ہرسیاسی اور مذہبی جماعت کے لیڈر سر گنگا رام سے کئی گنا امیر ہیں کاش جاتی امرا کے لوگ اپنے اس محل کو اسپتال میں منتقل کر دیں۔ جس طرح سر گنگا رام نے اپنی ذاتی کوٹھی جو پندرہ /بیس کنال کی تھی، اس میں ہیلی کالج بنا دیا تھا ۔ارے سرگنگا رام نے یہ لاہور کے چیف کورٹ ( موجودہ لاہور ہائی کورٹ ) کی انصاف کی عمارت بھی تو ڈیزائن کی تھی۔ عمارات کی ایک فہرست ہے جو سر گنگا رام نے بنائی تھیں مگر کسی عمارت پر اپنے نام کی تختی نہ لگائی اور نہ کہیں کوئی تصویر لگائی ایک پورا اسپتال سرگنگا رام نے بنایا ہے۔ صرف ایک گنگا پور اور سرگنگا رام اسپتال لاہور اورنئی دہلی ان کے نام پر سر گنگا رام ا سپتال ہیں اور جو انسانیت کے لیے انہوں نے بے شمار کام کیے کہیں پر بھی اپنی مورتی یا تختی نہیں لگائی جبکہ دوسری طرف ہمارے ہاںپہلے سے تعمیر شدہ بنیادی صحت کے مراکز اور اداروں پر لوگ اپنے نام کی تختیاں اور انہیں اپنے نام پر کر رہے ہیں ۔ ارے اس سر گنگا رام نے تو اپنی جیب سے لاکھوں روپے خرچ کر دیے جو آج کے کروڑوں اور اربوں روپے بنتے ہیں اور کہیں بھی خود نمائی نہ کی نہ اپنی ذات کو آگے لے کر آئے ہم نے تو ان کے بالک رام میڈیکل کالج کا نام بھی تبدیل کر دیا۔اس کانام فاطمہ جناح میڈیکل کالج (اب یونیورسٹی)کر دیا۔ آج ان کی سمادھی لاہور کے گمنام علاقے میں ہے بلکہ اس کی زمین کے کچھ حصے پر بھی لوگ قبضہ کر چکے ہیں اور سمادھی کو تالا لگا ہوا ہے تا کہ لوگ قبضہ نہ کر لیں یہ ہمارا رویہ ہے لاہور کے محسن کے ساتھ ۔
سرگنگا رام دھیمے لہجے میں بولتے جا رہے تھے اور میں خاموشی سے ان کی باتیں سن رہا تھا انہوں نے کہا کہ جس طرح تمہارے حکمران آج جگہ جگہ ان عمارات پر اپنے نام چسپاں کر رہے ہیںوہ عمارات تو انہوں نے اپنے پیسے سے بھی نہیں بنائیں اور میں نے تو پورے پنجاب( مشرقی اور مغربی پنجاب دونوں) میںاپنی جیب سے بے شمارعمارات بنائیں ان کی ڈیزائننگ کی۔ بھائی رام سنگھ نے تعمیرات کیں۔آج تو لاہور کی کسی عمارت پر بھائی رام سنگھ کا نام نہیں اگر میں اپنا نام ان عمارات پر دینا چاہتا تو کوئی مجھے روک سکتا تھا ؟۔گوروں نے میری خدمات کے اعتراف میں کئی اعزاز دیے۔ ارے میں کامرس کی تعلیم کے لیے اپنی کوٹھی جو فرنشڈ تھی ،وہ تک دے آیا تھا۔ پھر وہ ہنسے اور کہا کہ تم لوگ کب کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کا نام تبدیل کر رہے ہو کنگ ایڈورڈ تو مر چکا اس کی کئی نسلیں بھی مر چکی ہیں ۔ارے ابھی تو گوروں کی بہت ساری عمارات موجود ہیں ان کے نام بھی بدل ڈالو کوئی نہیں آ کر پوچھے گا کہ تم نے ان کے نام کیوں بدلے ہیں۔ارے تم لوگوں نے میو اسپتال کے اندر گوروں کے ناموں کی کئی تختیاں غائب کر دیں ۔ میں نے تو لڑکیوں کی فنی تعلیم کے لئے پہلاادارہ بنایا۔کئی ریلوے پل اور دریا کے پلوں پر کام کیا۔بنجر زمینوں کو قابل کاشت بنایا۔نہریں کھدوائیں ۔کیا میں ان تمام کاموں پر اپنا نام اور تصویر نہیں لگا سکتا تھا،جو کہ میر احق تھامگرسارے کام عوام کی فلاح کے لئے کئے۔سرگنگا رام کی آوازآہستہ آہستہ کم اور چہرہ دھندلا سا ہوتا جا رہا تھا اور ان کے چہرے پر دکھ اور مایوسی کے آثار نمودار ہو چکے تھے آنکھیں غم زدہ ہو چکی تھیں۔ اسی اثنا میں صبح کی اذان ہو گئی اور ہماری آنکھ کھل گئی پہلے تو ہم نے سمجھا کہ سر گنگا رام ہمارے قریب ہی موجود ہیں پھر ہم ایک گہری سوچ میں کھو گئے ۔آخر سر گنگا رام کیا انسان تھے انہوں نے تو صرف 20 سال میں وہ کام کر دیے جو ہماری نون لیگ کی حکومت اور پیپلز پارٹی کی حکومتیں پچھلے 42 برس میں نہ کر سکیں وہ ا کیلا شخص ایک کے بعد ایک منصوبے بناتا چلا گیا ۔دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ آج تک لاہور کالج برائے خواتین اب یونیورسٹی کی کسی انتظامیہ کسی پرنسپل اور کسی وائس چانسلر کو یہ احساس نہیں ہوا ۔لاہور کالج کی اصل عمارت جو کہ سر گنگارام نے تعمیر کی تھی جہاں پر اصل لاہور کالج کی کلاسیں یونیورسٹی بننے سے قبل تک ہوتی رہی تھیںاور آج انٹرمیڈیٹ کی کلاسیں ہو رہی ہیںاس عمارت میں کئی دفاتر ہیںہم نے اس عمارت میں پرنسپل کا وہ تاریخی دفتر ختم کر ڈالا۔اس عمارت میں میوزیم بنایا مگر کہیں بھی سرگنگا رام کے کارناموں کی تفصیل نہیں ۔آخر ہم ان محسنوں ، جنھوں نے اپنی جیب سے اسکولز،کالجز اور اسپتالز بنائے، کے ساتھ کب تک بے حسی کا مظاہرہ کرتے رہیں گے؟ ۔ ہم نے کئی پرنسپلوں اور وائس چانسلرز کو خود کہا کہ ایک ایسا محسن جس نے لاہور کالج کی یہ عمارت دی اس کا کہیں تو ذکر کر دو ہمیں تو یہ توفیق نہیں کہ راوی روڈ کریم پارک میں جہاں پر سر گنگا رام کی سمادھی ہے وہاں پر اس محسن لاہور کے بارے میں چند سطریں لکھ کر لگا دیں کہ انہوں نے اس شہر باکمال کو کیا دیا۔لاہور میں ہندوؤں اور سکھوں نے کئی دھر م شالہ اور فلاحی ادارے بنائے تھے بہت ہی کم لاہوریوں کو اس بارے میں علم ہوگا کہ لاہور کے ایک اسپتال کا افتتاح مہاتما گاندھی نے کیا تھا اور پھر اس ا سپتال میں قائد اعظم اور محترمہ فاطمہ جناح بھی تشریف لائے تھے لیکن ہم کتنے بے حس لوگ ہیں ہم نے کبھی ان باتوں کو اجاگر کیا؟۔ ایک طرف ہمارے وہ حکمران ہیں جوہر طرف جگہ جگہ ان عمارات کو اپنے نام کر رہے ہیں جو بنائی تو کسی نے اور سابق ادوار میں تعمیر ہوئی تھیں مگر ان پر اپنے نام لکھ رہے ہیں کاش ہمارے حکمران اپنی جیب سے یہ عمارت تعمیر کرتے اور پھربھلے اس پراپنے پورے خاندان کا نام لکھ لیتے جس اسپتال کا ہم ذکر کر رہے ہیں وہاں کے ایک پروفیسر ڈاکٹر ظہیر اختر جنہیں لاہور سے بہت پیار ہے انہوں نے قائد اعظم کی وہ تحریر فریم کرا کے رکھی ہوئی ہے وہ اس اسپتال میں موجود ہے۔