پاکستان کی مختلف تجارتی و صنعتی تنظیموں کے رہنماؤں کی فیلڈ مارشل سید عاصم منیر سے ہونیوالی حالیہ ملاقات کے بعد ٹیکس قوانین میں کی گئی متنازع تبدیلیوں پر معاملات افہام و تفہیم سے حل ہونیکی امید پیدا ہوئی ہے۔ اس ملاقات کے بعد صنعتی حلقوں اور تاجروں کا اعتماد بحال ہوا ہے اور ٹیکس قوانین کے متنازع سیکشن 37اے اور 37بی کیساتھ ساتھ فنانس ایکٹ 2025 ء میں شامل دیگر کاروبار مخالف اقدامات اور 32بے ضابطگیوں کیخلاف جاری احتجاج کو روک دیا گیا ہے۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کیساتھ تجارتی و صنعتی وفد کی ملاقات میں شامل بزنس کمیونٹی کے لوگوں کا کہنا ہے کہ فیلڈ مارشل نے انکے تحفظات کو انتہائی تحمل اور سنجیدگی سے سنکر انکے حل کی یقین دہانی کروائی ہے۔ اس طرح فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے بروقت مداخلت کرکے ملک کو ایک بڑے معاشی بحران سے بچا لیا ہے۔ بنیادی طور پر بزنس کمیونٹی کو ٹیکس قوانین میں کی گئی جن تبدیلیوں پر اعتراض ہے ان میں ایف بی آر کو گرفتاریوں کے اختیارات دینے کے علاوہ کسی فرد کی گرفتاری کی صورت میں اپنائے جانیوالے طریقہ کار کے قانون سیکشن 37بی اور رجسٹریشن نہ کروانے کی صورت میں کی جانیوالی کارروائیاں کے متعلق سیکشن 14اے ای شامل ہیں۔ اسی طرح ٹیکس کا تعین اور وصولی والے سیکشن 11ای، ٹیکس فراڈ یا اس میں معاونت کی سزا والے سیکشن 33 (13اور 13اے)، ماہرین اور آڈیٹرز کی تقرری کے متعلق سیکشن 32بی اور اخراجات کی نامنظوری والے قانون کے سیکشن 21ایس پر تحفظات ہیں۔ اس حوالے سے فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی جانب سے یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ کسی کو ہراساں نہیں کیا جائیگا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ اس ملاقات کے بعد حکومت نے سیلز ٹیکس ایکٹ 1990ء کی شق 37اے اور 37بی کو عارضی طور پر معطل کرکے ایف بی آر کو تمام اسٹیک ہولڈرز سے بامقصد اور حل پر مبنی مذاکرات کرنے کی ہدایات جاری کر دی ہیں۔ علاوہ ازیں حکومت نے بینکوں میں کیش جمع کروانے کی حد بھی دو لاکھ سے بڑھا کر 25 لاکھ کر دی ہے۔ ایف بی آر کے حکام کو گرفتاری کا اختیار دینے کے حوالے سے اگرچہ حکومت کا یہ موقف ہے کہ ایف بی آر کے اسسٹنٹ کمشنرز کو پہلے بھی یہ اختیار حاصل ہے کہ کسی پر اگر دورانِ انکوائری شک ہوتا ہے تو وہ اسے گرفتار کر سکتے ہیں لیکن یکم جولائی سے قانون میں جو تبدیلی ہوئی ہے اسکے مطابق اسسٹنٹ کمشنر، کمشنر یا چیف کمشنر پر یہ پابندی عائد کی گئی ہے کہ اگر انکوائری کے دوران انہیں کوئی بے ضابطگی نظر آتی ہے تو وہ چیئرمین ایف بی آر کو مطلع کرینگے۔ اسکے بعد وہ تین رکنی ایف بی آر ممبر کی کمیٹی بنائیگا جو اسکی تحقیقات کرکے فیصلہ کریگی کہ گرفتار کیا جائے یا نہیں۔ تاہم اس پر بھی اب یہ طے ہوا ہے کہ ایف پی سی سی، ایف بی آر چیمبر، شکایت کنندہ اور انڈسٹری کے نمائندوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جائے جو اس ترمیم کو ختم کرنے یا برقرار رکھنے سے متعلق پندرہ دن میں حتمی فیصلہ کرے گی۔فیلڈ مارشل عاصم منیر سے ملاقات میں بزنس کمیونٹی کی جانب سے جن دیگر امور پر بات کی گئی ان میں کاروباری سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے شرح سود کو افراطِ زر کے مطابق کم کرنے، ایکسپورٹ فیسیلی ٹیشن اسکیم کی بحالی کے ساتھ ساتھ کپاس اور یارن کی درآمد پر 18 فیصد سیلز ٹیکس کے نفاذ کا معاملہ بھی شامل ہے۔ انہوں نے ان مسائل کو بھی جلد از جلد حل کروانے کی یقین دہانی کروائی ہے جس سے ایکسپورٹرز میں پائی جانیوالی بے چینی اور اضطراب میں خاطر خواہ کمی آئی ہے۔ تاہم یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ چند ماہ قبل ایکسپورٹ فیسلی ٹیشن اسکیم کے حوالے سے وزیراعظم شہباز شریف نے وفاقی وزیر احسن اقبال کی سربراہی میں وفاقی وزراء اور سیکرٹریز و دیگر اسٹیک ہولڈرز پر مشتمل جو کمیٹی بنائی تھی۔ اس نے دو ماہ کی طویل مشاورت سے جو سفارشات مرتب کی تھیں اس پر عملدرآمد نہیں کیا گیا بلکہ حکومت نے وفاقی بجٹ میں اسکے بالکل برعکس کپاس اور کاٹن یارن کی درآمد پر سیلز ٹیکس عائد کر دیا ہے۔ علاوہ ازیں اب یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کپاس، کاٹن یارن اور کاٹن فیبرک کو مکمل طور پر ایکسپورٹ فیسلی ٹیشن اسکیم سے نکال دیا جائے۔ اس اقدام سے نہ صرف ایکسپورٹرز کو درآمد کئے جانیوالے خام مال پر سیلز ٹیکس دینا پڑے گا بلکہ اس پر انکم ٹیکس، کسٹم، ریگولیٹری ڈیوٹی اور اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی بھی عائد ہو گی۔ اس طرح ایکسپورٹ انڈسٹری کیلئے درآمدی خام مال کا حصول بالکل ہی قابل عمل نہیں رہیگا۔ اسلئے ایکسپورٹ فیسلی ٹیشن اسکیم کو اسکی اصل شکل میں بحال کرنا انتہائی ضروری ہے۔ علاوہ ازیں ایکسپورٹرز کو درپیش ریفنڈز کی ادائیگی میں تاخیر کا مسئلہ بھی اہم ہے کیونکہ کہنے کی حد تک اس سلسلے میں 72گھنٹے کا وقت مقرر ہے لیکن عملی طور پر ایکسپورٹرز کو ریفنڈز کے حصول میں کئی کئی ماہ لگ جاتے ہیں۔ اس وجہ سے ایکسپورٹ انڈسٹری کو ہمیشہ سرمائے کی قلت کا سامنا رہتا ہے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان کی ٹیکسٹائل برآمدات پہلے ہی کئی سال سے دبائو کا شکار ہیں کیونکہ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ پاکستان میں پیداواری لاگت کم ہونے کی بجائے مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اس سے نہ صرف عالمی منڈی میں پاکستانی برآمد کنندگان کو اپنی مسابقتی پوزیشن برقرار رکھنے کے حوالے سے مسائل کا سامنا ہے بلکہ اس سیکٹر میں نئی سرمایہ کاری بھی رک گئی ہے۔ اس لئے اگر ملک کو معاشی طور پر اپنے پائوں پر کھڑا کرنا ہے تو اس کے لئے برآمدات کو بڑھانا انتہائی ضروری ہے۔