اکتوبر 2017ء میں ٹیکساس سے کنساس تک آسمان کو روشن کرنے والی ایک لمبی ترین آسمانی بجلی کو دنیا کی سب سے طویل آسمانی بجلی کی چمک کے طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے۔
یہ بجلی کی کڑک شمالی امریکا کے عظیم میدانوں میں 829 کلو میٹر (515 میل) تک پھیلی ہوئی تھی، اس ریکارڈ توڑ میگا فلیش نے پچھلے ریکارڈ کو 61 کلومیٹر سے پیچھے چھوڑ دیا۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق عالمی موسمیاتی تنظیم ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن (WMO) نے جمعرات کو اس دریافت کا اعلان کیا، اگرچہ یہ بجلی تقریباً 8 سال پہلے چمکی تھی، لیکن اس کا انکشاف حال ہی میں ہوا ہے۔
محققین نے اس بہت لمبی آسمانی بجلی کا پتہ لگانے کے لیے جیو اسٹیشنری آپریشنل انوائرمنٹل سیٹلائٹ (GOES) سے حاصل کردہ ڈیٹا استعمال کیا جو زمین کی سطح سے 22 ہزار 236 میل کی بلندی پر گردش کرتا ہے، اس سیٹلائٹ ٹیکنالوجی سے سائنسدان اس میگا فلیش کو ٹریک کر پائے جو روایتی زمینی بجلی کا پتہ لگانے والے نیٹ ورکس سے ممکن نہیں تھا کیونکہ وہ صرف زمین پر گرنے والی بجلی کا پتہ لگاتے ہیں۔
ایریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی اور عالمی موسمیاتی تنظیم ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن سے وابستہ جغرافیائی سائنسدان پروفیسر رینڈی سروینی کا کہنا ہے کہ یہ نیا ریکارڈ واضح طور پر قدرتی ماحول کی ناقابلِ یقین طاقت کو ظاہر کرتا ہے، ہم اسے میگا فلیش لائٹننگ کہتے ہیں اور ہم ابھی یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ کیسے اور کیوں ہوتی ہے، اس بات کا امکان ہے کہ اس سے بھی بڑی شدت کے واقعات موجود ہوں اور وقت کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے آسمانی بجلی کی مزید اعلیٰ معیار کی پیمائشیں جمع ہوں گی، ہم انہیں دیکھنے کے قابل ہو جائیں گے۔
29 اپریل 2020ء کو ہونے والی ایک میگا فلیش نے اس سے پہلے سب سے طویل افقی فاصلے کا ریکارڈ قائم کیا تھا، جو ٹیکساس، لوزیانا اور مسیسیپی میں 768 کلومیٹر پر محیط تھی۔
آسمانی بجلی ایک شاندار قدرتی مظہر ہے جو اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ماحولیاتی ابتری کی وجہ سے ذرات آپس میں ٹکراتے ہیں اور برقی چارج پیدا کرتے ہیں، جیسے جیسے چارج جمع ہوتا ہے یہ آخرکار بجلی کے ایک بہت بڑے دھماکے کی صورت میں خارج ہوتا ہے جس سے آسمان میں لاکھوں وولٹ بجلی پیدا ہوتی ہے۔
میگا فلیش کو ٹریک کرنے کےلیے نہایت محتاط تجزیے کی ضرورت ہوتی ہے جس میں سیٹلائٹ اور زمینی ڈیٹا کو ملا کر اس کے پھیلاؤ کو تھری ڈی میں دوبارہ تشکیل دیا جاتا ہے، چونکہ بادل اکثر بجلی کی کڑک کے کچھ حصے کو چھپا لیتے ہیں، اس لیے ایسے بہت بڑے آسمانی بجلی کی کڑک کے واقعات آسانی سے نظروں سے اوجھل رہ سکتے ہیں، جس سے ان کی پیمائش مزید مشکل ہو جاتی ہے۔