• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قریباً آدھی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے

جس ملک کی قریباً آدھی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہو جسے بنیادی سہولتیں میسر نہ ا ٓرہی ہوں نوجوانوں کو روزگار نہ مل رہا ہو ۔عزت نفس بھی مجروح ہو رہی ہو۔ وہاں تو ہر روز ہی غربت کے خلاف جہاد ہونا چاہیے۔ سیاسی پارٹیوں کو اپنے’’ غربت ہٹاؤ ‘‘پروگرام بنانے چاہئیں ہر لیڈر ہر وزیر کی روزانہ تقریر میں تشویش ہونی چاہیے ۔ہنگامی حالت کا اعلان ہونا چاہیے ۔مگر جس طرح سب ممالک غزہ میں خون ریزی، نسل کشی، فاقہ کشی ،بچوں کی کم خوراکی کے باعث جسم پنجر ہونے پر خاموشی ہوں ۔جیسے انتظار کر رہے ہوں کہ یہ صراحی خون سے کب خالی ہوتی ہے۔ اسی طرح پاکستان میں بڑھتی ہوئی غربت پر کوئی تشویش نہیں ہے ۔رسمی کارروائیاں ہو رہی ہیں۔ بے نظیر بھٹو انکم سکیم کا نام لیا جاتا ہے لیکن اس سے کیا غربت واقعی کم ہو رہی ہے اور کیا یہ امداد فی الحقیقت غریبوں تک پہنچ رہی ہے ۔اقوام متحدہ کا پیمانہ غربت پاکستان کیلئے 3300روپے ماہانہ سے کم آمدنی والے فرد یا خاندان کا ہے۔ یہ معیار بھی موزوں نہیں لگتا کیونکہ 3300روپے میں تو ایک ہفتہ بھی نہیں گزر سکتا ایک مہینہ کیسے گزر سکتا ہے۔ بیس سے پچیس ہزار روپے مہینہ آمدنی والے بھی اپنی بنیادی ضروریات پوری نہیں کر پا رہے ہیں۔اشیائے ضروریہ اس انکم گروپ کی پہنچ سے دور ہیں۔ کوئی ٹی وی چینل یہ نہیں دکھاتا کہ پاکستان کی اکثریت زندگی کی گاڑی کیسے کھینچ رہی ہے۔ ہمارے مستقبل یعنی بچوں کی پرورش کیسے ممکن ہے۔ بچوں کے دودھ کیلئے ہی 3 ہزار سے زیادہ پیسے چاہئیں گھر کا کرایہ بڑھ رہا ہے۔ عام طور پر غریبوں کے اپنے گھر نہیں ہوتے۔ شہر میں بینر تو لگے ہوئے ہیں کہ کتنے لاکھ گھر مفت حکومت سندھ نے دیئے،معلوم نہیں وہ کون سے خوش نصیب ہیں جنہیں گھروں کی ملکیت مفت نصیب ہو رہی ہے۔غربت کی لکیر سے نیچے جس تیزی سے پاکستانی جا رہے ہیں ۔اب یہ ادارے کہتے ہیں کہ پاکستان کی حکومت نے کئی سال سے یہ سروے کرانا ہی بند کر دیا ہے۔ انتہائی محتاط اندازے کے مطابق غربت کی لکیر سے نیچے پاکستان کی 44.7 فیصد آبادی ہے۔ جو 11 کروڑ افراد کے برابر بنتی ہے۔ اپ سوچیے کہ ایک زرعی ملک ،زرخیز زمینیں، دریا، سمندر ،برف پوش چوٹیاں قدرتی وسائل معدنی وسائل سینڈک ریکوڈک اور قیمتی پتھر جفا کش باشندے آبادی 60فیصد سے زیادہ نوجوان توانائیوں والی وہاں آدھی آبادی کا غربت کی لکیر سے نیچے چلے جانا کتنا شرمناک ہے۔ قومی سیاسی پارٹیوں کا دیوالیہ پن ہے وزیراعظم وزرا سب دعوے کر رہے ہیں معیشت بہتر ہو رہی ہے ۔یہ اعداد و شمار بہت تکلیف دہ ہیں اور آئندہ کی مایوس کن صورتحال کا اظہار کرتے ہیں کیونکہ غربت کو ختم تو کیا کم کرنے کیلئے بھی کوئی ہلچل نظر نہیں آتی ۔ایسے ملک میں تو سب سے پہلی ترجیح لوگوں کو غربت کی لکیر سے اوپر لانا ہونا چاہیے ۔ہم اپنے عظیم دوست چین کی جدوجہد دیکھ سکتے ہیں وہاں غربت کیسے کم کی گئی۔ ایک رپورٹ کہتی ہے کہ چین گزشتہ 40سال میں تقریباً 800 ملین لوگوں کو غربت کی لکیر سے اوپر لایا ہے دنیا کے اداروں نے اس کامیابی کو تسلیم کیا ہے اس کیلئے انتھک جدوجہد کی گئی ایک موثر مستحکم حکمت عملی ترتیب دی گئی۔ ایک عزم کیا گیا۔ پھر سارے متعلقہ محکمےاس ہدف کے حصول کیلئے دن رات مصروف ہو گئے ۔چین نے پہلے سب سے غریب علاقوں کی نشاندہی کی پھر یہ طے کیا کہ اب ساری سرمایہ کاری نئی صنعتیں ان پسماندہ علاقوں میں لگیں گی۔ ترجیحات کا تعین ان علاقوں میں تعلیم تربیت اعتماد اور خوشحالی بتدریج لے کر آیا۔ چین میں 80کی دہائی ایک استقامت اور تندہی لے کر آئی ۔جبکہ پاکستان میں 1985ءسے غیر جماعتی انتخابات اور بعد میں دو پارٹیوں کی باریاں امیروں کی برتری اور وسائل پر غلبے کی روایت لے کر آئیں۔عالمی بینک کی رپورٹیں سب سے زیادہ غربت مفلسی اور ناداری سندھ اور بلوچستان میں خاص طور پر دیہی علاقوں میں بتاتی ہیں۔ اسکی سب سے بڑی وجہ یہاں کا جاگیردارانہ اور سرداری نظام ہے جو وسائل اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے۔ حتیٰ کہ غربت ہٹانے کیلئے ملک سے بیرون ملک سے جو فنڈز آتے ہیں اس پر بھی اپنا قبضہ کرتا ہے ۔اس وقت ان دونوں صوبوں میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومتیں ہیں۔ جو یقیناً سب سے تجربہ کار پارٹی ہے ۔2008ءسے پی پی پی پی سندھ جیسے زرخیز علاقے میں بلا شرکت غیرے حکومت کر رہی ہے اس کا ہدف غریبوں کو غربت کی لکیر سے اوپر لانے کے بجائے یہ رہا ہے کہ سندھ کے ہر بڑے جاگیردار ،زمیندار کو گھیر کر پارٹی میں لایا جائے ۔اب جب یہ سارے وڈیرے قومی اور صوبائی اسمبلی میں موجود ہوں گے۔ ان کو تو غربت کا کوئی تجربہ ہی نہیں ہے تو یہ غربت کے خلاف کیوں صف آرا ہوں گے اگر انکے سامنے ننگے پیر کھڑے ہوتا ہاری جوتوں سمیت اپنے پاؤں پر کھڑا ہو گیا تو ان کا خاندانی دبدبہ کیسے باقی رہے گا ۔ بلوچستان میں سرداری اپنی تمام منفی خاصیتوں کے ساتھ دندنا رہی ہے۔ وہاں غربت ہٹانے کیلئے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جا رہی کیونکہ غربت ہی سرداری نظام کی بقا کا راستہ ہے ۔غربت کی لکیر سے نیچے تو 33000 روپے ماہانہ سے کم آمدنی والے لوگ ہیں۔اس سے اوپر جو خاندان یا افراد ہیں۔ ان کے حالات بھی انہیں زیادہ تر غربت کی لکیر سے نیچے دھکیلنے والے ہیں۔ناقص حکمرانی، دولت کی غیر مساوی تقسیم، غربت میں شدت لا رہی ہے،عالمی بینک کے اعداد و شمار بھی گواہی دیتے ہیں کہ 10فیصد امیر طبقہ پاکستان کی کل دولت کا 40 فیصد اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے۔ اکثریت کے پاس دولت کا صرف 13 فیصد ہے۔ یہاں یہ علم نہیں ہو رہا کہ پاکستان کی باقی 47 فیصد دولت کس کے پاس ہے۔ آپ دیکھ لیں 10 فیصد امیر ترین ہیں 45 فیصد غربت کی لکیر سے نیچے ہیں اور باقی 45 فیصد بھی کم آمدنی والے ہی ہیں وہ اپنے حالات بہتر کرنے کیلئے بہت تگ و دو کر رہے ہیں۔ ایک ہی دن میں کئی کئی نوکریاں کرتے ہیں۔انکی مدد کرنیوالا سسٹم نہیں ہے ۔ روزگار کے مواقع سمٹ رہے ہیں۔انسانی وسائل کی بہبود نہیں ہو رہی ہے ۔کے پی کے میں، بلوچستان، سندھ سے کچھ کم غربت ہے اور پنجاب میں دوسرے سب صوبوں سے کم لیکن یہاں جنوبی پنجاب میں بہت غربت ہے ۔یہ ساری عبرت انگیز تفصیلات میں حکمرانوں کے سامنے نہیں رکھ رہا کیونکہ وہ تو 10فیصد طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اپنی امارت میں اضافہ کر رہے ہیں اسلئے غربت کو ہٹانے کے قائل نہیں۔ میں تو یہ اعداد و شمار درد مند پاکستانیوں ،یونیورسٹیوں تحقیقی اداروں کو جھنجھوڑنے کیلئے استعمال کر رہا ہوں کہ وہ چین اور دوسرے ملکوں میں جہاں جہاں غربت کم کی گئی ہے ان پر تحقیق کر کے اپنے ہاں خصوصاً دیہی علاقوں میں تنگدستی دور کرنے کیلئے کوششیں کریں۔

تازہ ترین