• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں آپ کو کئی مرتبہ بتاتا رہا ہوں، بار بار بتاتا رہاہوں۔ اب پھر سے بتاتے ہوئے مجھے جھجک محسوس ہورہی ہے۔ ہچکچاہٹ ہورہی ہے۔ الجھن سی ہورہی ہے۔ مجھے یقین نہیں آرہا کہ آپ اتنی چھوٹی سی بات کیسے بھول سکتے ہیں کرم ہے کرم کرنے والے کا کہ ہم ہر نوعیت کے معاملات میں خود کفیل ہیں ہمارے ہاں کسی قسم کی کمی نہیں ہے۔ ہمارے ہاں مجھ جیسے پیدائشی جھوٹوں کی کمی نہیں ہے۔ آپ راستےکا پتھر اٹھا کر دیکھیں پتھر کےنیچے سے آپ کو ایک جھوٹا جھوٹ بولتے ہوئے دکھائی دےگا۔ عین اسی طرح ہمارے ہاں سچ بولنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ آپ ایک سچا شخص ڈھونڈنے نکلیں۔ آپ کا قدم قدم پر سچے آدمی سے سامنا ہوگا۔ ہم سچ بولنے والوں میں خود کفیل ہیں۔ کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ ہم پچیس کروڑ سچے اور کھرے آدمی ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمیں کھرے اور سچے لوگوں کی درآمد اور برآمد سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ سچے لوگوں میں ہم خود کفیل ہیں۔ غریب اور مسکین ممالک کو ہم امداد کے طور پر سچے اور کھرے ٹپی اور کھپی بھیجتے رہتے ہیں۔ ہم غریب ممالک کو سچے اور کھرے لوگوں کیلئےترستا ہوادیکھ نہیں سکتے۔ اس خامی کو دور کرنے کے لئے ہم ان کی بھرپور مدد کرتے ہیں۔ بے انتہا رحم دل ہیں ہم لوگ۔

ہم کسی کو بھی بے دردی سے قتل نہیں کرتے۔ ہم روتے ہیں۔ آنسو بہاتے ہیں گڑگڑاتے ہیں اور اس کے بعد مقتول کے سینے میں خنجر گھونپ دیتے ہیں۔ یا پھر مقتول کے سر میں ریوالور کی دوچار گولیاں داغ دیتے ہیں اور اس کا بھیجا باہر کردیتے ہیں میرے کہنے کا مطلب ہے کہ روتے بلکتے قاتلوں کی کمی نہیں ہے ہمارے پاس۔ اپنےجرم کا اعتراف کرتے ہوے قاتل جج صاحب کو بتاتے ہیں کہ انہوں نے رحم دلی سے مقتول کو قتل کیا تھا۔ اور بہت دیرتک روتے رہے تھے، بلکتے رہے تھے۔ چوں کہ ہمارے ہاں پڑھے لکھے لوگوں کی تعداد اب ننانوے فی صد سے تجاوز کر گئی ہے، اسلئے ہمارے ہاں اخبار لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں شائع ہوتے ہیں  اور انہماک سے پڑھے جاتے ہیں۔ آپ نے ہمارے کسی اخبار میں نہیں پڑھا ہوگا کہ فلاں قاتل نےفلاں مقتول کو بے دردی سے قتل کیا تھا۔ ہمارے ہاں ایسا کبھی نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں قاتل روتے ہیں بلکتے ہیں اس کے بعد کسی کو قتل کرتے ہیں ہم کسی کو بھی بے دردی سے قتل نہیں کرتے۔ اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ درد مند قاتلوں میں بھی ہم خود کفیل ہوتے ہیں بے درد قاتلوں کو بلانے اور کام سے لگانے کی ضرورت ہمیں کبھی محسوس نہیں ہوتی۔ اللہ سائیں کا دیا بہت کچھ ہے ہمارے پاس۔

مرنے مارنے کی بات نکل پڑی ہے تو پھر ایک دلچسپ بلکہ حیرت انگیز قصہ سن لیجئے۔ پاکستان کے ایک علاقے کا نام ہے تھر۔ سندھ کا حصہ ہے۔ ریگستان پر مشتمل ہے۔ بڑا حصہ ہندوستان کے پاس ہے اور راجستھان سے ملا ہوا ہے۔ تھر ریگستان کا چھوٹا حصہ پاکستان کے پاس ہے۔ میں نے راجستھان دیکھانہیں ہے۔ مگر راجستھان کی ویڈیو ڈاکیومینٹریز دیکھی ہیں اور دلچسپ قصے کہانیاں سنی ہیں ۔ریگستان کے بیچوں بیچ جھیلیں ہیں جھیلوں میں راٹھور اور راجپوت حاکموں کے دیدہ زیب اور بے انتہا خوبصورت محلات بنے ہوئے ہیں۔ صبح سے رات گئے تک ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کاتانتا بندھا رہتا ہے۔ راجستھان کے مقابلے میں ہمارے تھر میں خوشحالی اور آسودہ حالی گلی کوچوں میں دکھائی دیتی ہے۔ تندرست اور تواناعوام دیکھ کر راحت محسوس ہوتی ہے۔ گول مٹول اور تندرست توانا بچے دیکھ کر یورپ کے بچے یاد آتے ہیں۔ ہمارا تھر ہماری خوشحالی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بازاراور دکانیں ملکی اور غیر ملکی اشیا سے بھرےہوئےہیں ۔خریداروں کی کمی ہے اور نہ مال بیچنے والوں کی کمی ہے۔ اس قدر سکھ اور خوش حالی کے باوجود تھر کی ایک سنسنی خیز روایت مجھ جیسے ناقص عقل کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ روزانہ پانچ چھ عورتیں گلے میں پھندا ڈال کر درختوں کی ٹہنیوں سے لٹک کر اپنی جان دے دیتی ہیں۔ اقتصادی طور پر آسودہ اور خوشحال زندگی گزارنے والے تھر کے باسیوں نے یہ کیسی وبا اپنے گلے ڈالی ہوئی ہے۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آتی۔ بیروزگاری اور افلاس کی وجہ سے اگر کوئی خود کشی کرلے تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ دنیا بھر میں غربت سے تنگ آکر لوگ خود کشی کرلیتے ہیں مگر ہمارے تھر کے لوگ تو بے انتہا خوش حال زندگی گزارتے ہیں۔ تو تھر کے لوگ خاص طور پر عورتیں خود کشی کیوں کرلیتی ہیں؟ وجہ کیسی بھی ہو، خود کشی کرنے والوں میں بھی ہم خود کفیل ہیں۔

دنیا جانتی ہے کہ ہم سیاستدانوں میں خود کفیل ہیں۔ ہر نوعیت، رنگ اور نسل کے سیاستدان پاکستان کے سیاسی اُفق پر چھائے ہوئے دکھائی دیں گے۔ کوئی ناٹے، کوئی چھوٹے، کوئی موٹے سیاستدان میدان کارزار میں اپنی اپنی قسمت آزماتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سیاستدانوں کے جمگھٹوں پر سیاست کے گرو گھنٹال چھائے ہوئے ہوتے ہیں۔ وہ چھوٹے موٹے سیاستدانوں کو فارمی انڈوں کے فارمولا کو بروئے کار لاتے ہوئے گھر پر لیڈر پیدا کرنے کی ترکیب بتاتے ہیں۔ کہنے والے اس فارمولے کو جمہوریت کا انتقام کہتے ہیں۔

تازہ ترین