پاکستان کو جامع قومی عمرانی معاہدے کی اشد ضرورت ، معاہدہ جو عوام ، قیادت اور اداروں کے درمیان پائے جانیوالے تناؤ ، ٹکراؤ اور افراط و تفریط کا خاتمہ کرسکے ۔ پچیس کروڑ عوام کو دوبارہ سے 14 اگست 1947 ءجیسی کیفیت میں ڈھال دے ، قومی امن ، سلامتی اور اجتماعی عافیت کا واحد راستہ ہے۔ بدنصیبی ! مملکت ایک بار پھر بند گلی میں ، نکلنے کے راستے مسدود ہیں ۔وطن عزیز کی وجہ وجود عوامی طاقت کی مرہون منت ، ووٹ ہی نے تو آزادی دلائی ۔ سانحہ ! ریاستی طاقت نے 7 دہائیوں سے رائے عامہ کو پچھاڑ رکھا ہے ۔ طاقت کا سرچشمہ عوام کی بجائے ریاستی ادارہ بن گیا ۔ جبکہ سیاسی جماعتوں نے اقتدار کیلئے عوامی طاقت کا زینہ استعمال کرنا تھا ، وزیراعظم محمد علی بوگرا (1953ء) سے لیکر وزیراعظم شہباز شریف ( 2024ء)تک سب نے ریاستی طاقت کی کاسہ لیسی سے اقتدار میں آنا پسند فرمایا ۔ ریاستی طاقت کا رہنما اصول ، سیاسی قیادت کے باہمی ٹکراؤ اور مخاصمت کو پروان چڑھا کر سیاسی نظام دبوچ لو ۔
رائے عامہ میں پہلی دفعہ سیاسی ہم آہنگی اور یکسوئی ، کثیر تعداد میں سیاسی مداخلت پر سخت موقف اپنا چکی ہے ۔ دوسری طرف ریاست نے ہر حال میں اپنی طاقت کا لوہا منوایا ہے ۔ اب جبکہ 10مئی کی عظیم المرتبت تاریخی فتح کے خوبصورت اثرات کارِجہاں کی نذر ہونے کو ، لمحہ فکریہ ! 23اپریل سے پہلے والا سیاسی ماحول لوٹنے کو ہے ، قومی میڈیا دوبارہ سے حالاتِ حاضرہ کی تند و تیز بحث و تمحیص میں غرقاب نظر آتا ہے ۔ ویسے تو عمران خان ، ریاست اور حکومت 3 فریق ، چلو عدلیہ کو چو تھا فریق مان لیں ( کہ پُرامن مک مکا ہوتے دیکھا تو کروڑوں روپے کی مراعات خطرے میں تو عدلیہ ہمیشہ سے رنگ میں بھنگ ڈالنے کے ڈھنگ میں ماہر ہے ) ۔ ان سب میں قدر مشترک ، مملکت خداداد جس گھمبیر سیاسی دلدل میں پھنسی ہے ، اسکی سنگینی کا ادراک اور نہ اس مد میں دلچسپی ہے ۔ تجاہل و تغافل ! ہر فریق زمینی حقائق کے برعکس اور برخلاف، تیقن کی معراج پر کہ وطنی حالات اسکے مطابق، سب اچھا کی رپورٹ ہے ۔ عمران خان اور انکے اتحادی ، اسٹیبلشمنٹ اور حکومتی اتحاد سب اپنے تئیں مطمئن ، ہر فریق خوش گمانی میں کہ وطنی سیاسی زمامِ کار کی لگام اسکے ہاتھ میں ہے ۔ دہائیوں سے بیسیوں مرتبہ لکھا کہ’’ ملکوں قوموں کے عروج وزوال کی کہانی سیاسی استحکام اور عدم استحکام سے جڑی ہے ۔ سیاسی استحکام قوموں کو مضبوط و مربوط بناتا ہے ، رفعتیں بخشتا ہے ، جبکہ عدم استحکام میں قومیں تحلیل ہوتے دیکھی ہیں ۔ موجودہ سیاسی بحران مملکت کو دلدل میں دھکیل چکا ہے ، ہر فریق بحران سے نبردآزما ہونے کو، اپنے آپکو ہیرو اور دوسرے فریق کو زیرو کا درجہ دے چکا ہے ۔
عمران خان کا معاملہ اہم ! اپنے تئیں بھول چکا کہ انکی مقبولیت کا راز انکے جھوٹے بیانیہ سے جُڑا ہے ۔ اسٹیبلشمنٹ کو للکارنے پر یہ پہلا موقع نہیں، عمران خان اپنی حکومت کی نااہلی ، کرپشن ، بدانتظامی ، عثمان بزدار جیسے فیصلے اور بے شمار سیاسی ناکامیاں چھپانے میں کامیاب ہوگیا ہے ۔ ایسے بیانیہ پر عوام نے اس سے پہلوں کو بھی ہاتھوں ہاتھ لیا تھا ۔ اگرچہ ریاستی طاقت کو للکارنے پر عوامی پذیرائی طشتری میں دستیاب تو اقتدار ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ایسوں سے کوسوں دور ہو جاتا ہے ۔ جبکہ عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ مخالف عوامی طاقت پر ملی پذیرائی سے زیادہ اقتدار چاہیے ۔ اقتدار کی شدتِ طلب نے عمران خان کو کنفیوژ اور بدحواس کر رکھا ہے ۔ ماضی بعید سے سیاسی استعداد صفر ، جب بھی، جو بھی سیاسی حکمت عملی اپنائی ، کمزور سیاست کو چار چاند لگا ئے ۔ ہر احتجاجی تحریک یا سیاسی عمل نے عمران خان کی سیاست کو ضعف اور ہزیمت سے دوچار رکھا ۔ خود فریبی میں جکڑا مقبول رہنمااپنی دنیا سوشل میڈیا بریگیڈ پر تالیف ذہن و قلب پر مطمئن ہے ۔ اپنی ہر ناکامی کو عظیم الشان فتح گردانتا ہے ، فرضی جاہ و جلال کو شعار بنا چکا ہے ۔ 5 اگست کو دن دہاڑے ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہی کہ 14 اگست کے غیرمتنازع قومی دن کو متنازع بنانے کا اعلان فرمایا ۔ یقیناً ہر بڑے شہر کی مرکزی شاہراہ پر لاکھوں کا جمع غفیر معمول ، خود فریبی میں ایسے ہجوموںپر اترانا بنتا ہے ۔ اگر عمران خان چلتے پھرتے ایسے ہجوموں کو کسی طور اپنی کامیابی بتاتے ہیں تو سوال اتنا کہ موصوف کی 15 اگست کے بعد کے دنوں کی حکمتِ عملی کیا ہوگی ؟ عمران خان ماضی کی طرح ایک بار پھر بغیر کسی واضح لائحہ عمل کے ، اُلجھن اور کنفیوژن کی گرفت میں ، سیاسی بصیرت سے محروم ، جس کنویں میں گرے ہیں ، ہر حکمت عملی آئے دن اسکو مزید گہرا کرنے کو ہے۔
زمینی حقائق کی روشنی ہی کہ ریاست کیخلاف تند و تیز بیانیہ کے بعد اگر عمران خان اپنی زندگی بچا پائے تو یہی انکا نفع کا سودا ہوگا ۔ خاطر جمع ! اقتدار اب عمران خان کی زندگی سے کوسوں دور، تاحدنگاہ نظر نہیں آتا ۔ عمران خان کا بنیادی حریف " ریاستی قوت " ، جسکی سرشت میں ہار ماننا ہے ہی نہیں ۔ ریاستی قوت کیلئے بھی خبریں گھمبیر ہیں ۔ جب سے عمران خان نے ریاستی قوت کیخلاف زبان دراز کی ، رائے عامہ کو عمران خان نے جوق در جوق اپنے حق میں استوار کر لیا ہے ۔ حقیقت یہ بھی کہ ریاست کو ہمیشہ سیاسی میدان میں پچھاڑ ملی ہے ۔
سبق کیا سیکھتے ، تین سال سے جاری ایسے اقدامات کا اعجاز کہ آج عمران خان کی عوام الناس میں مقبولیت کو دن دوگنی رات چوگنی ترقی مل چکی ہے ، سارا کریڈٹ اسٹیبلشمنٹ کو جاتا ہے ۔ افسوس ہوگا کہ10مئی کی عظیم الشان یوم فتح ، سیاسی بھول بھلیوں میں گم ہو جائے۔ ریاستی قوت وطنی سیاست سے کیسے نبردآزماہو ، اسکا ادراک ہے نہ ہی دلچسپی ۔یہی وجہ کہ ہر ایسا قدم اٹھایا جا رہا ہے جو رائے عامہ کو اُکساتا بھڑکاتا ہے ۔ حالیہ تھوک کے حساب سے 10،10 سال کی سزائیں ، اگرچہ مئی 2023 ءمیں تھوک کے حساب سے، فائدہ کیا ملنا تھا پورے ملک میں شاید ہی کوئی خاطر میں لایا ہو ۔ تیسرا فریق حکومتِ وقت ! طاقت اور عوامی سپورٹ سے محروم ضرور ، بطور سیاسی حقیقت موجود ہے ۔ اسکو ساتھ ملائے بغیر اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان مل بھی جائیں تو بحران بڑھا سکتے ہیں ، بحران سے نکال نہیں سکتے۔
اگرچہ چاروں فریقین کی قیادت متنازعہ اور ذاتی مفادات کے تابع ہر قسم کے قومی ڈائیلاگ میں رکاوٹ ہیں ۔ اگر ان تمام فریقین نے اپنے اپنے مفادات کو جاں بلب مملکت کے مفاد پر قربان نہ کیا تو پھر قلم آگے کچھ لکھنے سے قاصر ہے ۔ بھیانک انجام منتظر ہے ۔ دعاگو ! سارے فریق مملکت کے مفاد کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائیں تو حل ایک ہی کہ’’معاہدہ پاکستان‘‘ درکار ہے ۔ تمام وطنی قیادت ملکر اگلے 5 سال ایک ایسی قومی حکومت بنائے،جو ان 5سال میں آئین ( 1973ء) کو اصلی حالت میں بحال کرکے سارے اداروں بشمول پارلیمان کی حدود و قیود بمطابق آئین نافذ کرجائے ۔ 5سال بعد سب قائدین اپنی اپنی قیادت سے دستبردار ہوکر نئی نویلی قیادت سامنے لائیں ، بقلم خود گوشہ نشینی اختیار کر لیں ۔ مملکت خداداد کو بچانے کا حل ایک ہی ! ’’معاہدہ پاکستان ‘‘۔