• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں طاقت ایک ایسا زہر بن چکی ہے جو کموڈو ڈریگن کی طرح خاموشی سے رینگتی ہے، قریب آتی ہے، سونگھتی ہے، کاٹتی ہے، اور پھر پیچھے ہٹ کر تمہیں مرتا دیکھتی ہے۔ کموڈو ڈریگن زمین پر سب سے بڑا رینگنے والا جانور ہے، جو ایک بار کاٹ کر شکار کو چھوڑ دیتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کے زہر کا اثر آہستہ آہستہ شکار کو گرا دئے گا۔ اور جب شکار خود ہی لڑکھڑا کر گریگا، تو وہ واپس آ کر اسے نگل جائیگا دھیرے دھیرے، بے رحمی سے۔پاکستان کی سیاست، معیشت، سماج، میڈیا، بازار، گلیاں، سب اس کموڈو ڈریگن کے عمل کی مکمل تصویر ہیں۔ یہاں بھی اشرافیہ عوام کو ایک بار کاٹتی ہے۔ وہ زہر پھیلا دیتی ہے، پھر فاصلے پر کھڑی ہو کر دیکھتی ہے کہ کیسے مزدور دھکے کھاتا ہے، کسان قرض میں ڈوبتا ہے، نوجوان مایوسی کی چھت سے چھلانگ لگاتا ہے، اور بوڑھا اپنی پنشن کیلئے مشین کے آگے انگلی رکھ کر مرتا ہے۔ یہ سب اس کاٹ کا اثر ہے۔ یہاں زخم دکھائی نہیں دیتے، مگر پورا جسم اندرسے گل چکا ہوتا ہے۔ اور تب اشرافیہ دوبارہ آتی ہے مہنگائی کے روپ میں، اور کہتی ہے: ہم آپ کے خیر خواہ ہیں۔یہ وہ سرزمین ہے جہاں غریب صرف جیتا نہیں، بلکہ اسے جینے کی سزا دی جاتی ہے۔ اسے ہر روز ایک نئی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے زندگی کے بدلے سانس، محنت کے بدلے ذلت، تعلیم کے بدلے بیروزگاری، محبت کے بدلے رسوائی۔چینی کا بحران آیا۔ وزیروں کے بھائی، دوست اور فنڈنگ ایجنٹس پہلے چینی برآمد کرتے ہیں، پھر مارکیٹ میں قلت پیدا کی جاتی ہے۔ پھر وہی چینی تین گنا قیمت پر واپس درآمد کی جاتی ہے۔ عوام کو بتایا جاتا ہے کہ یہ عالمی منڈی کی سازش ہے۔ درحقیقت یہ وہی زہر ہے جو پہلے جسم میںاتاراگیا تھا، اب وہ پھیل چکا ہے، تم صرف انتظار کرتے ہو کہ شاید اگلے مہینے قیمتیں کم ہو جائیں۔ لیکن کم نہیں ہوتیںاور کموڈو ڈریگن تمہیں زندہ دیکھ کر لطف اندوز ہو رہا ہے۔پھر آٹے کی قطاریں لگتی ہیں۔ دو کلو آٹے کیلئے لوگ مرتے ہیں۔ معصوم بچیاں ماؤں کے ہاتھ سے چھوٹ کر دم توڑ دیتی ہیں۔ پرانے کپڑوں میں ملبوس بزرگ رُلتے ہیں، دھوپ میں کھڑے ہو کر آٹے کا تھیلا مانگتے ہیں۔ وہ آٹا جو انکے کھیت میں پیدا ہوا تھا، اب ان کی جھولی میں سوال بن کر گرا ہے۔ کیوں؟ کیونکہ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے لوگوں نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ اس سال قلت ہونی چاہیے۔ ذخیرہ اندوزی کرنی چاہیے۔ کیونکہ جب قلت ہوگی، تب قیمت بڑھے گی، اور جب قیمت بڑھے گی، تب منافع آئے گا اور جب منافع آئے گا، تب اگلا الیکشن جیتا جائے گا۔پھر پٹرول مہنگا ہوتاہے۔ عالمی قیمتیں کم ہو رہی ہوتی ہیں، لیکن تمہارا ملک وہ واحد جگہ ہے جہاں عالمی کمی کا مطلب مقامی اضافہ ہوتا ہے۔ تمہارے لیے ہر ہفتے نئی قیمت آتی ہے، ہر مہینہ ایک نیا زخم لاتا ہے۔ موٹر سائیکل پر دفتر جانے والا جوان اب پیدل چلنے پر مجبور ہے۔ رکشے والا اپنا رکشہ بیچ کر موبائل فون شاپ پر سیلزمین بننے کا سوچتا ہے۔ اور تب کوئی وزیر کہتا ہے، ہم نے بہت مشکل فیصلے کیے ہیں، قوم کو قربانی دینی ہو گی۔کسان، جو تمہاری روٹی اگاتا ہے، اب خودکشی پر مجبور ہے۔ مزدور، جو تمہارے شہر بناتا ہے، خود کچی بستیوں میں سوتا ہے۔ استاد، جو تمہیں شعور دیتا ہے، خود اپنے بچوں کو اسکول نہیں بھیج سکتا۔ یہ سب وہ لوگ ہیں جو اس قوم کی ریڑھ کی ہڈی ہیں — اور یہی لوگ سب سے زیادہ زہر آلود کیے جا رہے ہیں۔ کیونکہ کموڈو ڈریگن صرف گوشت نہیں کھاتا، وہ ہڈیاں بھی چباتا ہے۔ہر الیکشن ایک نئی امید کے ساتھ آتا ہے۔ ہر پارٹی خود کو نجات دہندہ کہتی ہے۔ ہر نعرہ تمہیں خواب دکھاتا ہے۔ تم ہر بار یقین کرتے ہو، ہر بار دھوکہ کھاتے ہو، اور پھر کہتے ہو، اب کی بار کچھ مختلف ہو گا۔ لیکن کچھ مختلف نہیں ہوتا۔ وہی چہرے، وہی وعدے، وہی جھوٹ — صرف جھنڈا بدل جاتا ہے، زہر وہی رہتا ہے۔تم نے سوال کرنا چھوڑ دیا ہے۔ تم نے احتجاج کرنا چھوڑ دیا ہے۔ تم نے مزاحمت کرنا ترک کر دی ہے۔ تم اب صرف زندہ ہو اور ایسی زندگی کموڈو ڈریگن کیلئے سب سے پسندیدہ چیز ہے۔ وہ مردہ کو نہیں کھاتا، وہ زندہ کو نوچتا ہے، کیونکہ زندہ جسم کی چیخ اس کیلئے طاقت ہے۔ وہ تمہیں کمزور دیکھنا چاہتا ہے، مگر زندہ۔ وہ تمہیں سسکتا دیکھنا چاہتا ہے، مگر چپ۔اور تم جو یہ سب پڑھ رہے ہو، شاید سوچ رہے ہو کہ یہ ایک کہانی ہے، ایک تمثیل، ایک مبالغہ۔ لیکن اگر تم نے واقعی یہ سوچا ہے، تو سن لو تم وہی ہو جسے وہ سب سے آخر میں کھائے گا۔ کیونکہ تم سب سے زیادہ پکے ہو، سب سے زیادہ رسیلے، سب سے زیادہ صابر۔ تم نے زہر کو میٹھا سمجھا ہے۔ یاد رکھو کموڈوڈریگن جسے سب سے آخر میں کھاتا ہے، اسے سب سے زیادہ چباتا ہے۔

تازہ ترین