• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جھوٹ کبھی بانجھ نہیں رہتا۔ انڈے بچے دیے چلا جاتا ہے۔ ایک جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لئے سو جھوٹ بولنا پڑتے ہیں اور یہ سلسلہ شیطان کی آنت کی طرح پھیلتا ہی چلا جاتا ہے۔ جھوٹ کی علّت میں مبتلا شخص یہ سمجھنے لگتا ہے کہ اُس کی دروغ گوئی، جادو جگا رہی ہے۔ لوگ اُس کے جھوٹ کو سچ مان رہے ہیں۔ سو وہ اُسے اپنا سب سے کارگر آلہ اور کمالِ فن سمجھتے ہوئے ساری حدیں پھلانگتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اُس کا جھوٹ تمسخر اور مضحکہ خیزی کا بے ذوق سرکس بن جاتا ہے۔ نریندر مودی کا ’’آپریشن سیندور‘‘ بھی ’پہلگام‘ ڈرامے کے بے لباس جھوٹ سے شروع ہوا اور کسی نہ کسی شکل میں آج تک جاری ہے۔ اَب اس جھوٹ کی ہنڈیا بیچ چوراہے کے پھوٹ چکی ہے لیکن اس شرم ناک شکست کی ہزیمت اور خفت ہر آن کسی نئے جھوٹ پر اُکساتی رہتی ہے۔ فارسی میں کہا جاتا ہے ’’دروغ گو را حافظہ نباشد‘‘ (جھوٹے آدمی کا حافظہ نہیں ہوتا) ہمارے ہاں کا معروف محاورہ ہے ’’جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے۔‘‘ اس سب کے باوجود حافظے یعنی سر اور پائوں سے محروم جھوٹ کی فیکٹری مسلسل چل رہی ہے۔ تازہ ترین شاہکار، بھارتی فضائیہ کے سربراہ ائیر چیف مارشل، اَمرپریت سنگھ کی ’’کاک پٹ‘‘ سے آیا ہے۔ بنگلور میں فوجی افسروں اور سویلین حکام کے ایک محدود اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے موصوف نے انکشاف کیا کہ ’’مئی کی چار روزہ جنگ میں پاکستان کے پانچ لڑاکا طیارے مار گرائے تھے۔ چھٹا ایک بڑا نگران طیارہ تھا جو ہمارا نشانہ بنا۔ یہ طیارے ہم نے روسی ساختہ S-400میزائلوں سے نشانہ بنائے۔ ہم نے پاکستان کے دو کمانڈاینڈ کنٹرول سینٹرز، متعدد ریڈار اور ہوائی اڈوں کو بھی شدید نقصان پہنچایا جن میں سرگودھا، رحیم یار خان، سکھر اور جیکب آباد کے ہوائی اڈے شامل ہیں۔ ہم نے بہاولپور اور مرید کے میں واقع جیش محمد اور لشکر طیبہ کے مراکز بھی تباہ کردیے۔‘‘خبر میں کہا گیا ہے کہ ائیر چیف مارشل کے اِن فاتحانہ انکشافات پر حاضرین نے زور دار تالیاں بجائیں لیکن ’آپریشن سیندور‘ کے سحر میں مبتلا کسی شخص نے نہ پوچھا کہ ’’سَر! آپ کو یہ بات آج کیوں یاد آئی ہے۔ تین ماہ تک آپ نے کیوں چُپ سادھے رکھی؟‘‘پاک فضائیہ کے ایک اعلیٰ افسر نے آغازِجنگ کے دوسرے دن ہی، مقامی اور بین الاقوامی میڈیا کی بھری پریس کانفرنس میں تمام تر جزئیات، تفصیلات اور ٹھوس شواہد کے ساتھ اعلان کردیا تھا کہ پانچ بھارتی طیارے تباہ کردیے گئے ہیں جن میں شہرۂِ آفاق ’رافیل‘ بھی شامل تھے۔ دنیا نے اپنے طور پر اِس دعوے کی چھان پھٹک کی۔ دفاعی مبصّرین نے جائزہ لیا۔ انٹیلی جنس ایجنسیوں نے تحقیق وتفتیش کی۔ کسی ایک نے بھی پاکستانی دعوے کو نہ جھٹلایا بلکہ بی۔بی۔سی سمیت عالمی میڈیا نے اپنے ذرائع سے بھی اس خبر کو درست قرار دیا۔ یہاں تک کہ دنیا کا سب سے مضبوط انٹیلی جنس نیٹ ورک رکھنے والے امریکہ نے بھی پاکستانی دعوے کو مستند جانا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کوئی تین درجن مرتبہ پاک بھارت جنگ رکوانے کا تفاخرآمیز تذکرہ کرتے ہوئے یہ بھی بتاچکے ہیں کہ اس جنگ میں پانچ فائٹر طیارے گرا دئیے گئے۔ اس اعلان کا واضح اشارہ پاکستان کے دوٹوک اعلان کی طرف تھا کہ اُس نے جنگ کے دوسرے دِن ہی پانچ بھارتی طیارے مار گرائے تھے۔ خود بھارت اپنی تمام تر پینترا بازیوں کے باوجود پاکستانی دعوے کی دوٹوک تردید نہ کرسکا بلکہ کسی نہ کسی انداز میں اس کی تصدیق کرتا رہا۔ پہلی گواہی، جنگ کے تیسرے دن، 9 مئی کو آئی۔ بھارتی فضائیہ کے ڈی۔جی۔آپریشنز، تینوں مسلح افواج کی قیادت کے ہمراہ پریس کے سامنے آئے تو اُن سے پوچھا گیا’’پاکستان،پانچ بھارتی طیارے مار گرانے کا دعویٰ کررہا ہے۔ آپ کیا کہتے ہیں؟‘‘ ڈی۔ جی۔ آپریشنزنے دوٹوک جواب دینے کے بجائے کہا ’’نقصانات جنگوں کا حصّہ ہوتے ہیں۔ میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتا۔ ایسا کہنے سے مخالف فریق کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔‘‘ پھر حکمران جماعت، بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینئر راہنما اور سابق وزیرقانون سُبرامنین سوامی نے لگی لپٹی رکھے بغیر کہا’’پاکستان نے بھارت کے پانچ طیارے مار گرائے۔ پردھان منتری نریندر مودی کو چاہیے کہ اپنے لوگوں کو سچائی سے آگاہ کریں۔‘‘ مئی کے اواخر میں بھارتی چیف آف ڈیفنس اسٹاف، جنرل انیل چوہان، ’’شنگریلا ڈائیلاگ‘‘ میں شرکت کے لئے سنگاپور گئے تو بلوم برگ نے اُن سے خصوصی انٹرویو کیا۔ پوچھا گیا ’’کیا پاکستان کے ساتھ چار روزہ جنگ میں بھارت کا کوئی فائٹر طیارہ گرایا گیا ہے؟‘‘ جنرل چوہان نے کہا ’’دیکھیے! اہم بات یہ نہیں کہ طیارے گرائے گئے۔ اہم یہ ہے کہ طیارے کیوں گرائے گئے؟ ہم نے کیا کیا غلطیاں کیں؟ اور اچھی بات یہ ہے کہ ہم نے اپنی غلطیاں جان لیں۔ انہیں درست کیا اور دو دِن بعد کامیابی سے اُن پر عمل درآمد بھی کیا۔‘‘ کرید کرنے والے صحافی کا اگلا سوال تھا’’پاکستان کا دعویٰ ہے کہ اُس نے چھ بھارتی طیارے مار گرائے ہیں۔ آپ کیا کہیں گے؟‘‘ بھارتی چیف آف ڈیفنس اسٹاف کا جواب تھا ’’یہ بالکل غلط ہے لیکن جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے کہ اس طرح کی معلومات بالکل اہم نہیں۔ اہم یہ ہے کہ جیٹ طیارے کیوں گرے اور اس کے بعد ہم نے کیا کیا؟ ہمارے لئے نمبرز (طیاروں کی تعداد) اہم نہیں، یہ بات اہم ہے۔‘‘10 جون کو، لڑائی ختم ہونے کے ایک ماہ بعد، انڈونیشیا کی ایک یونیورسٹی نے ایک سیمینار کا اہتمام کیا۔ سیمینار کا موضوع تھا ’’پاک بھارت فضائی معرکہ 2025‘‘۔ انڈونیشیا میں بھارتی سفارت خانے کے ملٹری اتاشی، کیپٹن شیو کمار، سیمینار میں بھارت کی نمائندگی کررہے تھے۔ اُن سے پاکستان کے ہاتھوں چھ بھارتی طیاروں کی تباہی بارے سوال ہوا تو بولے’’ میں اتفاق نہیں کرتا کہ اس جنگ میں بھارت نے بہت سے جنگی طیارے کھوئے ہیں لیکن میں اس بات سے اتفاق کرونگا کہ ہم نے چند طیارے ضرور کھوئے ہیں۔‘‘ انہوں نے ’’چند‘‘ کا سلیس اور عام فہم زبان میں ترجمہ نہیں کیا۔ مسلسل جھوٹ جنم دینے والے ’’آپریشن سیندور‘‘ کا سب سے مضحکہ خیز پہلو یہ ہے کہ گزشتہ تین ماہ مین رنگا رنگ پھلجھڑیاں چھوڑنے والی بھارتی سرکار کے دروغ گو اہل کاروں میں سے کسی نے بھی پانچ پاکستانی طیارے مار گرانے کی بات نہیں کی۔ بھارتی پارلیمنٹ کے ’مون سون‘ اجلاس میں ’آپریشن سیندور‘ پر بحث کے لئے خاصا وقت رکھا گیا۔ اپوزیشن نے سرکار کو آڑے ہاتھوں لیا۔ طیاروں کے مار گرائے جانے پر متعدد سوالات اٹھائے۔ حکومتی ارکان اور وزرا جوابی سنگ زنی تو کرتے رہے لیکن کسی نے نہ کہا کہ ’’کوئی بات نہیں۔ پاکستان نے ہمارے طیارے گرائے ہیں تو ہم نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے پانچ پاکستانی طیارے زمیں بوس کردیے ہیں۔‘‘ جھوٹ کے ہُنر میں طاق نریندر مودی نے پھیپھڑوں کی پوری توانائی بروئے کار لاتے ہوئے ایک گھنٹہ پچاس منٹ تقریر کی لیکن اپنی مضطرب جنتا کو پاکستانی طیارے مار گرانے کی خوشخبری نہ سنائی۔

بھارتی فضائیہ کے سربراہ کا تازہ جھوٹ باسی کڑھی میں اُبال ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ گجرات کے قصاب کے گرد شکنجہ سخت ہو رہا ہے۔ پہلی بار راہول گاندھی نے ٹھوس شواہد کیساتھ انتخابی دھاندلی کے الزامات لگائے ہیں۔ دنیا میں بھارت بے آبرو اور بے ساکھ ہوچکا ہے۔ لوک سبھا کی چالیس نشستیں رکھنے والی ریاست بہار کے ریاستی انتخابات قریب آرہے ہیں اور خود جنتا کے سامنے ایک مکروہ چہرے کے بدنما نقوش واضح ہو رہے ہیں۔

تازہ ترین