ وہ بھی اچھی زندگی گزار سکیں۔‘‘
اگر تو غریب لوگ وہی ہیں جن کی نشاندہی متذکرہ بالا مضمون میں کی گئی ہے تو یہ بجٹ واقعی غریب دوست ہے ۔
تازہ ترین