دولت اور شہرت پہلے سے بہت تھی اور اب ڈونلڈ ٹرمپ دنیا کے طاقتور ترین ملک کے طاقتور ترین صدر بن گئے۔ لیکن خواہشیں کب پوری ہوتی ہیں ۔ اب ان کی آرزو ہے کہ انہیں امن کا نوبل پرائز ملے اور دنیا انہیں ایک نجات دہندہ کے طور پر یاد کرے ۔ اسی خواہش کی خاطر انہوں نے پاک بھارت جنگ رکوائی۔ اسی آرزو نے انہیں کمبوڈیا اور تھائی لینڈ کی جنگ میں مداخلت اور جنگ رکوانے پر مجبور کیا۔ اسی تسلسل میں انہوں نے آرمینیا اور آذربائیجان کا معاہدہ کروایا اور یہی آرزو لیکر وہ اب روس اور یوکرائن کی جنگ بند کروانیکی کوشش کررہے ہیں ۔ پہل پاکستان نے کی اور انہیں نوبل پرائز کیلئے نامزد کیا پھر کمبوڈیا نے پاکستان کی تقلید کی اور اب آرمینیا اور آذربائیجان نے انہیں نامزد کیا۔ صدر ٹرمپ کی یہ خواہش بری نہیں بلکہ خدا کا شکر ہے کہ ان کے ذہن پر یہ چیز سوار ہوئی جو ایک نیک مقصد ہے۔ اگر وہ کسی اور جانب مائل ہوجاتے تو مختلف ممالک کا جینا حرام کر سکتے تھے ۔ وہ سیماب صفت شخصیت ہیں اور لمحوں میں دوست کو دشمن اور دشمن کو دوست ڈکلیئر کردیتے ہیں یوں اگر وہ غلط جانب جا نکلتے تو دنیا میں کسی بڑے فساد کا موجب بھی بن سکتے تھے اور جس طرح کسی زمانے میں پہلوانوں کو کشتی لڑواتے تھے اسی طرح ملکوں کو بھی لڑواسکتے تھے۔ اس تناظر میں اللہ کا شکر ہے کہ انکے ذہن پر امن کا نوبل پرائز سوار ہوگیا۔ پاکستان اور انڈیا کی جنگ میں انڈیا کو شکست ہورہی تھی اسلئے یہاں جنگ بندی کروانا نسبتاََ آسان تھا۔ کمبوڈیا اور تھائی لینڈ چھوٹے ممالک ہیں اور ان کا تنازع اتنا گہرا نہیں تھا اسلئے انکی جنگ بندی آسان تھی۔ آذربائیجان اور آرمینیا بھی تنازعے کی طوالت سے تنگ آچکے تھے اور انہیں ایک میز پر لانے میں ڈونلڈ ٹرمپ کو زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی لیکن روس اور یوکرائن کا مسئلہ حل کرنا اتنا آسان نہیں اور باوجود ذاتی تعلق کے وہ روسی صدر پیوٹن کو آسانی سے رام نہیں کرسکتے ۔دوسری طرف یوکرائن کا موقف بھی سخت ہے اور اسے یورپی یونین کی حمایت بھی حاصل ہے ۔یہ تو وہ چیزیں ہیں جو انہیں نوبل پرائز کی منزل کی طرف لے جاتی ہیں لیکن نیتن یاہو یا باالفاظ دیگر اسرائیل کی حمایت ان سے یہ منزل دور کررہی ہے ۔ اسرائیل نے فلسطین میں مظالم کی نئی تاریخ رقم کردی ہے۔وہ فلسطینیوں کی ایسی نسل کشی کررہا ہے کہ خود اسرائیل کے اندر سے بھی لوگ اس ظلم پر شرمانے لگےہیں۔غزہ کو کھنڈر بنا دیا گیا ہے ۔ معصوم بچے تو کیا صحافی بھی بھوک اور پیاس سے مرنے لگے ہیں ۔ نیتن یاہو نہ عالمی برادری کی سن رہا ہے ، نہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے نے اس کے فیصلوں پر کوئی اثر ڈالا ، نہ اقوام متحدہ اور ریڈکراس کی اپیلوں سے اسکے کان پر جوں تک رینگی ۔ بس وحشت اور ظلم اسکے ذہن پر سوار ہے اور انتہائی سفاکیت سے مظلوم فلسطینیوں کا صفایا کرنے میں مگن ہے ۔ حل تو دور کی بات، ڈونلڈ ٹرمپ اس سے جنگ بندی تک نہ کروا سکا لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے اس سے اس طرح کی ناراضی کا اظہار نہیں کیا جس طرح انڈیا سے کیا۔ امریکہ کل بھی نیتن یاہو کے ساتھ تھا اور آج بھی ہے ۔ وہ کل بھی اسرائیل کا سرپرست تھا اور آج بھی ہے۔ وہ اسرائیل کو امداد بھی دے رہا ہے اور ہتھیار بھی۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اسرائیل کی اس ساری چوہدراہٹ کی وجہ امریکہ ہے اور اگر امریکہ کا ساتھ نہ ہوتا تو اسرائیل نہ ماضی کی فتوحات حاصل کرسکتا تھا اور نہ اب غزہ پر یہ مظالم ڈھاسکتا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ لاکھ کوشش کریں لیکن نیتن یاہو جیسے وحشی کی سرپرستی کرنیوالے کو کیوں کر امن کا نوبل انعام دیا جاسکتا ہے ۔ ڈونلڈ ٹرمپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے کوشش کی لیکن حماس اور اسرائیل کے موقف میں بعدالمشرقین کی وجہ سے وہ مشرق وسطیٰ میں امن نہ لاسکے یا پھر یہ کہ انہوں نے کوشش کی لیکن نیتن یاہو نے ان کی بات نہیں مانی لیکن انکے اس عذر کو قبول نہیں کیا جائے گا کیونکہ اگر نیتن یاہو نے ان کی بات نہیں مانی تو پھر انہوں نے اس کی سرپرستی کیوں جاری رکھی؟ غزہ کے بارے میں خود ڈونلڈٹرمپ کے بعض بیانات بھی نہایت سفاکانہ تھے ۔ صرف یہ نہیں بلکہ ایران پر حملے میں امریکہ نے خود شریک ہوکر اسرائیل کو سپورٹ کیا۔ گویا ٹرمپ لاکھ چاہیں، اسرائیل سے اپنے آپکو لاتعلق نہیں کرسکتے اور جب تک وہ اسرائیل کی سرپرستی جاری رکھتے ہیں وہ اگر پوری دنیا میں بھی امن لے آئیں تو صرف اسرائیل کی سرپرستی انہیں امن کے نوبل انعام کیلئے نااہل قرار دلواتی ہے اور اگر اسرائیل کی سرپرستی کے باوجود ان کو امن کا نوبل انعام دیا گیا تو اس سے خود اس انعام کی حیثیت مجروح ہوگی اور لوگ اسے ایک مذاق سمجھیں گے۔ صدر ڈونلڈٹرمپ اگر واقعی اپنے آپ کو امن کے نوبل انعام کا حقدار ثابت کرنا چاہتے ہیں تو پہلی فرصت میں فلسطین اور اسرائیل کے قضیے کی طرف متوجہ ہوں۔ روس اور یوکرائن کی جنگ میں مہینے میں اتنے انسان نہیں مرتے جتنے غزہ میں ایک دن میں مرتے ہیں ۔ قضیے کے حل کیلئے نیتن یاہو جو فارمولے پیش کرتا ہے وہ مذاق کے سوا کچھ نہیں ۔ خود اسرائیل کے اندر بھی لوگ اسے ناقابل عمل قرار دیتے ہیں ۔ اسلئے ڈونلڈٹرمپ کو اسرائیل پر بھرپور دباؤ ڈالنا ہوگا اور ایک ایسے فارمولے پر فریقین کو آمادہ کرنا ہوگا جو فلسطینیوں کو بھی عزت کے ساتھ امن اور آزادی کے ساتھ جینے کا حق دے ۔ ڈونلڈٹرمپ کی خواہش اپنی جگہ لیکن اس عاجز کی رائے میں ایسے شخص کو امن کا نوبل انعام دینا جو ہر معاملے میں اسرائیل کا ہمنوا ہو، خود اس (نوبل پرائز) انعام کی توہین ہوگی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو اگر واقعی امن کا نوبل انعام چاہئے تو وہ غزہ میں مستقل جنگ بندی کراتے ہوئے اس دیرینہ مسئلے کا ایسا آبرومندانہ حل نکالیں جو سب کیلئے قابلِ قبول ہو پھر اسکے بعد وہ خود کو اس انعام کا حقدار گردان سکتے ہیں اور اسے حاصل بھی کرسکتے ہیں۔ سر دست انہیں چاہئے کہ وہ اسرائیل اور فلسطین کے قضیے کے مستقل حل کی طرف متوجہ ہوں ۔