مجھے گدھوں پر بہت ترس آیا کرتا تھا میں سوچتا تھا ان کی بھی کیا زندگی ہے، ان کا سارا دن سامان ڈھونے اور مالک کے چھانٹے کھانے میں گزر جاتا ہے تھوڑی دیر کیلئے ان کی کمر سے سامان اتارا جاتا ہے تو دوسری جگہ سے سامان لانے کیلئے اس دفعہ مالک ان کی کمر پر سوار ہو جاتا ہے رات گئے ان گدھوں کو کھونٹی سے باندھ دیا جاتا ہے۔ جہاں یہ چپکے چپکے آنسو بہاتے ہیں میرا خیال تھا کہ انجم خیالی مرحوم نے یہ دو شعر شایدان گدھوں کے حسب حال ہی کہے تھے۔
ہر گھر میں اک ایسا کونا ہوتا ہے
جس میں چھپ کے ہم کو رونا ہوتا ہے
پیٹ کی خاطر ہم بے بسں مزدوروں کو
چوروں کا سامان بھی ڈھونا ہوتا ہے
مگر گزشتہ روز ایک گدھا گاڑی میں جتے گدھے سے میں نے انٹرویو کیاتو میری سوچ بدل گئی۔ اس گدھے کا مالک قریبی ریستوران میں کھانا کھانے گیا تھا اور اس نے اسے جاتے ہوئے گدھا گاڑی سے الگ کر کے ایک کھونٹی سے باندھ دیا تھا اس گدھے سے جو سوال جواب ہوئے انکی تفصیل درج ذیل ہے۔
’’ گڈ آفٹرنون مائی ڈیئر ڈونکی ؟‘‘
’’آپ نے شاید مجھ سے کچھ کہا ہے؟‘‘
’’ہاں! میں نے تمہیں دو پہر کا سلام کیا ہے‘‘
’’وعلیکم السلام میں دراصل اردو میڈیم گدھا ہوں مجھے انگریزی نہیں آتی مجھے بتایا گیا تھا کہ انگریزی بولنا غلامی کی نشانی ہے بس اس وقت سے اپنی قومی زبان اردو بولتا ہوں اور انگلش میڈیم کی غلامی کرتا ہوں‘‘
’’کیا تمہارا مالک انگلش میڈیم ہے؟‘‘
’’نہیں! اردو میڈیم ہے وہ انگلش میڈیم طبقے کے لیے گدھے بھرتی کرتا ہے اور ان سے بھرتی ڈلوا کر ان کی بنیادیں مضبوط کرتا ہے‘‘ ’’میں نے سڑک پر چلتے ہوئے کئی مرتبہ دیکھا ہے کہ زیادہ سامان لادے جانے کی وجہ سے گدھا گاڑی آگے کو اُٹھ جاتی ہے اور تم اس کے ساتھ ہوا میں معلق ہو جاتے ہو۔ تم اس ظلم کے خلاف احتجاج کیوں نہیں کرتے؟‘‘
’’تم انسان خود پر ہونیوالے ظلم کیخلاف احتجاج کرتے ہو، مگر اس کاکیانتیجہ نکلتا ہے جو ہم گدھوں کے احتجاج سے نکلے گا !‘‘
’’تم کم از کم محکمہ انسداد بے رحمی حیوانات سے شکایت تو کر سکتے ہو‘‘
’’یہ محکمہ ہم گدھوں کیلئے پولیس ڈپیارٹمنٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔ کیا تم پولیس اسٹیشن جا کر اپنے اوپر ہونے والے کسی ظلم کی شکایت درج کراسکتے ہو؟اگر نہیں تو پھر اپنا مشورہ اپنے پاس رکھو ‘‘
’’میں نے سنا تھا کہ گدھا ایک بے وقوف جانور ہے لیکن تم تو اپنی باتوں سےخاصے عقلمند لگتے ہو‘‘
’’ پراپیگنڈابھی ظالموں ہی کا کیا ہوا ہے کیا تم کبھی اسلام آباد گئے ہو؟‘‘
’’ اکثر جانا ہوتا ہے‘‘۔’’پھر تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ گدھا ایک بے وقوف جانور ہے اکیسویں صدی میں چودہویں صدی کے نظام کی گدھا گاڑی کھینچنا کوئی آسان کام ہے، مگر اسلام آباد میں بیٹھے میرے بھائی بند دقیانوس نظام کی گاڑی کتنی سہولت سے کھینچتے چلے جا رہے ہیں۔ خود میں بھی ان دنوں لنڈا بازار جانے کی سوچ رہا ہوں۔ وہاں سے کسی آنجہانی امریکن کا سوٹ اور ٹائی خریدوں گا۔سنا ہےان دنوں امریکی کاغذی یونیورسٹیوں کی ڈگریاں بھی بازار سے سستے داموں مل جاتی ہیں۔ بس تھوڑے سے پیسے جمع ہو جائیں اس کے بعد اسلام آباد میں تم میرے پی اے کی معرفت مجھ سے بات کرنے کے لیے ترس جاؤ گے اور تمہیں ہر بار یہی بتایا جائے گا کہ صاحب میٹنگ میں ہیں؟‘‘
’’میں نے تم گدھے سے بات کر کے کیا لینا ہے، تمہارے پاس کہنے کیلئےڈھینچوں ڈھینچوں کے سوا ہے کیا ؟‘‘
’’اس کے علاوہ بہت کچھ ہے، کہو تو دکھاؤں!‘‘
’’یہ تم مجھ سے زیادہ فری ہونے کی کوشش نہ کرو اپنی حد میں رہو!‘‘ ’’ میں اپنی حد اور تمہاری اوقات سے واقف ہوں ‘‘ تم دوٹکے کے ایک کالم نویس ہو، جو لکھنا چاہتے ہو، وہ لکھ نہیں سکتے ، گول مول بات کر کے ظالم اور مظلوم دونوں سے داد پانے کے چکر میں رہتے ہو، ایک کالم حکومت کے خلاف لکھ کے ایک کام حکومت کو خوش کرنے والا لکھتے ہو ،ہردور میں تمہارے قلم کا زاویہ بدل جاتا ہے۔ میں تمہیں اچھی طرح جانتا ہوں میری طرح تمہاری دو لتیاں بھی تمہارے کام کی نہیں ہیں‘‘
اس گفتگو کے بعد میں نے جانا کہ جس جانور کو میں مظلوم سمجھتا تھا وہ مظلوم نہیں بلکہ انتہائی بد تمیز اور بد تہذیب جانور ہے ۔ سو میں نے مزید اس کے منہ لگنا مناسب نہ سمجھا اور چپکے سے وہاں سے چل دیا۔
(قند مکرر)