یہ کوئی 50برس پہلے کی بات ہے۔ خواتین کے اردو اور انگریزی میں ماہ نامے اور ہفت روز ہ شمار ے خاص کر کراچی سے شروع ہوئے ۔انگریزی اوراردو ، دونوں کے حلقئہ صحافت میں خواتین زیادہ اور مرد کم تھے۔ بلکہ زیادہ شماروں کی ایڈیٹر خواتین ہی ہوتی تھیں۔ انگریزی میںرضیہ بھٹی، انیس مرزا، مریم حسیب، اردومیں شہ فرخ، فریدہ حفیظ اورشمیم اکرام۔ اردو میں اخبار خواتین، روح رواں، اخبارِ جہاں کے علاوہ ، ہفت وار ایڈیشن بھی ادبی موضوعات پر ہوتے تھے ۔ پھر سنسر شپ کے ضیاءا لحق کے زمانے سےلیکر مشرف اورا ب کی حکومت کے دور میں ڈیجیٹل ٹریننگ ایسے مارکیٹ پہ چھائی کہ اردو اور انگریزی دونوں میں ہفت روزہ اور ماہنامہ ایک ایک کرکے بند ہونا شروع ہوئے یا پھر انکے ایڈیشن ڈیجیٹل نکلنا شروع ہوئے۔ اب تو فرائی ڈے ٹائمز ، ہیرالڈ کے علاوہ باقی سارے روزنامے اسلئے بند ہوگئے کہ پڑھنے والوں کو کمپیوٹر کے ساتھ ڈیجیٹل فارمیشن کی مہارت حاصل تھی، وہ سارے کالم اور اخبار اسطرح پڑھا کرتےتھے ۔اب یوٹیوب اور ٹی وی کے لاکھوں طریقوں سے اصلی اور نقلی خبر پہنچ جاتی تھی ۔وہ زمانے گزرگئے جب پورے محلےکے ہر گھر میں اخبار آتا تھا، پھر زمانے آئے کہ محلے بھر میں ایک اخبار آتا تھا اورسارے بزرگ خبروں کے علاوہ تلاش رشتہ تک کے اشتہار پڑھ لیتے تھے ، اور اب یہ حال ہے کہ میری بلڈنگ کےڈیڑھ سوفلیٹ میں، میرے علاوہ ایک اور فلور پر اخبار والا آتا ہے۔
مجھے زبیدہ مصطفیٰ اسلئے یاد آئی کہ کوئی چارسال پہلے کسی بیماری کے باعث ، اسےآنکھوں سے نظر آنا بند ہوگیا تھا۔ مگر اس بہادر خاتون نے نہ صرف ڈان میں اپنی نوکری برقرار رکھی بلکہ کالم لکھتی اور تقریبات میں بھی جاتی رہی ۔ جب ڈان میں وہ شامل ہوئی تو اس وقت عملے میں چند خواتین تھیں ۔ زبیدہ نے مجھے بہت سے موضوعات دیے کہ ان پر لکھو۔ ابھی تک زبیدہ ! تمہارے دیئے ہوئے موضوعات مجھ پر قرض ہیں۔
تم نے مجھے کہا تھا کہ ایک بچے کی اسکول کی ابتدائی کلاسوں میں کتابوں کا خرچ ساڑھے تین ہزار روپے آتا ہے۔ تم نے مجھے کہا تھا کہ سرکار کے پاس تو وقت نہیں ،وہ تو بچوں کو دوپہر کا کھانا دینے کا اعلان کرتی ہے ،دیتی کبھی نہیں۔ مگر بچوں کیلئے سب سے ضروری چیز ہوتی ہے، کتابیں۔ غریب والدین جو تعداد میں 45 فی صد سے زیادہ ہیں۔ پاکستانی ٹائیکونوں کو کتابیں بنانے اور شائع کرنے اور اسکولوں تک پہنچانے کی ذمہ داری دیں اور اَور وہ جو انکم ٹیکس کی رقم چھپا لیتے ہیں اسکو ضروری خرچ میں شامل کریں۔
پاکستان میں بہت اشتہاروں کے باوجود، دو کروڑ بچوں کیلئے یا تو اسکول ہی نہیں،اسکول ہیں تو استاد نہیں۔ کہیں کیا اکثر اسکولوں میں بھینسیں بندھی ہوتی ہیں۔ بہت سے علاقوں میں جو بھی شادی ہو، اسکول کی عمارت استعمال کی جاتی ہے۔ اس دن بچوں کو چھٹی دیدی جاتی ہے، یہ سب کچھ پاکستان کے قیام سے اب تک یعنی 78سال سے جاری ہے۔ بہت دفعہ تعلیم بالغان شروع…ختم…شروع …ختم۔
اور اخبار کھولو تو پتہ چلتا ہے کہ ہزاروں لیپ ٹاپ بچوں کو دیدیے گئے۔ اسکول میں کوئی ٹیچر کمپیوٹر ماہر نہیں، بلیک بورڈ اب تک باقاعدہ استعمال ہوتے ہیں، رہی کمپیوٹر کے ذریعے گھر بیٹھے تعلیم اور دفتروں میں کام (جو کورونا کے دنوں میں شروع کیا گیا تھا) اس کے نتائج بھی خوش کن نہیں رہے۔
زبیدہ !تم نے مجھے بھی بچوں کیلئے اور نئی کتابیں لکھنے کی بار بار تلقین کی مگر جو کتابیں پہلے لکھی تھیں وہ بھی ڈھیروں پڑی ہیں کہ مائیں بڑے فیشنی طریقے سےبتاتی ہیںکہ میرے بچے کو اردو نہیں آتی۔زبیدہ مصطفیٰ کے علاوہ تسنیم منٹو بھی تین دن ہوئے جسم میں آکسیجن کم ہونے کی وجہ سے قبر میں چلی گئی۔ وہ بذات خود، طاہرہ مظہر علی کے ساتھ گڑھی شاہو میں غریبوںکی بستیوں میں کام کرتی تھی۔ عابد منٹو جیسے معتبر اور انسانی حقوق کیلئے لڑنے والے شخص وکیل تھے جو مفت انکے کیس لڑا کرتے تھے۔ جن کے کیس منٹو صاحب لڑتے تھے ان کے گھرانوں کی کفالت خود بخود تسنیم کیا کرتی تھی، جب ویف بنی اور پاکستان بھر کی عورتوں نے اس تحریک میں حصہ لیا تو ضیاء الحق کے زمانے سے لیکر اب تک تھوڑے بہت فیملی لا، لڑکیوں کی شادی کی عمر اور نکاح نامے میں تبدیلیاں تمام وکیلوں اور عورتوں کی مسلسل کوششوں سے ممکن ہوئیں۔ عابد منٹو نے تو نئی سیاسی تحریک کی چیئرمین شپ بھی لی تھی اور وہ بھی اعزازی ،منٹو صاحب نے تو ضیاء کے زمانے میں احمد فراز کو طاقتورحلقوں سے چھڑانے کا کام بھی ہمارے ساتھ کیا تھا۔ تسنیم ہر فلاحی اور انسانی کاموں کے علاوہ، کبھی کبھی افسانے بھی لکھتی تھی ،سلمیٰ اعوان، سیما بہروز اور تسنیم نے نئے لکھنے والوں کی ایسی محفل بنائی تھی کہ کم از کم پندرہ دن میں کوئی بیٹھک ہوتی۔
یہ سب خواتین، حامد علی خان، صدیقہ بیگم اور اظہر جاوید کے رسالوں میں اپنی تخلیقات بھیجتیں اور خوب پڑھی جاتیں۔ تسنیم اور منٹو صاحب کا بیٹا بلال، بہت ذہین تھا ، وہ بھی ماں باپ کی طرح غریبوں کے مقدمات کے علاوہ، ہماری عاصمہ جہانگیر کی طرح ہر انسانی جھگڑے پر کام کرتا۔ آج مجھے عاصمہ اسلئے بھی یاد آرہی ہیں کہ یہ جو لڑکیاں،خواتین اکیلی رہتی ہیں۔وہ انکی مدد کیلئے بھی کام کرتی تھیں۔ عاصمہ آج زندہ ہوتیں تو حمیرا جیسی جوان لڑکی8 ماہ تک لاش کی صورت نہ پڑی رہتی۔ روز خود کشی کرتی عورتیں نہ دیکھتی۔ اب نہ تسنیم اور نہ زبیدہ مصطفیٰ۔ اللّٰہ رحمت کرے۔