جب 7مارچ 1977 کو قومی انتخابات ہوئے ، جن میں نجانے کس کے خوف سے ذوالفقار علی بھٹو نے لاڑکانہ سے خود کو بلامقابلہ منتخب کرایا پھر ان کے چاروں وزرائے اعلیٰ اور کچھ وزیروں نے یہی راستہ اختیار کیا اور شور مچ گیا کہ دھاندلی ہو گئی ، ملتان کی دونوں نشستوں سے پیپلز پارٹی ہار گئی جیتنے والوں میں شیخ خضر حیات اور اب تک دو الیکشن ہارنے والے مولانا حامد علی خان بھی تھے۔ شیخ خضر حیات پہلی مرتبہ الیکشن لڑ رہے تھے وہ فوج داری کے بڑے وکیل تھے، جماعت اسلامی سے وابستہ تھے۔ تاہم ہم جیسے لوگ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ وہ ہمارے زمانہ طالب علمی کے ' ہم نشیں ' تھے ۔فخر بلوچ تو ایمرسن کالج کی اسٹوڈنٹس یونین کا صدر منتخب ہو کر بہت مقبول طالب علم رہنما ہو گیا ۔پہلے وہ نواں شہر کے بیوٹی جنرل اسٹور میں سیلز مین تھا ، تاہم جب فخر بلوچ نے لیڈری کی وجہ سے جیل جانا شروع کیا تو وہ اس کی 'دیہاڑیاں ' کاٹ لیتے تھے ۔ فخر بلوچ نے مجھے بتایا تھا کہ اس تنگی ترشی میں شیخ خضر حیات مدد کرتے تھے ممکن ہے انہوں نے پہچانا ہوگا کہ ملتان میں نوجوان قیادت ابھر رہی ہے ۔وہ ہم لوگوں کے ساتھ چھوٹی کرسیوں پر بیٹھ کر ادبی اجلاسوں میں شریک ہو جاتے اور میری ' ہرزہ سرائی ' کی صلاحیت سے واقف ہو کر بھی مجھ سے گریز نہیں کرتے تھے ۔اسی طرح ہمارے نوجوان ساتھی تنویر اقبال نے ایک تنظیم ' ینگ بلڈ ' بنائی اس میں مشاہیر کے اقوال اور منشور پاکٹ سائز کتابچوں میں تقسیم کئے گئے ۔ تنویر سے میں نے پوچھا کہاں سے امداد ملی ؟ اس نے کہا کسی کو بتانا نہیں شیخ صاحب نے مہربانی کی ہے ۔ ۔۔
تب ملتان میں تین اسکول بہت نمایاں تھے ایک ہمارا مسلم ہائی اسکول ، ایک خالد سعید اور بائو ٹائپ لڑکوں کا پائلٹ اسکول اور ایک مرزا مسرت مرحوم کا ملت ہائی اسکول جہاں اصغر ندیم سید ' ،فیاض احمد حسین اور تنویر اقبال پڑھتے تھے بعد میں ہمارے مہر گل محمد کا شمس آبادا سکول یا انجمن اسلامیہ کے تینوں اسکول اور پھر کینٹ بورڈ کے اسکول سامنے آئے ، لاسال اسکول امیروں کے بچوں کا ہے ہم مارے خوف کے ادھر سے گزرتے بھی نہیںتھے ۔ گویا شیخ خضر حیات میری گمراہی سے واقف تھے مگر میرے لاڈ بھی سہتے تھے ایک مرتبہ ملتان یونیورسٹی میں اردو کے لیکچرار کی نشست پر عبدالرئوف شیخ کی سلیکشن کا معاملہ لٹک گیا تب میں شیخ صاحب کے پاس بار روم میں چلا گیا کہ آپ کی گواہی چاہئے، وہ تھوڑے پریشان ہوئے تو میں نے کہا کہ آپ باریش، پنج وقتی نمازی کندھے پر رومال رکھنے والے عبدالرئوف شیخ کو اس کی زمانہ طالب علمی سے جانتے ہیں اس کا سلیکشن رک گیا ہے کہ اس کی مسلمانی ایک پمفلٹ میں مشکوک قرار دی گئی ہے۔ اب آپ نے وائس چانسلر ڈاکٹر الطاف علی قریشی سے جاکے کہنا ہے کہ وہ ایک 'صالح مسلمان ہے تب وائس چانسلر آفس گلگشت کی ایک کوٹھی میں تھا میں بھول نہیں سکتا شیخ صاحب میرے ساتھ موٹر سائیکل پر بیٹھ گئے اور قانونی زبان میں جا کے گواہی دی کہ میں نہیں جانتا کہ عبدالرئوف شیخ سلیکٹ ہوئے ہیں کہ نہیں لیکن اگر ان کےتقرر کو اس لئے روک دیا گیا ہے کہ ان کے کردار اور اسلام سے رغبت کے بارے میں کوئی شک و شبہ ہے تو وہ الحمدللہ مرد صالح ہیں ( انوار احمد کے برعکس ) مجھے آج تک الطاف علی قریشی مرحوم کے الفاظ یاد ہیں 'شیخ صاحب! آپ کی گواہی کے بعد اب کوئی رکاوٹ نہیں رہی ۔
٭٭٭٭
ابھی پچھلے ہفتے لیاری میں کئی منزلہ عمارت گری اور ہمارے میڈیا نے جہاں لواحقین کے بین سنائے وہاں پیپلز پارٹی کا گڑھ کہلانے والے علاقے کے مکینوں کی ترجیحات کے بارے میں کئی باتیں سننے کو ملیں۔میں کراچی تو کیا لیاری کو بھی جاننے کا دعویٰ نہیں کرتا یہ ضرور یاد ہے کہ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی دعوت پر نجیب جمال اور میں حلقہ نگار و نیاز کی تقریب میں شریک تھے (جس پر مشفق خواجہ صاحب نے اپنے کالم میں پھبتی کسی کہ ملتان سے ایک ریوڑ بھی تقریب میں تھا )افتخار عارف ، جمیل الدین عالی جیسے بزرگ بھی اجلاس میں تھے جامعہ کراچی کے سابق صدر شعبہ فلسفہ ڈاکٹر منظور مقالہ پڑھ رہے تھے کہ میری بیٹی کا میسج آیا 'ابوجی ! ظالموں نے بے نظیر کو مار دیا۔ میں نے کہا یہ ہو نہیں سکتا ۔ جنرل بابر نے بیت اللہ محسود سے پوچھا ہے اور اس نے کہا ہے کہ ہم عورتوں پر ہاتھ نہیں اٹھاتے خود اسکےگلے میں کئی فقیروں کے تعویذ اور بازوئوں پر امام ضامن بندھے ہیں ہم سب کی دعائیں بھی اس کی بلٹ پروف جیکٹ پر چسپاں ہیں ۔ اس نے لکھا 'یہ تصدیق شدہ خبر ہے مخدوم امین فہیم جنرل مشرف کی قیام گاہ پر ہیں ۔سو ہم نے مقالہ نگار ڈاکٹر منظور احمد کو آوازیں دیں اور پھر چٹ بھیجی جس پر جلسہ اچانک ختم ہوا۔ اب کراچی والوں کو تو اندازہ تھا کہ اس کے بعد کیا ہوگا عالی صاحب سب سے پہلے گئے پھر فرمان صاحب بھی افتخار عارف ہم سے گلے مل کے افسوس کرکے چلے گئے ۔ ہم لوگ جامعہ کراچی کے ہوسٹل میں ٹھہرے تھے سو ڈاکٹر تنظیم الفردوس کی گاڑی میں تھے جسے وہ خود ڈرائیو کر رہی تھیں باہر نکلے تو بتایا گیا کہ یہ نیم برہنہ ننگے پائوں لیاری کے لوگ ہیں جن کے ہاتھ میں پٹرول کے ڈبے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے کئی گاڑیاں دھڑا دھڑ جلنا شروع ہو گئیں ، ہماری گاڑی کو بھی ایک ہجوم نے گھیرا جن کے ہاتھوں میں درختوں کی ٹہنیاں نہیں تنے تھے ، میں نے چیخ کے کہا ہم بھی بے نظیر کی شہادت کا ماتم کر رہے ہیں ہماری گاڑی کے شیشے نہ توڑیں ، نہ آگ لگائیں کہ یہ ایک خاتون ہی ڈرائیو کر رہی ہیں ۔ ایک وحشت زدہ نوجوان نے زور سے کہا ’’ یہ گاڑی ایک لیڈیز چلا رہی ہے اسے جانے دو ‘‘ ہم وہاں سے نکلے تو جگہ جگہ گاڑیاں جل رہی تھیں۔ تنظیم الفردوس جدھر بھی گاڑی موڑتیں آگ اورپتھر ہمارا راستہ روکتے ،ڈاکٹر معین الدین عقیل کی گاڑی بڑی تھی مگر ہم نے دیکھا کہ ان کاماتھا زخمی ہے انہوں نے ایک جاپانی طالب علم نشی مورا ہمارے حوالے کیا کہ اسے اپنے ساتھ رکھیں ۔وہ رات ہمیں کبھی نہیں بھول سکتی ۔