• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جانِ من! مجھے نہیں معلوم میں یہ خط تمہیں کیوں لکھ رہا ہوں، کافکا کے شہر سے، جہاں سے اُس نے اپنی محبوبہ ملینا کے نام خطوط لکھے تھے، اِس شہر میں اُن کی روحیں سرگوشیاں کرتی ہیں اور اُس بے نام محبت کا اظہار کرتی ہیں جس کیلئے کافکا آسمانوں سے الفاظ چُن کر لاتا تھا۔ مجھے معلوم ہے کہ نہ میں کافکا ہوں اور نہ تم ملینا، مگر ہم دونوں بھی اسی لازوال محبت کا شکار ہیں جو ہمارے بس میں نہیں۔میں اِس شہر کی گلیوں میں گھومتے پھرتے تمہیں تلاش کرتا ہوں، عجائب گھر میں جہاں کارل مارکس کا مجسمہ ایستادہ ہے ، شہر کے سب سے بڑے گرجا گھر کی دیوار کے نیچے جسکی گھڑی کی سوئیاں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ احساس دلاتی ہیں کہ تمہارے بغیر گزرے ہوئے یہ پَل کتنے بے معنی ہیں، دریائے ولتاوا کے کنارے جسکے پانیوں میں میں تمہارا عکس ڈھونڈتا ہوں، چارلس برج پر چہل قدمی کرتے ہوئے انسانوں کے ہجوم میں کہ تمہارے بنا میں خود کو تنہا محسوس کرتا ہوں، پراگ کے اُس عظیم الشان قلعے کی دربار گاہ میں جہاں سینکڑوں برس کی تاریخ بھٹک رہی ہے کہ ہم بھی ایسے ہی تاریخ کا حصہ بن جائیں گے یا شاید ایسا کچھ بھی نہ ہو، یا ممکن ہے کہ اِس کاغذ پر لکھے ہوئے یہ الفاظ اِس بے کراں کائنات میں بکھر جائیں اور کسی طور تمہارے وجود کا حصہ بن جائیں۔ اور اگر یہ نہ بھی ہوا تو کوئی ملال نہیں، میں اسی طرح تمہیں خط لکھتا رہوں گا تمہارے جواب کا انتظار کیے بغیر کہ انتظار کا کرب مجھ سے سہا نہیں جائے گا، لیکن یہ سوچ بھی میرا دل چیر کر رکھ دیتی ہے کہ میں تمہیں لکھوں اور تمہارا جواب نہ آئے، یقیناً میرے الفاظ ہی کھوکھلے ہوں گے۔ میں کل تمام دن پراگ میں بے مقصد گھومتا رہا، آج اِس شہر میں میرا آخری دن ہے، نہ جانے کیوں یہاں اداسی چھائی ہے، کل شام میں نے تمہیں اُس رومن عمارت کے قدموں میں بیٹھ کر خط لکھا تھا، لیکن وہ خط میں نے ضائع کر دیا، کہ تمہارے جواب کی توقع کرنا بے سُود تھا، ایسے ہی کسی موقع کیلئے کافکا نے ملینا کو لکھا تھا کہ ’’پراگ بہت اداس ہے، یہاں تمہارا کوئی خط نہیں پہنچا، میرا دل بوجھل ہے، ویسے یہاں خط پہنچنے کا کوئی امکان بھی نہیں ہے، لیکن کوئی اپنے دل کو یہ بات کیسے سمجھائے!‘‘

کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ جب تم اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں دیتی ہو تو اُس لمحے کائنات تھم کیوں نہیں جاتی، کیا ضروری ہے کہ وقت ایسے گزرتا رہے، کیا لازم ہے کہ ہم ماضی میں دفن ہو جائیں! اور پھر میں یہ بھی سوچتا ہوں کہ اگر کبھی تم دنیا بھر کا پیار سمیٹ کر میری آنکھوں میں دیکھو تو میرا دل دھڑکنا بند ہو جائے گا، کاش کہ ایسا ہو۔ میرے محبوب، میں جانتا ہوں کہ میں اُس جذبے کا اظہار کرنا چاہتا ہوں جو ہزاروں برس سے نہیں کیا جا سکا، اِس شہر کی قدیم عمارتوں پر لکھی ہوئی تحریروں سے الفاظ کشید کرکے میں تمہارے قدموں میں رکھنا چاہتا ہوں تاکہ تم جان سکو کہ یہاں پراگ میں تم سے دوری کیا معنی رکھتی ہے، لیکن نہ جانے کیوں مجھے لگتا ہے کہ اِس کے باوجود میں تمہیں یہ احساس نہیں دلا پاؤں گا کہ تمہاری محبت میرے لیے ایسا زہر ہے جس کا ذائقہ مجھے شہد جیسا لگتا ہے جو رفتہ رفتہ مجھے فنا کر دے گا۔ ایسی زندگی جینے کا کیا فائدہ جس میں ہم محبت کے قابل ہی نہ رہیں!

جانِ وفا! تم مجھ سے کہتی ہو کہ میں کرب میں رہتا ہوں، یہاں پراگ کا عجائب گھر دیکھتے ہوئے مجھے تمہاری یہ بات یاد آئی، اِس دنیا کا ظلم ہی تو مجھے چین نہیں لینے دیتا، اِک آگ سی لگا دیتا ہے سینے میں، یہی دکھ لے کر ہم ایک روز اِس دنیا سے چلے جائیں گے۔ لیکن وہ دن آنے سے پہلے میں یہ یقین رکھنا چاہتا ہوں کہ کسی روز تم خودسپردگی کے عالم میں اپنا آپ مجھے سونپ دو گی، اور ایسی ہی کسی خاموش ساعت میں میں اپنی محبت کے امر ہونے کی دعا کروں گا، یہ جانتے ہوئے کہ یہ محبت صرف میری آخری سانس تک ہی رہے گی اور پھر سب کچھ ختم ہو جائے گا۔یہ کائنات کس قدر بے رحم ہے۔

میرے محبوب! جب یہ خط تم تک پہنچے گا تب تک میں پراگ سے جا چکا ہوں گا، لیکن مجھے یہاں گزرا ہوا ایک ایک پل یاد رہے گا، کتنی عجیب بات ہے کہ تمہارے بغیر بھی میں یہاں سانس لے سکتا ہوں۔ تمہارے بغیر بِتایا ہوا وقت کس قدر رائیگاں ہے، یہ بات میں خود سے کرتا ہوں، اور میرے دِل سے خون رِستا رہتا ہے۔ کہیں میرا یہ خط تمہیں اُداس نہ کر دے، میں یہ بھی سوچتا ہوں مگر یہ کیسے ممکن ہے کہ محبت کے ساتھ اداسی نہ ہو، میں چاہتا ہوں کہ اپنا سب حال تمہیں لکھ دوں، پھر میں پُرسکون ہو جاتا ہوں۔ آج میں یہ شہر چھوڑ دوں گا، اِس شہر نے میرے غموں کو بڑھاوا دیا ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ اِس کی فضاؤں میں عجیب سی محبت ہے اور یہ محبت کافکا کی دی ہوئی ہے، میں نے یہاں ہر وہ گلی اور مکان دیکھا جہاں سے کافکا کا گزر ہوا تھا، کافکا کی محبتیں اِس شہر میں بکھری ہوئی ہیں، یہ شہر اُس کا قرض دار ہے اور میں تمہاری محبت کا طالب ہوں۔ یہ چند دن جو میں نے پراگ میں گزارے انہوں نے مجھے احساس دلایا کہ تمہاری جدائی مجھے کس قدر دل گرفتہ کر سکتی ہے لیکن اگر اِس شہر میں یوں کچھ وقت نہ گزرتا تو شاید میں تمہیں یہ خط نہ لکھ پاتا۔ میری خواہش ہے کہ تم اِس خط کو پھاڑ کر پھینک دینا یا جلا کر اِسکے کاغذوں کی راکھ بنا دینا، آخر ایک روز ہم بھی تو ایسے ہی فنا ہو جائیں گے، جیسے کافکا اور ملینا ہوئے تھے!

فقط، تمہارا....نام تم خود اپنی زباں سے لینا۔

تازہ ترین