• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سب کی طرح ہم بھی ایک زمانے تک قلم سے لکھتے تھے، انگریزی روزناموں میں اسّی کی دہائی کے آخر میں کمپیوٹر استعمال ہونے لگے تب بھی ہم قلم سے کاغذ پر لکھ کر کمپوزر کے حوالے کر دیا کرتے تھے، کمپیوٹر کا استعمال نہ سیکھنے کے ہمارے پاس کئی بہانے تھے، سب سے ’’مدلل‘‘ بہانہ تھا کہ خیال کی روانی اور جنبشِ قلم میں جو تال میل ہے وہ کمپیوٹر میں کہاں۔ پھر ایک دن کا ذکر ہے کہ ہم اپنا ’’شاہ پارہ‘‘گھر سے لکھ کر دفتر پہنچے تو ہمارے میگزین کے مدیر جلیس حاضر نے برجستہ کہا کہ’’آپ کو تو کسی سہ ماہی ادبی مجلے میں کام کرنا چاہیے، پہلے دور افق پر نظریں گاڑ کر دھوئیں کے مرغولے اڑائیں اور دماغ میں خیال مرتب کریں، پھر کاغذ پر لکھیں، پھر خوش خط لکھیں، پھر کمپوزر کو دیں، پھر غلطیاں لگائیں، پھر مزید غلطیوں کی نشان دہی فرمائیں، اور تب تک اخبار آپ کیلئے رکا رہے۔ میرے بھائی، یہ نئے زمانے کی رفتار نہیں ہے۔‘‘ انکی بات دل کو لگ گئی۔ کمپیوٹر پر آہستہ آہستہ ٹائپ کرنا سیکھنے لگے، شروع میں لکھتے کاغذ پر ہی تھے مگر اسے خود ہی ٹائپ کرنے لگے۔ حتیٰ کہ بیچ میں سے کاغذ قلم نکل گیا۔آغاز میں لکھنے کا کام گوشہء تنہائی میں ہوا کرتا تھا، کامل یکسوئی سے۔ اخبارات میں کام شروع کیا تو رپورٹنگ روم کے شور میں خبریں لکھنے کی عادت پڑ گئی، لیکن خبروں سے زیادہ ’’سنجیدہ‘‘تحریر لکھنےکیلئےپھر بھی خاموشی اور تنہائی کی خواہش ہوا کرتی تھی۔ ٹیلی فون پر اردو سافٹ ویئر آ گئے تھے، مگر کالم لکھنے کیلئے ہم لیپ ٹاپ کا ہی استعمال کیا کرتے تھے۔ بہرحال یہ سارا قصہ اس لیے یاد آیا کہ ڈلس ایئرپورٹ واشنگٹن کے ایک ٹرمینل پر بیٹھ کر، ہزاروں آتے جاتے افراد کے ہنگامے کے عین درمیان، یہ کالم اپنے فون پر لکھا جا رہا ہے۔ سنتے ہیں جو مخلوق بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ خود کو ڈھالنے کی صلاحیت نہ رکھتی ہو نابود ہو جاتی ہے۔ ڈائنو سار تو یونہی بدنام ہیں، وہ بے چارے تو ایک حادثے کا شکار ہوئے تھے، در اصل اس روئے زمین پر بسنے والی 99 فی صد انواعِ حیات مٹ چکی ہیں، اس لیے نہیں کہ وہ کمز ور یا احمق تھیں، بلکہ صرف اس لیے کہ ان میں وہ لچک نہیں تھی جو نئے حالات کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کرنےکیلئے درکار ہوا کرتی ہے۔ بیکٹیریا حیات کی انتہائی سادہ و کم تر مگر بہت لچکدار شکل ہے جو اربوں سالوں سے اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔ حضرتِ انسان بھی ہومو سیپین کے طور پر تین لاکھ سال سے اس کرہ ارض پر کامیابی سے اپنی بقا کا بندوبست کیے ہوئے ہیں۔ بات یہ ہو رہی تھی کہ ہم اکثر اپنے بارے میں کچھ مفروضہ گھڑ لیتے ہیں، اور پھر اسے اپنا عقیدہ بنا لیتے ہیں، یہ ہم سے ہو سکتا ہے اور یہ تو ہو ہی نہیں سکتا، بس اتنا ہم سے ہو سکتا ہے، یہ تو ہم نے کبھی کیا ہی نہیں، سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، وغیرہ وغیرہ۔ حال آں کہ حالات کا ایک تھپیڑا سب کچھ بدل کے رکھ دیتا ہے۔ آپ کمپیوٹر بھی سیکھ لیتے ہیں اور ایئر پورٹ کے کہرام میں لکھ بھی سکتے ہیں۔ایئر پورٹ کے ایک ریستوران میں ہمارے ساتھ والے اسٹول پر ایک سفید فام خاتون بیٹھی تھیں جو اکثر مسافروں کی طرح خود میں مگن تھیں، مختصر بات کرتی بھی تھیں تو اپنے ہم رنگ لوگوں سے، سامنے مشروبِ ابیض دھرا تھا، کچھ دیر گزری تو انکے بند کچھ ڈھیلے ہوئے، اسپیکر پر فلائٹ کے بارے میں کوئی اطلاع دی گئی تو خاتون ٹھیک سے سن نہ پائیں، بے ساختہ وہ مجھ سے ہوئیں ہم کلام۔ ہم نے دل میں کہا ’’اللہ اللہ‘‘ ہم نے بتایا کہ اعلان کیا گیا ہے اگر مارتھا نامی مسافر اب بھی جہاز پر تشریف نہ لائیں تو جہاز انکے بغیر ہی پرواز کر جائے گا۔ (یہ اعلان ہم نے جی سے گھڑا تھا، اناؤنسمنٹ ہم بھی نہیں سُن پائے تھے)۔ ساتھ ہی ہم نے پوچھا کیا آپ ہی مارتھا ہیں؟ مسکراتے ہوئے کہنے لگیں، نو آئی ایم باربرا۔ ہم نے عرض کی آپ کی شکل معروف اداکارہ، گلوکارہ باربرا سٹرائسینڈ سے ملتی ہے، ہنستے ہوئے کہنے لگیں، نو آئی ایم باربرا نیوسم۔ چل سو چل، گپیں لگنے لگیں۔ تعارف ہوا تو انہوں نے بتایا کہ انکی بہن بھی صحافی ہیں، بوسٹن گلوب میں کام کرتی ہیں، اور یہ کہ امریکی پرنٹ صحافت کا منظر نامہ نئے ڈجیٹل ماحول میں تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے، بلکہ ہو چکا ہے، نوکریاں سمٹ رہی ہیں اور تنخواہیں سکڑ رہی ہیں۔ میں نے بتایا کہ میں اس وقت جو کالم لکھ رہا ہوں اس کا موضوع بھی بدلتے ہوئے ماحول سے ہم آہنگی کی اہمیت ہے۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے حوالے سے باربرا نے بہت دلچسپ گفتگو کی۔ کہنے لگیں انسانوں کے اپنی عظمت کے بارے میں بہت سے تصورات پاش پاش ہو چکے ہیں، پہلے ہم خود کو اور اس کرہ کو مرکزِ کائنات مانتے تھے مگر پھر پتا چلا کہ زمین سورج کے گرد گھوم رہی ہے، یہ زمین اس کہکشاں میں ایک ذرے کی طرح ہے، اور ایسی کھربوں کہکشائیں موجود ہیں، پہلے ہم سمجھتے تھے کہ انسانوں کی تخلیق دوسرے جانداروں سے ہٹ کر کسی حیاتیاتی عمل سے وجود میں آئی ہے، پہلے ہم سمجھتے تھے کہ انسان ارتقائی عمل کا اوج ہے، یہ سب افسانے نکلے، انسان کی انا مجروح ہوئی، مگر ہم نے اپنی کم تر حیثیت سے سمجھوتا کر لیا۔ اب ہمیں ایک نیا چیلنج درپیش ہے، اب انسان پہلی بار اس کرہ ارض کی سب سے ذہین مخلوق نہیں رہا، ہمیں اے آئی نے نمبر ون کے منصب سے معزول کر دیا ہے، ہمیں اس نئی حقیقت سے سمجھوتا کرنا ہو گا ورنہ...ابھی وہ ’’ورنہ‘‘ تک ہی پہنچی تھی کہ اس کی فلائٹ اناؤنس ہو گئی اور وہ چل پڑی۔ میں دور تک اسے جاتا ہوا دیکھتا رہا۔

تازہ ترین