نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے اعدادوشمار کے مطابق 26جون سے14جولائی کے دوران ملک بھر میں بارشوں، سیلاب اور ہوائی طوفان کے نتیجے میں111افراد جاں بحق ہوچکے ہیں جن میں 53بچے بھی شامل ہیں۔ سب سے زیادہ اموات آبادی کے لحاظ سے بڑے صوبے پنجاب میں ہوئیں۔جبکہ مختلف علاقوں سے بارشوں، طغیانی،ندی نالوں کے ابل پڑنے کے باعث مکانوں، دکانوں،اسکولوں،اسپتالوں،اور دیگر عمارتوں میں پانی داخل ہونے، چھتوں اور دیواروں کے گرنے، کچے مکانات کے مہندم ہونے،برقی فیڈر ٹرپ کرجانے، نشیبی علاقوں میں پانی بھر جانے، موبائل سروس سمیت رسل ورسائل کے ذرائع منقطع ہونے کی اطلاعات آئی ہیں۔ مقامی سطح پر امدادی اقدامات بروئے کار لائے گئے اور جاری ہیں مگر کافی نہیں معلوم ہوتے۔ پیشگی تیاریوں کی غیر موجودگی کا احساس نمایاں ہے۔بجلی کا نظام اکثر مقامات پر متاثر ہوا۔ بلوچستان میں نصیر آباد، ڈھاڈر اور سہراب پور سے بالخصوص مکانات کے انہدام اور دیواریں گرنے سمیت نقصانات کی اطلاعات آئی ہیں لاہور سمیت پنجاب کے متعدد شہروں میں ہونے والی موسلادھار بارش 5 انسانی جانوں کے زیاں کا سبب بنی۔ حیدرآباد میں کلائوڈ برسٹ سے مشابہہ کیفیت نے غیر معمولی نقصانات پہنچائے۔ پچھلے دو برسوں کے دوران اور اس برس کی صورت حال کے تناظر میں سائنسی جریدے’’ نیچر‘‘ کا یہ تجزیہ درست ثابت ہورہا ہے کہ قدرت کی طرف سے2022ء کے سیلاب اس امر کی پیشگی اطلاع تھے کہ اب سیلاب پاکستان کے معمولات کا حصہ ہونگے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ موسمی تغیرات کے اثرات سے نمٹنے کے لیے جامع پالیسی بنائی اور روبہ عمل لائی جائے۔بارشیں اور سیلاب کئی ملکوں میں معمولات کا حصہ ہیں۔ ان ملکوں کی طرح دریاؤں کو چوڑا کرنے سمیت موثر تدابیر بروئے کارلاکر خطرات کے امکانات کم کئے جاسکتے ہیں۔