محمد علی جناح کے پاکستان میں یہ افسوسناک روش چل نکلی ہے کہ جو بھی صاحبِ فکر و قلم سچ لکھنے یا بولنے کی جرأت کرتا ہے، اسے’’غدار‘‘یا ’’ملک دشمن‘‘قرار دے کر مطعون کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ ایک المیہ ہے کہ اختلاف رائے کو جرم اور جرات اظہار کو بغاوت کا نام دے دیا گیا ہے۔ ایسے میں ممتاز دانشور اور لکھاری پروفیسر وارث میر کی یاد آتی ہے جنکا کہنا تھا کہ ایک سچا لکھاری اور صحافی مشکل گھڑی میں کبھی خاموش نہیں رہ سکتا کیونکہ اسکی کمٹ منٹ اپنے قلم اور عوام کیساتھ ہوتی ہے، یہی اسکی سب سے بڑی خوبی اور یہی اسکی سب سے بڑی کمزوری بھی ہوتی ہے۔ 1970ءاور 1980ءکی دہائی میں جب جنرل ضیاء الحق کی بنیاد پرست فوجی جنتا نے حریت فکر کی جنگ لڑنے والے پروفیسر وارث میر جیسے لکھاریوں پر سنسر شپ کا شکنجہ کس دیا تو انہوں نے مصلحت پسندی اپنانے کی بجائے اپنے قلم کی کاٹ تیز تر کر دی حالانکہ وہ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ صحافت کے سربراہ تھے اور ان پر 'سرکاری سچ لکھنے کیلئے دباؤ ڈالا جا رہا تھا۔ ان کے انکار پر انہیں غدار اور ملک دشمن تک قرار دے دیا گیا۔اپنی حق گوئی کی وجہ سے وارث میر کو ان گنت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن ان کے قلم میں لغزش نہیں آئی۔ پاکستانی عوام کی فکری رہنمائی کا فریضہ سرانجام دینے والے وارث میر اپنی اس جرات مندی کی وجہ سے جنرل ضیاء کے دورِ جبر میں حریت فکر کے مجاہد قرار پائے۔ صرف 48 برس کی عمر میں ان کی اچانک اور پراسرار موت کے بعد ایک معروف اردو اخبار میں شائع ہونے والی انکی آخری تحریر جنرل ضیا کی ایک تقریر کا جواب تھی جس میں موصوف نے مارشل لا سرکار کی مخالفت کرنے والے ترقی پسند اور، روشن خیال دانشوروں اور لکھاریوں کو فکری سیم و تھور سے تعبیر کیا تھا۔ جنرل ضیا نے دھمکی دی کہ ملک کی نظریاتی سرحدوں کو کھوکھلا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور ملک سے نظریاتی سیم و تھور کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔ وارث میر نے اپنی آخری تحریر میں جنرل ضیا کو مدلل جواب دیا، جسے شائع کروانے کیلئے وارث میر کو اپنی جان دینا پڑی، کیونکہ اگر وہ زندہ رہتے تو اس کی اشاعت ممکن نہ ہوتی۔ 9جولائی 1987کو اپنی موت کے دو ہفتے بعد اگست 1987 میں شائع ہونے والے مضمون میں وارث میر نے جنرل ضیا کی تقریر کا جواب دیتے ہوئے لکھا: ’’جو لوگ آج اپنا قلم فوجی جمہوریت کے حق میں استعمال کر رہے ہیں، وہ سرکار کے محبوب ہیں اور دھڑا دھڑ حب الوطنی کے سرٹیفیکیٹ حاصل کر رہے ہیں۔ جبکہ وہ باضمیر لکھاری جو آمرانہ نظام کا حصہ بننے سے انکاری ہیں اور پاکستان کو فکری طور پر بانجھ ہونے سے بچانا چاہتے ہیں، انہیں اس دھرتی کیلئے سیم و تھور قرار دیا جا رہا ہے‘‘۔وارث میر نے لکھا کہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ جنرل ضیا نے اپنی تقریر میں جی ایم سید جیسوں کو نظریاتی سیم و تھور قرار دیا ہے تو اسے اپنی غلط فہمی دور کر لینی چاہیے۔ جنرل ضیا جب پاکستان دشمنوں کا ذکر کرتے ہیں تو وہ صرف ان پڑھنے لکھنے والوں کے بارے میں بات کرتے ہیں جو اپنی شناخت ترقی پسندانہ خیالات کے حوالے سے کراتے ہیں اور اپنے دل میں شدت سے یہ خواہش رکھتے ہیں کہ دنیا کے نقشے پر پاکستان روشن خیال شہریوں کی ماڈرن ریاست کے طور پر ابھرے، اس کی فکری شخصیت میں قوت اور توانائی پیدا ہو، اسکے عوام میں اپنے حقوق اور آزادی کے تحفظ اور غربت و افلاس، جہل اور اوہام پرستی کے خاتمے کا حوصلہ پیدا ہو اور اس میں ایسا سیاسی اور اقتصادی نظام پروان چڑھے جو استعماری سہاروں کا محتاج نہ ہو۔وارث میر نے لکھا کہ ایسی سوچ رکھنے والے لوگ ہی پاکستان کے سچے دوست ہیں جبکہ موجودہ نظام کے خالقوں کا اصل مسئلہ پاکستان سے زیادہ اپنے شخصی اقتدار کا استحکام ہے۔ اسی لیے جو لکھاری اشرافیہ کے مفاداتی گٹھ جوڑ سے تشکیل پانے والے نظام میں مقاصد پاکستان کے مطابق تبدیلی اور انقلاب کی بات کرتے ہیں وہ حاکم وقت کے نزدیک سر زمین پاکستان میں سیم و تھور کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لہٰذا سوال یہ ہے کہ ڈاکٹر اقبال اور محمد علی جناح کے ترقی پسندانہ اور روشن خیال نظریات کی سرزمین پاکستان میں آبیاری کرنے کی بجائے انکی قوت نمو کو رجعت پسندانہ اور فرسودہ پالیسیوں کی سیم و تھور کے سپرد کر دینے والے حکمرانوں کو مورخ کس نام سے یاد کرے گا‘‘۔وارث میر نے فطری طور پر تو بہت کم عمر پائی لیکن اپنی روشن خیالی اور ترقی پسندانہ افکار کی صورت میں آج بھی زندہ و جاوید ہیں۔ انکا موقف تھا کہ اسلام کے نام پر ریفرنڈم کروا کر حاکم وقت شریعت بل کا جو چورن بیچ رہا ہے وہ ذاتی مفاد پر مبنی ہے اور اسلام اور پاکستان کے تقاضوں کے منافی ہے۔اس پر ان کی زندگی اجیرن کر دی گئی اور انہیں فوج داری کیسز میں الجھا کر عدالتوں کی خاک چھاننے پر مجبور کر دیا گیا۔ تاہم وارث میر جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے سے باز نہ آئے۔ انکے نزدیک صحافت ایک کاروبار نہیں بلکہ ایک مشن ہے، جو ادب کی لطافت اور تحقیق کی گہرائی سے سچ کو اجاگر کرتا ہے۔ اسی لیے انکی تحریریں ایسی دیرپا فکری دستاویز ہیں جن میں آج بھی ہمیشگی کا عنصر پایا جاتا ہے۔ وارث میر کے اپنے الفاظ میں’’زندہ قوم کی ایک نشانی یہ ہے کہ اسکے لکھنے اور پڑھنے والوں کو پابندیوں اور قدغنوں کی کتنی ہی بیڑیاں کیوں نہ پہنا دی جائیں، انکے منہ پر کتنے ہی تالے کیوں نہ لگا دیے جائیں، وہ کسی نہ کسی طریقے سے آہ یا سسکی بھر کر احتجاج کا اظہار کر ہی دیتے ہیں، زنجیروں میں جکڑے ہوئے صاحب قلم و مطالعہ کے دل میں زنجیروں کو توڑ دینے کی خواہش نیت کی پوری قوت اور اخلاص کے ساتھ موجود ہو تو اس سے ہر حلقہ زنجیر کو زبان مل جاتی ہے، ویسے بھی ایک سچا لکھنے والا کسی کا ایجنٹ یا آلہ کار نہیں بن سکتا کیونکہ اسکا تعلق انسانیت اور اپنے معاشرے کے بہتر مستقبل سے ہوتا ہے، لہٰذا وہ انقلاب کیلئے کلاشنکوف یا میزائل چلانے کی بجائے اپنا قلم چلاتا ہے جسے وہ عوام کی امانت سمجھ کر استعمال کرتا ہے‘‘۔پروفیسر وارث میر کو اپنی قلمی جنگ کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔ ان کے آخری ایّام تکلیف دہ سہی، مگر انکا ذہن اور ضمیر مطمئن تھے کیونکہ انہوں نے دنیاوی مفادات کی خاطر قلم فروشی کی بجائے بے باک صحافت کی آبیاری خون دل سے کی۔ وہ ڈرے نہیں، جھکے نہیں، اور بکے نہیں۔ اور اسی لیے وہ آج بھی زندہ ہیں۔