• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بشریٰ ودود

’’اُف اللہ…یہ پھر آگئیں، اپنی زبان کے تیر چلانے، منہ سےزہر اُگلنے…‘‘ زبیدہ آپا کو دُور سے آتا دیکھ کرایک پل کو تو صبا کا دل جیسے بیٹھنے لگا۔ لیکن آج اُس نے بھی تہیّہ کر ہی لیا تھا کہ وہ بالکل خاموش نہیں رہے گی۔ 

زبیدہ آپا تھیں ہی ایسی۔ اُن کی قینچی کی طرح چلتی زبان ہر ایک کا دل کاٹے ڈالتی۔ کسی کی مزاج پُرسی بھی کرتیں، توکہتیں۔ ’’ہاں بھئی کیسی ہو؟ زندہ بھی ہو کہ نہیں۔‘‘ کسی کو یوں مخاطب کرتیں۔ ’’ارے! توبہ ہے بھئی، تم تو مجرموں کی طرح گھر میں چھپی بیٹھی ہو۔‘‘ ’’وہ اصل میں آپا…گھر میں مصروفیت بہت زیادہ تھی ناں، اِس لیےمیں…‘‘ اگلی بےچاری ہکلاتی ہی رہ جاتی، مگر آپا نہ چُوکتیں۔ ’’ہاں، ہم تو جیسے فالتو بیٹھے ہیں ناں۔ بھئی، ہمارا بھی گھر بارہے۔ سڑک پر تھوڑی پڑے ہیں۔‘‘ بس، جو اُن کے ہاتھ لگ جائے، سمجھو وہ گیا کام سے۔

’’ارے بھابھی بیگم! آپ کے گھر نواسا ہوا تو ایک فون کرنے کی توفیق نہ ہوئی آپ کو… ہم تو جیسے غیر ہوگئے۔‘‘ ’’نہیں، نہیں آپا! وہ اصل میں شبنم کے ٹانکوں میں بہت درد تھا، تو اُس کا سب کام…‘‘ ابھی بھابھی بیگم کی بات پوری بھی نہ ہونے پائی تھی کہ آگے سے بولیں۔ ’’اے لو! یہ تو آپ نے بتایا ہی نہیں کہ آپریشن ہوا ہے۔ ارے میں آتی تو 10 ایسے ٹوٹکے بتاتی کہ بچّی خیر سے دوسرے دن اُٹھ کھڑی ہوتی۔ آپ نے تو بس مٹھائی گھر بھجوا کر جان چُھڑالی۔‘‘ ’’ارے آپا! آپ کو بچّے کو گھر آکر دیکھنا تو تھا ہی ناں۔‘‘ بھابھی بیگم کے بجائے اُن کی بہن بولی۔ ’’ہاں، ہاں تم تو رہنے ہی دو۔ 

تم نے کون سا بتا دیا کہ تمہاری بچّی کا اے ون گریڈ آیا ہے۔ ہم کون سا حسد کرنے والے تھے، دُعا ہی دیتے۔‘‘ ’’ارے آپا! صرف اے ون گریڈ نہیں، اُس کی تو تیسری پوزیشن تھی۔ سارے کراچی میں دُھوم مچی تھی۔ آپ نے اخبار میں نہیں دیکھی تصویر۔‘‘ بھابھی کی بہن نے کافی جوش و خروش سے کہا۔ مگر آگے سے سُننے کو کیا ملا۔ ’’ہاں ہاں بس، یہی کسر رہ گئی ہے کہ سامنے کے بچّوں کی خبریں اخباروں میں دیکھتے پِھریں۔ مٹھائی دے کرسلام کرنے بھیجنا چاہیے تھا۔ مگر تمہیں کہاں کسی رکھ رکھاؤ کی پروا؟ 

جب بڑوں ہی کو ڈھنگ نہ آئے، تو بچّوں کو بھلا کہاں سے کوئی تمیز، سلیقہ آئے گا، تقریبات میں بھی پاس سے گزر جاتے ہیں۔ ہائے خالہ… اور بائے، بائے خالہ۔‘‘ آخر کتنا سُنیں، بے چارے سُننے والے بھی۔ کوئی تو بڑبڑا ہی لیتا۔ ’’ہاں اپنے بچّوں کو بڑی تمیز ہے، وہ سلام کرنا تو دُور، نظر اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتے۔ اُنہیں دیکھ کر تو ہم خُود ہی ہائے ہائے کرتے رہ جاتے ہیں۔‘‘ ’’کیا کہہ رہی ہو، ذرا زور سے بولو! دَم نہیں ہے، جو آواز نہیں نکل رہی؟‘‘ آپا کچھ اور زور سے چِلّاتیں۔ ’’کیا کہیں، آپ سے توبہ ہی بھلی۔‘‘ بڑبڑانے والے ہی کی ہمّت دَم توڑ جاتی۔

ابھی کل کی بات تھی، ثریا کے گھر پہلی بیٹی ہوئی۔ ثریا ہی کی طرح حسین و جمیل۔ ہر کوئی تعریفیں کررہا تھا۔ زبیدہ آپا گئیں، تو بولیں۔ ’’ہائے رنگ تو دیکھو، بالکل انگریزوں جیسا لگ رہا ہے، ذرا نمک نہیں شکل پر اور آنکھیں کتنی بڑی بڑی ہیں، سارے چہرے پہ صرف آنکھیں ہی آنکھیں نظر آرہی ہیں۔‘‘ بچی کی دادی نےاُن کی بات کا اتنا بُرا مانا کہ سمدھن سے شکایت کی۔ 

وہ بےچاری کیا کہتیں، بس مُسکرا کررہ گئیں۔ ’’وہ بہن! آپا کی ایسی ہی عادت ہے، پر دل کی بُری نہیں ہیں۔‘‘ ’’ارے، رہنے دیجیے بہن! دل کس نے چیر کے دیکھا ہے، سب معاملہ تو زبان ہی کا ہے۔ ہم تو وہی جانتے ہیں، جو کانوں سے سُنا، باقی دل رکھیں وہ اپنے پاس۔‘‘ ثریا کی ساس کو اپنی اتنی خُوب صُورت بہو اور حسین ترین پوتی سے متعلق آپا کی گوہر افشانی قطعاً نہ بھائی تھی۔

’’ارے نغمہ! کہاں جا رہی ہو؟‘‘ اپنے گیٹ پر کھڑی آپا نے پڑوسن کو آواز لگائی۔ ’’بس ذرا مارکیٹ تک جارہی تھی۔‘‘ ’’گھر میں بچّی کو اکیلا چھوڑ کر تم روز کہاں پھرتی رہتی ہو؟ زمانہ اچھا نہیں ہے بھئی۔‘‘ ’’نہیں آپا! وہ تو اپنا پڑھنے میں لگی ہے۔ بس، مَیں ابھی25, 20 منٹ میں آجاؤں گی۔‘‘ نغمہ نے آہستگی سے کہا۔ ’’ارے، 20 منٹ تو بہت ہوتے ہیں، برائی آنے میں تو ایک لمحہ نہیں لگتا۔‘‘ آپا بولیں۔ ’’توبہ ہے آپا! آپ بھی بس…‘‘عاجز آگئی ہوں، مَیں تو اِن کی ہروقت کی تاک جھانک سے۔ 

نغمہ جی ہی جی میں کڑھتی آگے بڑھ گئی۔ ’’کیا کہہ رہی ہو؟‘‘وہ پیچھے سے کہتی ہی رہ گئیں۔ ’’سنو ثمینہ! تم نے رشتہ تو طے کردیا ہے بیٹی کا۔ کچھ دیکھا، جانچا بھی کہ لڑکا کیسا ہے؟ بھئی، ہم تو دُعا ہی دیتے ہیں، مگر دھیان رکھنا، آج کل طلاقیں بہت عام ہوگئی ہیں۔‘‘ ’’خدا کا خوف کریں آپا! کوئی اچھی بات منہ سے نکالیں۔ اللہ کا نام لیں۔‘‘ ثمینہ تو جیسے تڑپ ہی گئیں۔ ’’ارے! مَیں کون سا تمہاری بیٹی کو گھر بٹھا رہی ہوں؟ مَیں نے تو خدا لگتی کہی ہے۔ جو دُنیا میں ہوتا دیکھ رہے ہیں، کہنے سے کیسے باز رہیں۔‘‘ آپا اور اپنی غلطی مان جائیں، ناممکنات میں سے تھا۔

سچ تو یہ تھا کہ آپا زبیدہ کو دُور سے آتا دیکھ کر ہی سب کانوں کو ہاتھ لگانا شروع کردیتے تھے، مگر، پھر اُن کی عُمرکا لحاظ کر کے، اُن کی کڑوی کسیلی باتوں کا زہر اپنے اندر انڈیل ہی لیتے۔ کبھی کبھار کوئی تھوڑی بہت چون و چرا کرتا بھی، تو آگے سے ایک کی دس سُننے کو مل جاتیں۔ صبا نے جو اُنھیں دُور سے آتا دیکھا، تو کمر کس لی۔ اور اِس سے پہلے کہ آپا آکر کوئی نیا کٹّا کھولتیں۔ 

اُن کے بولنے سے پہلے ہی شروع ہوگئی۔ ’’آپا! کل آپ کے گھر میں بہت چیخ و پکار ہورہی تھی، خیر تو تھی؟؟ میری مانیں، اپنے گھر میں ٹِک کے بیٹھا کریں، آپ کی بہوئیں، بیٹے سب سے کہتے پِھرتے ہیں کہ یہ گھر سے نکلتی ہیں، تو ہم سُکھ کا سانس لیتے ہیں۔‘‘ اور…آپا کو تو جیسے پتنگے لگ گئے۔ ’’ہائیں…ہائیں… ہائیں!!‘‘ کرتی جو پلٹیں، تو ایک بار بھی مڑ کر نہیں دیکھا۔