• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کئی سالوں کے پس و پیش کے بعد اپوزیشن کانفرنس کا انعقاد ایک مثبت پیش رفت تھی کیونکہ حکومت اور اپوزیشن ایک ہی جمہوری گاڑی کے دو پہیے ہوتے ہیں اپوزیشن کے پہیے میں حرکت دراصل جمہوریت کے چلنے کی نشاندہی کرتی ہے۔ محمود خان اچکزئی اور مصطفیٰ نواز کھوکھر کا ریکارڈ کسی غیر جمہوری داغ سے پاک ہے۔ توقع تھی کہ یہ کانفرنس اپنے ابتدایئے میں ہی ماضی کی اجتماعی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے مستقبل میں ان غلطیوں کا اعادہ نہ کرنے کی ٹھوس یقین دہانی کروائے گی۔ ماضی قریب میں پی ٹی آئی کی حکومت نے اہل سیاست، اہل صحافت اور اہل دانش کے ساتھ جو غیر جمہوری سلوک روا رکھا تھا اس کے گواہ اور ٹارگٹ تو خود اچکزئی صاحب اور مصطفیٰ نواز کھوکھر صاحب بھی تھے مگر نئے میثاق جمہوریت کا وعدہ کرتے ہوئے وہ اپنی اتحادی تحریک انصاف کی چیرہ دستیوں کا قصداً ذکر کرنا بھول گئے کیونکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ تحریک انصاف ماضی کے ان واقعات کو نہ غلطی سمجھتی ہے نہ اسے تسلیم کرتی ہے اور نہ یہ کہنے کو تیار ہے کہ مستقبل میں وہ ایسا نہیں کرےگی جب تک تحریک انصاف کی طرف سے یہ واضح بیان نہیں آتا اس وقت تک کسی بھی نئی جمہوری تحریک یا نئے چارٹر کی امید صفر ہے۔ اچکزئی صاحب انتہائی قابل احترام ہیں مگر کیا انہیں اپنے اس اتحاد سے اعتراف نہیں کروانا چاہیے کہ جب آپ مقتدرہ اور جنرل باجوہ کے ساتھ ایک صفحے پر تھے تو آپ پورے ملک کو بلڈوز کر کے آمرانہ نظام کی طرف نہیں بڑھ رہے تھے ؟آپ نے اپنے مخالفوں کو نہ صرف جیلوں میں بند رکھا ہوا تھا بلکہ جلسوں میں ان کے پنکھے بند کرنے کی دھمکیاں دیا کرتے تھے ،کیا رانا ثناء اللہ کو منشیات کے جھوٹے مقدے میں گرفتار کر نا انہیں سزائے موت دینے کی کوشش نہیں تھی؟ اپوزیشن کانفرنس کی حمایت کرنے والوں کو کیا یاد ہے کہ وہ اپنے دور میں اپوزیشن کے ساتھ ہاتھ ملانے تک کو اپنی شان کے خلاف سمجھا کرتے تھے۔ کیا اپوزیشن کانفرنس ان رویوں کی مذمت کے لئے کوئی ایک یا دو جملے بیان کرنا پسند کرے گی؟۔

یادش بخیر۔ جب ایک صفحہ موجود ہوا کرتا تھا تو لاہور کے جلسے میں ایک ٹی وی اینکر کو سر عام گالیاں دی گئیں اور پتھر مارے گئے تھے۔ جب یہ صفحہ ہوتا تھا تو ہر جلسے کے بعد جیو ٹی وی پر آتے جاتے پتھرائو معمول کی بات تھی جعلی دستاویزات بنا کر ہر صحافی کو لفافی ثابت کرنے کی مہم کس پارٹی نے کس کے کہنے پر چلائی تھی؟ نئی جمہوری تحریک چلانے سے پہلے کیا یہ حساب صاف نہیں ہونا چاہیے۔ صحافیوں اور اینکروں کی تنخواہیں کم کرنے اور اخبارات اور ٹی وی کے اشتہارات بند کرنے کی سازش میں اس وقت کے فوجی افسروں کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کے وزیر اعظم اور وزیر شریک نہیں تھے کیا اس سازش پر انہیں معافی کا خواستگار نہیں ہونا چاہیے؟۔ آج صحافت اور میڈیا کا جو گلا گھونٹا گیا ہے اس کا آغاز تو اسی دور میں ہو گیا تھا آج اُس سازش میں شریک نئی جمہوریت کے لیڈر بننا چاہتے ہیں اگر واقعی وہ سچے دل سے بدل چکے ہیں تو ماضی کے گناہوں کااقرار تو کریں، پہلے ایجنسیوں کے تیار کردہ اسکینڈلز اورمحضر نامے سنانے کے جرم کا اعتراف تو کریں پہلے صحافی اور میڈیا کو اسکینڈلائز کرنے کے گناہ کی علانیہ معافی تو مانگیں کیا یہ وہی لوگ نہیں جو حامد میر جیسے دلیر صحافی کو گولیاں لگنے پر اس کا مذاق اڑاتے تھے ۔ اتنے سفاک تھے کہ ان گولیوں کو پلاسٹک کی گولیاں قرار دیتے تھے۔ کیا یہ وہی نہیں کہ جو میڈیا کے سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری پر بغلیں بجاتے تھے اور سوشل میڈیا پر جھوٹی فیکٹری کے تیار کردہ الزامات کو دہرایا کرتے تھے کیا ہم بھول جائیں کہ سب سے بڑے میڈیا گروپ کے مالک کے خلاف ملک بھر میں توہین مذہب کے سینکڑوں مقدمات قائم کئے گئے اور آج کے جعلی جمہوری تالیاں بجاتے تھے کیا ان میں سے ایک نے بھی ان غیر انسانی ، غیر جمہوری، غیر صحافتی رویوں کی کبھی ایک بار بھی مذمت کی ؟۔ مان لیا کہ آپ سب کی کایا کلپ ہو گئی تب کے سب اب جمہوری ہو گئے ہیں اگر واقعی ایسا ہے تو سب سے پہلے اپنے جرائم کا اعتراف کریں اور بتائیں کہ آپ نے کس کس کے کہنے پر جمہوریت کو کون کون سےچھرے مارے ہیں۔ لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا کے مصداق پہلے جمہوری ٹرین میں چڑھنے کے لئے حلیہ تو درست کرلیں آمرانہ لہجہ ، اور گٹھڑی میں جمہوریت کے خلاف گالیوں کا کھاتہ، آپ کونسی جمہوریت لائیں گے؟ مسلمان ہونے سے پہلے کلمہ پڑھنا ضروری ہوتا ہے جمہوری ہونے کیلئے کوئی شرط تو نہیں لیکن کم از کم لفظی اعتراف تو کریں اور ماضی میں کی گئی اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں صرف کافرانہ تلک صاف کر کے مسجد کی صفوں میں گھسنا ہو تب بھی کلمہ پڑھنا لازم ہے۔

محمود خان اچکزئی کے ماضی اور مصطفیٰ نواز کھوکھر کے جمہوری خیالات کی وجہ سے مجھے یقین ہے کہ وہ جمہوری کاز سے مخلص ہیں اور وہ جائز طور پر سمجھتے ہیں کہ ایک مضبوط پاکستان کا مستقبل صرف اور صرف جمہوریت میں ہے۔ انہوں نے نئے میثاق جمہوریت کی بات کی ہے یقیناً انہوں نے فرسٹ چارٹر آف ڈیموکریسی کو غور سے دیکھا ہو گا اس کا آغاز ہی اپنی غلطیوں کی عوامی معافی سے ہوتا ہے اور پھر آگے مستقبل کے عزم کا اعلان ہے۔ تحریک انصاف اور اس کے حامی یوٹیوبر یہ کہنے پر مصر ہیں کہ وہ پہلے بھی درست تھے اور اب بھی درست ہیں، وہ جب قاتل تھے تو قتل جائز تھے اور اب جب وہ مقتول ہیں تو قتل حرام ہو گئے ہیں، یہ دو عملی اور تضادبیانی نہیں چلے گی ۔توقع یہی کی جاتی ہے اچکزئی صاحب اور کھوکھر صاحب تحریک انصاف سے جمہوریت سے واضح کمٹمنٹ لیں وگرنہ تو اپوزیشن تحریک انصاف کی اقتدار کی جنگ میں اسکی شریک کار بننے جا رہی ہے اس میں جمہوری اور اعلیٰ مقاصد کا نام استعمال کرنے کی کیا ضرورت ہے۔

پاکستان کے عوام جمہوری اور آمرانہ دونوں ادوار میں بہت فریب کھا چکے ہیں عوام نے جمہوری لیڈرز کو کئی دفعہ اپنے بھر پور اعتماد سے نوازا ہے اس اعتماد میں یہ توقع بھی موجود تھی کہ جمہوری لیڈرز، جمہوری آدرشوں پر عمل کرتے ہوئے عوامی مسائل کو حل کریں گے اور پاکستان کو خوشحالی کی طرف لیکر جائیں گے دوسری طرف آمرانہ ادوار میں بھی عوامی خواہشات کا جھانسہ دے کر ان کا خون کیا جاتا رہا ہے۔ گویا نہ جمہوری اور نہ ہی آمرانہ حکومتوں نے ملک کی ڈوبتی نیا کو پار لگانے کی کوشش کی۔ اگر اپوزیشن واقعی ایک نئی جمہوریت کا خواب دکھانا چاہتی ہے تو کم از کم ایسا قابل عمل حل پیش کرے جو دیرپا ہو اور ماضی کی طرح پر فریب نہ ہو۔

تازہ ترین