• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں سیاسی کشمکش،بیانیے کی جنگ اور الزام تراشی کا تسلسل ریاستی ڈھانچے کیلئے خطرناک بنتا جا رہا ہے ،ایسے میں عدلیہ کی طرف سے دئیے گئے فیصلوں کو متنازع بنانے کے بجائے انکے قانونی و ادارہ جاتی تناظر کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔حالیہ دنوں میں انسداد دہشتگردی کی عدالتوں نے 9مئی 2023ءکے واقعات سے متعلق مختلف مقدمات میں فیصلے سنائے ہیں ۔کئی ملزمان کو سزائیں ملیں تو متعدد کو بری کردیا گیا۔ان فیصلوں پر سیاسی ردعمل فطری ہے تاہم عدالتی عمل کو مشکوک بنانے کی روش خود جمہوریت اور قانون کی بالادستی کے اصولوں سے انحراف کے مترادف ہے۔یہ وہ وقت ہے جب پوری قوم کو اپنی توجہ اس بنیادی سوال پر مرکوز رکھنی چا ہیے کہ کیا عدالتیں انصاف کر رہی ہیں ۔اگر اس کا جواب ہاں میں ہے تو باقی سب کچھ خود بخود درست ہو جائے گا ۔یہ تاریخی جملہ ہے جو دوسری عالمی جنگ کے دوران ونسٹن چرچل نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ کیا عدالتیں کام کر رہی ہیں ؟کیا انصاف ہو رہا ہے ؟اگر ہاں تو پھر کچھ بھی غلط نہیں ہوسکتا ۔یہ قول آج کے پاکستان میں غیر معمولی معنویت رکھتا ہے ۔ملک سیاسی عدم استحکام کا شکا رہے ، معیشت دبائو میں ہے اور عوام بے یقینی کا شکار ہیں ۔ایسے ماحول میں اگر عدلیہ بلاخوف و دبائو اپنا آئینی کردار ادا کر رہی ہے تو یہی ریاست کی بقا کی سب سے بڑی دلیل ہے۔9مئی کے واقعات قومی سطح پر افسوسناک اور قابل مذمت ہیں ۔کسی بھی جمہوری معاشرے میں احتجاج کے حق کو تسلیم کیا جاتا ہے لیکن جب یہ احتجاج قانون شکنی ،ریاستی تنصیبات پر حملے اور انتشار میں بدل جائے تو قانون کی مداخلت ناگزیر ہوجاتی ہے ۔عدالتوں نے انہی مقدمات کا فیصلہ قانون اور شواہد کی بنیاد پر کیا ہے ،اس میں کسی فریق کو اختلاف ہے تو اس کیلئے آئینی طریقہ اپیل موجود ہے،عدلیہ کومتنازع بنانے کی اجازت کسی بھی صورت نہیں دی جاسکتی ۔اگر ہر فیصلہ جس سے اختلاف ہوا اسے انتقام یاسیاسی مداخلت قراردیا جائے تو پھر قانون کا تصورہی غیر موثر ہوجاتا ہے۔اسی تناظر میں یہ بھی لازم ہے کہ سیاسی قیادت اپنے بیانیے اور حکمت عملی کا ازسرنوجائزہ لے ،قیادت صرف احتجاج کی صلاحیت نہیں بلکہ ذمہ داری کے احساس سے مشروط ہوتی ہے اگر کوئی جماعت یا اتحاد مسلسل اداروں پر الزمات عائد کرے ،بغیر ثبوت عدالتی عمل کو چیلنج کرے اور عوام کو اداروں سے بدظن کرے تو وہ جمہوری جدوجہد نہیں بلکہ افراتفری کو فرو غ دے رہا ہے ۔دوسری طرف حکومت اور ریاستی اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ عدالتی فیصلوں کوصرف سیاسی فتح کے طور پر نہ لیں بلکہ اس عمل کو قانون کے دائرے میں رکھیں۔دوسری جانب پنجاب کے 17اضلاع میں قائم صارف عدالتوں کو ختم کر دیا گیا۔ ان میں جاری کیس سیشن کورٹس منتقل ہونگے جبکہ صارف عدالتوں کے ججز کو لاہور ہائیکورٹ رپورٹ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ابتدائی مرحلے میں پنجاب میں 11صارف عدالتیں 2007ء میں قائم کی گئی تھیں، بعد میں ان عدالتوں کی تعداد بڑھا کر 17 کردی گئی۔ پاکستان میں ،انصاف کی فراہمی کا نظام پہلے ہی بے شمار مسائل کا شکار ہے، جہاں سیشن عدالتوں میں سالہا سال مقدمے التوا میں پڑے رہتے ہیں اور عام آدمی انصاف کے حصول میں عمر کھو دیتا ہے۔ ایسے میں صارف عدالتیں ایک روشنی کی کرن تھیں جو بغیر کسی وکیل، فیس اور بغیر کسی پیچیدہ قانونی تقاضے کے عام شہری کو جلد اور سستا انصاف فراہم کر رہی تھیں مگر حیرت انگیز طور پر حکومت نے ان عدالتوں کو قومی خزانے پر ’بوجھ‘ قرار دے کر بند کر دیا۔ یہ ایک ایسا فیصلہ ہےجو نہ صرف غیرمنصفانہ ہے بلکہ سراسر عوام دشمن بھی ہے۔ یہ عدالتیں 18 سال تک ایک خاموش خدمت سرانجام دیتی رہیں۔ یہ وہ ادارے تھے جہاں غریب اور متوسط طبقے کا فرد بڑی کمپنیوں، اداروں، دکانداروں یا سروس پرووائیڈرز کے خلاف کھڑا ہو سکتا تھا اور اپنا مقدمہ بغیر کسی وکیل کے خود لڑ سکتا تھا۔ اب اسے کہا جا رہا ہے کہ وہ سیشن کورٹ کا رخ کرے، وکیل کرے، بھاری فیسیں دے، برسوں انتظار کرے اور آخرکار انصاف کی تلاش میں تھک ہار جائے۔ کیا یہی ریاست کا انصاف ہے؟افسوس کی بات یہ ہے کہ ’قومی خزانے پر بوجھ‘ صرف وہ ادارے سمجھے جاتے ہیں جو عام آدمی کو سہولت دیتے ہیںیا اس کی آواز بنتے ہیں۔ لیکن بیوروکریسی کی پرتعیش گاڑیاں، وزراء کے بے شمار دفاتر، وزرائے اعظم کے محلات اور افسر شاہی کی فضول مراعات پر روزانہ کروڑوں روپے کا خرچ بوجھ نہیں ہے۔ کیا ایوانِ صدر بوجھ نہیں؟ کیا وزرائے اعلیٰ ہائوسز کے اخراجات بوجھ نہیں؟ کیا ہر سال نئی گاڑیوں کی خریداری، غیرضروری پروٹوکول اور ایک ایک کام کیلئے 20،20 افسروں کی تعیناتی قومی خزانے پر بوجھ نہیں؟ صرف وہ صارف عدالتیں بوجھ بن گئیں جو عام آدمی کو سہولت دے رہی تھیں؟ یہ دہرا معیار نہیں تو اور کیا ہے؟ سچ یہ ہے کہ حکومت نے طاقتور طبقے کی سہولت کیلئے کمزور کی امید چھین لی ہے۔ یہ فیصلہ فوری طور پر واپس لیا جائے۔ صارف عدالتوں کو بحال کیا جائے۔ اگر واقعی قومی خزانے پر بوجھ کم کرنا ہے تو اشرافیہ کی مراعات بند کریں۔

تازہ ترین