السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
طریقۂ واردات کی نشان دہی
’’عیدالاضحیٰ ایڈیشن‘‘ موصول ہوا، سرِورق پر پورا گھرانہ قربانی کے گوشت سے پورا پورا انصاف کررہا تھا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ڈاکٹر حافظ محمّد ثانی قربانی کے مقصد و افادیت پر روشنی ڈال رہے تھے۔ رابعہ فاطمہ ماحولیاتی تحفط کے لیے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے آلائشوں کے اتلاف کا منصوبہ لائیں۔
رؤف ظفر نےقربانی کے گوشت کو اعتدال سے کھانے کا مشورہ دیا۔ سیّدہ تحیسن عابدی کی تحریر بھی قربانی سے عبارت تھی۔ تحریم فاطمہ نے دکھاوے سے باز رہنے کی ہدایت کی، منور مرزا عالمی بساط پر سیاسی چالوں، ٹرمپ اور پیوٹن کے طریقۂ واردات کی نشان دہی کرتے پائے گئے۔
’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں ایڈیٹر صاحبہ نے بہارِ عید پر رب کا شکر ادا کیا، تو عرفان جاوید نیافسانہ، ’’شاہ محمّد کا تانگا‘‘ لیے چلے آئے۔ نادیہ سیف نےبھی انا کی قربانی کے ساتھ عیدین کی اجتماعی تصوّر کو اجاگر کیا۔ پیرزادہ شریف الحسن کی تحریر نام و نمود اور دکھاوے پر ایک سرزنش تھی، تو طلعت عمران نے ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ ہمیشہ کی طرح عُمدگی سے مرتّب کیا۔ اور ہمارے صفحے پر ہمیں ہی پہلا نمبردیا گیا، بہت شکریہ۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میر پورخاص)
’’ای میل آف دی ویک‘‘ کا سلسلہ ؟
تازہ میگزین کے ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں سیّد طارق حسنی کا مضمون پڑھ کر پتا چلا کہ کراچی بھی زلزلوں کی زد میں ہے، اللہ خیر کرے۔ منور مرزا کا ’’حالات و واقعات‘‘ اور عرفان جاوید کا ’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘، دونوں نگارشات خُوب دل لگا کر پڑھیں، دونوں پڑھ کردل خوش ہوگیا۔
’’ڈائجسٹ‘‘اور’’ناقابلِ فراموش‘‘ بہت اچھے لگے۔ ’’نئی کتابیں‘‘ سلسلے میں، شمل کہانی پر تبصرہ پسند آیا۔ ہاں، کیا ’’گوشۂ برقی خطوط ‘‘میں بھی آپ نے’’ای میل آف دی ویک‘‘ کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ اگر ایسا کیا ہے، تو اچھا کیا۔ طاؤس کوکام یابی بہت مبارک ہو۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)
ج : نہیں، کوئی سلسلہ شروع نہیں کیا۔ بس ایک آدھ ایسی ای میل موصول ہوجاتی ہے کہ اُسے کوئی نہ کوئی اعزاز دینا ناگزیر ہوجاتا ہے۔ ویسے برقی نامہ نگاروں میں بمشکل ایک دو نام ہی ایسے ہیں۔
نئے سلسلے کی کیا بات ہے
عیدالاضحیٰ ایڈیشن، مدرز ڈے اور فادرز ڈے اسپیشل ایڈیشنز اس مرتبہ اوپر تلے آئے اور نہایت ہی حسین و دل کش انداز میں تیار کیے گئے۔ ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ صفحے میں میرا بھی میرے بچّوں کے نام پیغام شائع کیا گیا۔ گزشتہ شماروں کی بات کروں، تو صفحہ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ڈاکٹر حافظ محمد ثانی نے سنّتِ ابراہیمیؑ کی عظیم یادگار سے متعلق نہایت ہی عُمدہ تحریر رقم کی۔ قربانی کا گوشت ضرورکھائیں، لیکن احتیاط اور اعتدال کے ساتھ، اس عنوان کے تحت رقم طراز تھے، رؤف ظفر، جو ہمیشہ ہی بہت اعلیٰ نگارشات لاتے ہیں۔
؎ شُکر خدا کا پھر نظر آئی بہارِ عید… اس منفرد، اجلے عنوان کو اپنی تحریر سے سجایا تھا، جریدے کی ایڈیٹر صاحبہ نے۔ واہ واہ، آپ تو ہر بار ہی کمال تحریر لکھتی ہیں۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔ اور ہم اسی طرح یہ تحریریں پڑھتے، آگے بڑھتے رہیں۔ ’’اس ہفتے کی چٹھی‘‘ کے حق دار بنے ، شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی میرپورخاص والے۔
بھئی، بہت ہی خوش نصیب ہیں۔ آخر میں کچھ بات تازہ شمارے کی بابت بھی ہوجائے۔ تمام سلسلے بہترین ہیں، لیکن نئے سلسلے ’’نئی کہانی، نیافسانہ‘‘ کی بات ہی کچھ الگ ہے۔ یہ ایک بہترین کوشش و کاوش ہے، جس کے مرتب عرفان جاوید ہیں۔ سلسلہ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے دونوں واقعات بہترین تھے۔ اس صفحے کےلیے مَیں بھی پہلی بار اینٹری دے رہا ہوں۔ اُمید ہے، شائع کرکے حوصلہ افزائی کریں گی۔ اورہاں، اس مرتبہ بھی’’آپ کا صفحہ‘‘ میں میرا خط شائع کرنے کا بےحد شکریہ۔ (اسلم قریشی، آٹوبھان روڈ، ٹھنڈی سڑک، حیدرآباد)
ج: ہماری طرف سےاس بحرانی کیفیت میں بھی (پرنٹ میڈیا کے چل چلاؤ کے دِنوں میں) ایک نیا سلسلہ اِسی اُمید پر شروع کیا گیا کہ قارئین کو نہ صرف اپنی جانب متوجّہ کرے گا، سندِ پسندیدگی بھی ضرورحاصل کرے گا اور الحمدُللہ، آپ لوگوں کی بےپناہ تعریف و توصیف کے بعد محنت پھل لاتی محسوس ہورہی ہے۔
ایسے گرے پڑے نہیں ہیں!!
’’اشاعتِ خصوصی‘‘میں سید طارق حسنی نے بتایا کہ ’’کراچی بڑے زلزلوں کی زد میں ہے‘‘ پڑھ کرفکر دو چند ہوگئی۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں ثانیہ انور کا ’’بیوگی کا کڑا تلخ سفر‘‘ بھی ایک فکرانگیز، تشویش ناک رپورٹ تھی۔ رؤف ظفر نے سید اظہر کا عُمدہ انٹرویو کیا۔ منور مرزا نے ’’حالات و واقعات‘‘ میں بالکل صحیح اندازِ فکر اختیار کیا بلکہ ہمیشہ ہی درست سمت گام زن دکھائی دیتے ہیں۔ ’’متفرق‘‘ صفحے میں، حسیب نایاب منگی نے ماضی کا حال سے اچھا موازنہ کیا۔منور راجپوت کو چاہیے،’’نئی کتابیں‘‘ سے آگے بڑھیں۔
وہ انتہائی اہم موضوعات پر شاہ کار نگارشات قلم بند کر چُکے ہیں۔ انہیں محض ’’نئی کتابیں‘‘ پر اپنی توانائیاں خرچ نہیں کرنی چاہئیں۔ بلاشبہ اُن کے تبصروں کا جواب نہیں ہوتا لیکن دیگر کئی اہم موضوعات بھی اُن کے بھی منتظر ہیں۔ باقی سنڈے میگزین کا مطالعہ جاری ہے۔ دن میں سولہ، سولہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہو تو ایک سنڈے میگزین کا مطالعہ کرنے میں دوتین دن تولگ ہی جاتے ہیں۔
رہی ہماری تحریروں کی بات، تو آپ نے تو جیسے قسم کھا رکھی ہے کہ اُن سے ردّی کی ٹوکری کا پیٹ لازمی بھرنا ہے، اِسی لیے علیحدہ سے اپنا تفصیلی تعارف بھی بھجوارہا ہوں، جس سےآپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ عام قارئین بھی کوئی ایسے پڑے گرے نہیں ہوتےہیں۔ (صبور مشتاق حسین، گارڈن شو مارکیٹ، کراچی)
ج: محترم ! تحریروں کی اشاعت، عدم اشاعت کا کسی کے گِرے پڑے یا اُٹھے کھڑے ہونے سے کوئی تعلق نہیں۔ جو تحریر لائقِ اشاعت ہوگی، وہ کسی بھی تعارف کے بغیر شائع ہوجائے گی، آپ اپنا سی وی10 صفحات پر لکھ کر بھیج دیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ آپ کے خط کو لائقِ اشاعت بنانے میں خاصا وقت لگ جاتا ہے، توکسی تحریر کو معیار کے مطابق لانے میں تو شاید پورا دن درکار ہو۔
سو، ہماری طرف سے معذرت ہی قبول فرمائیں۔ البتہ آپ کی علمیت و قابلیت کی جانچ کے لیے تو لفظ ’’بیوگی‘‘ ہی کافی ہے، جس سے متعلق آپ کا خیال ہے کہ درست لفظ ’’بیودگی‘‘ہے (اب اس قدراحمقانہ بات قلم زد کیے بناچارہ نہ تھا، سو خط سے ایڈٹ کی گئی) جسے ہم نے غلط طور پر’’بیوگی‘‘ لکھا۔
گھٹنوں، ٹخنوں سے نکل کر…
ڈاکٹرحافظ ثانی نےعیدالاضحیٰ کے حوالے سے شان دارمضمون تحریرکیا۔ اُن کا مضمون دل ہی میں نہیں اُترا، قربانی کے اصل معنی و مفہوم سے بھرپور آگاہی بھی دے گیا۔ رابعہ فاطمہ نے ماحولیاتی تحفّظ اور ٹیکنالوجی کے موضوع پر مضمون تحریر کیا۔ یہ آن لائن خریداری، قربانی کیا ہے، کیا قربانی کرنے والے کو قربانی کے وقت موجود نہیں ہونا چاہیے۔
رؤف ظفر گوشت کے استعمال میں احتیاط کی ضرورت پر زور دے رہے تھے، ڈاکٹر مختار احمد سے مفید بات چیت کی گئی۔ سیّدہ تحسین عابدی، دانیال حسن چغتائی اور تحریم فاطمہ نے بھی قربانی کے اصل مطلب و مقصد سے آگاہ کیا۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں کوئی خاص بات نہیں تھی۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ کی تصاویر اچھی لگیں۔ ’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ میں ’’شاہ محمّد کا تانگا‘‘ کی پہلی قسط کافی دل چسپ، لیکن ناقابلِ یقین سی تھی۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں شیخ وامق اور پروفیسرحکیم عمران فیاض نے سبق آموز مضامین تحریر کیے۔
نادیہ سیف نے انا کی قربانی کا درس دیا، نسرین اختر نیناں صوفی غلام مصطفیٰ کی وجۂ شہرت بیان کر رہی تھیں۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں پیرزادہ شریف الحسن عثمانی نے نام و نمود و نمائش کی مذمّت کی، تو کرن نعمان نے عفو ودرگزر کی اہمیت بتائی اور’’آپ کا صفحہ‘‘میں ہمارا اورخادم ملک دونوں کاخط موجود تھا، جن سے پورا شمارہ روشن روشن معلوم ہورہا تھا۔ اگلے شمارے کے ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں روشنی کےایک اور مینار کا ذکرکیا گیا۔
حضرت سلمان فارسیؓ کے حالاتِ زندگی، قبولِ اسلام کی رُوداد پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ منیر احمد خلیلی بہت ہی قابل انسان ہیں، بڑا فکر انگیز مضمون تحریر کرکے بہت سے حقائق سے پردہ اٹھایا۔ ثانیہ انور نے اہم ایام پر شان دارمضمون قلم بند کیا۔ ’’فادرز ڈے اسپیشل‘‘ کے تحت سیّدہ تحسین عابدی اورحافظ بلال بشیر کی نگارشات پڑھنے کو ملیں۔ ’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ کی آخری قسط بھی نہایت دل چسپ رہی۔ ’’عالمی یومِ والد‘‘ کی مناسبت سے عطاءالحق قاسمی کا فیملی شوٹ، انٹرویو بھی لاجواب تھا۔
’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ ہمیشہ کی طرح عُمدگی سے مرتب کیا گیا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں اختر سعیدی کی نظم کے کیا کہنے اور’’آپ کا صفحہ‘‘میں خادم ملک کا خط سب سے اوپر ہی جگمگا رہا تھا۔ ہم آپ کےجواب سےکچھ خاص متفق نہیں، ہمارے خیال میں تو بےکار ملک کی عقل اب گھٹنوں، ٹخنوں سے نکل کر دماغ میں آرہی ہے۔ (سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی، کراچی)
ج: پنجابی زبان کی ایک ضرب المثل کا ترجمہ ہے کہ ’’دانا وبینا افراد کی کمریں ملتی ہیں‘‘ تو اللہ نظرِ بد سے بچائے، آپ دونوں کی دانش و بینش میں اُنیس بیس ہی کا فرق ہے۔ آپ یقیناً اپنے ممدوح کو زیادہ بہتر طور پر جانتے ہوں گے۔ سو، ہم اپنے الفاظ واپس لیے لیتے ہیں۔
ہفتے میں سات بار…!!
میرے والد سے متعلق میرے جذبات ’’فادرز ڈے ایڈیشن‘‘ میں شائع کرنے کا بہت شکریہ۔ ہر اتوار ہی آپ سے ایک ملاقات ہوجاتی ہے،اور اس ملاقات کا پورے ہفتے انتظار رہتا ہے۔ دل چاہتا ہے کہ ’’سنڈے میگزین‘‘ ہفتے میں ایک بار نہیں، سات بار شایع ہو، مگر یہ شاید ممکن نہیں۔ عطاءالحق قاسمی کا بیٹوں کے ساتھ شوٹ اور بات چیت بہت ہی متاثرکُن تھی۔ اور ہیڈنگ کا تو جواب ہی نہ تھا کہ؎ ’’میرے بچّے مجھے بوڑھا نہیں ہونےدیتے…‘‘ ’’غزہ آخری سانسیں لے رہا ہے؟؟‘‘منیراحمد خلیلی کی کاوش انتہائی فکرانگیز تھی۔ اب تو بس انتظار ہے کہ کب مکافاتِ عمل ان یہودیوں کو اِن کے انجام تک پہنچائے گا۔
منور مرزا نےبھی اِس ضمن میں بہترین تجزیہ پیش کیا بلکہ ہمیشہ ہی کرتے ہیں۔ افسوس کہ مسلمان حُکم ران مغرب کی کٹھ پُتلیاں بنے ہوئے ہیں۔ مَیں ایک بار پھر آپ لوگوں کو شاباشی دینا چاہوں گا کہ مظلوم فلسطینیوں کے لیے مسلسل آواز اُٹھارہے ہیں اور ہاں، ’’عالمی یومِ والد‘‘ کے موقعے پربھی کس کس عنوان سے باپ کی عظمت و خدمات کو خراجِ تحسین و عقیدت نہیں پیش کیا گیا، تو یقیناً آپ کا یہ عمل بھی لائقِ صد ستائش ہے۔ (منصور وقار، پی آئی بی کالونی، کراچی)
ج: یہاں جریدے کی ایک بار اشاعت، کارِمحال، کارِدارد ہے، آپ کوپتا نہیں، کس بنیاد پر یہ ہری ہری سوجھ رہی ہے۔
فی امان اللہ
زیرِنظر شمارے کے اسلامی صفحے ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ سے آغازِ مطالعہ کیا۔ حضرت جعفر طیارؓ کے ایمان افروز حالاتِ زندگی میں قارئین کے لیے گراں قدرسامانِ زیست تھا۔ عام طور پر ہاٹ کیک افیئرز، ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ کے اوون میں پکتے ہیں۔ فی الوقت پاک، بھارت مناقشے سے بڑھ کر پسوڑی کون سی ہے، ہم سائے کو ٹکریں مارنا، مُودی موذی کا الیکشن ٹُول ہے۔ ’’حالات و واقعات ‘‘پر پہنچے تو وہ بھی ہندو توا کے نمائندے مودی کے جنگی جنون پر وَٹ کھا رہا تھا اور صاحبِ مضمون بیک چینل ڈپلومیسی ایکٹیو کرنے پر زور دے رہے تھے۔
شمارے کے چوتھےزینے’’سنڈے اسپیشل‘‘پرپیررکھاتو حیرت کا کوہِ گراں سر سے ٹکرایا کہ دنیا کی 60فی صد گاڑیاں رکھنےوالے غریب ممالک میں92فی صد سڑک حادثات ہوتے ہیں۔ اس سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ جہالت اور افلاس کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ہم سے عشّاقِ افسانہ واسطے’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ جیسا سلسلۂ جداگانہ شروع کرنے کا بےحد شکریہ۔ مرکزی صفحات، تو گویا میگزین میلے کی ’’انارکلی‘‘ ہیں۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں سفرِ حج کو خوش گوار بنانے کے لیےعازمینِ حج سے شان دارایکسرسائزٹپس شیئرکی گئیں۔
سوشل میڈیا کی ماراماری سےگھبرا کے’’نئی کتابیں‘‘ کے سائے میں پناہ لیتے ہیں، مگر ایک 480 صفحاتی کتاب کی 3570روپے قیمت دیکھ کرعشق کا بھوت کومے میں چلا گیا۔’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ ماں کے نام، اولاد کی طرف سے ارسال کردہ محبت بھرے سندیسوں سے مہک رہا تھا۔ اور اس بار ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی اعزازی ای میل کی لمبی ریل نے توہائیڈ پارک کے بیرئیرز توڑتے ہوئے نہ صرف تختِ طائوس کی سجی وکھیاں سیک دیں بلکہ دوسرے تیسرے کالم میں ڈینٹ بھی ڈال دیئے۔ سو، اِس ٹُٹ بَھج پر ہماری عرض داشت قبول فرمائیں۔
اس کےبعد سالِ رواں کے ماہ شش کا شمارۂ اول نظر نواز ہوا۔ صفحہ اسلامی ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘سے رُوحِ سلیم کو منور کیا۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘میں ماہِ جون کے اہم عالمی ایام میں ’’ورلڈ بائیسکل ڈے‘‘ بھی نظر آیا۔ بندہ بچپن سے پچپن ہنوزسائیکل سوارہے۔’’عالمی یومِ ماحولیات‘‘پر بہترین پیغام دیا گیا کہ ہر شخص اپنے حصّے کا چراغ جلائے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں ٹرمپ کا قصیدہ تھااور کیوں نہ ہو کہ انکل سام، بساطِ عالم میں اپنا ٹرمپ کارڈ (ترپ کا پتا) مغرب تا مشرق بڑی سرعت سے چلا رہے ہیں۔
’’مارٹن کوارٹرزکا ماسٹر‘‘ ایک اورعُمدہ انتخاب ثابت ہوا۔ ’’پوشاک نگر‘‘ کے رائٹ اَپ میں لکھا گیا کہ عموماً اندر وباہر کے موسموں میں تفاوت خواتین میں دیکھی جاتی ہے، سوفی صد بجا فرمایا۔ ’’متفرق‘‘ میں خطوط نویسی کی دَم توڑتی روایت پرتفکّر ظاہر کیا گیا۔ پر آپ کے جریدے میں تو ’’خط نگری‘‘ رنگلے پلنگ پربراجمان ہے۔ حق گو صحافیوں کی جراتِ رندانہ سے عبارت مضمون کا جواب نہ تھا۔اسٹڈی ٹیبل (نئی کتابیں) کے شعری مجموعے ’’ہجومِ آرزو‘‘ نےدل کومائل، جگر کو قائل اور روح کو گھائل کیا۔
واقعی انسان آرزئوں کی بارات میں جیتا ہے۔ خواب و خیال میں ’’ہیرو‘‘، گھر میں ’’نوکر ووہٹی دا‘‘، دفتر میں ’’چیف صاحب‘‘ مگر جو بننا چاہیے، اُس طرف دھیان نہیں دیتا، یعنی بندے دا پتر۔ آخر میں باتاں،بزمِ بہاراں محفل یاراں،انجمنِ قلم کاراں، یعنی آپ کا صفحہ کی، جہاں کوئی کندہ ناتراش، جوابِ ترش پاکر آہ اور ادب شناس شاباش لے کر واہ کرتا ہے۔ (محمّد سلیم راجا، لال کوٹھی، فیصل آباد)
ج:سارا سال قلمی نامہ نگار، برقی خطوط نگاروں کےسینےپرمونگ دلتے ہیں تو اگر ایک بارسجّی، کھبّی وکھی(الٹی یا سیدھی پسلی) سِک گئی یا ایک آدھ ڈینٹ پڑ ہی گیا، تو کوئی قیامت نہیں آگئی۔
* آج ذہن کچھ دھواں دھواں ساہے، جریدہ سامنے دھرا ہے۔ رؤف ظفر لوگوں کو لٹیروں یا ٹھگوں سے ہوشیار کررہے تھے، مجھے بھی اس حوالے سےایک پرانا واقعہ یاد آگیا، جب میری بھولی ماں نے بھی ایسے فراڈیوں کے ہاتھوں خاصا نقصان اٹھایا تھا۔ ’’اسٹائل‘‘ بزم کے طفیل، موسمِ خزاں میں بہاروں کے رنگ بکھرے دیکھ لیے۔ ذوالفقارچیمہ کی سوانح عمری شان دار ہے۔
حامد علی کی غزل کے کچھ اشعار بہت پسند آئے۔ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں محمد عارف کے بیویوں پہ لطائف زبردست تھے۔ خادم ملک فرما رہے تھے کہ ’’سنڈے میگزین‘‘ اتوار کے بجائے کسی اوردن شائع کیا کریں۔ ہاہاہا… ہاں، ’’ہفتے کی چٹھی‘‘ کی مسند پر براجمان ڈاکٹر تبسّم خوب بھلی لگیں۔
اگلےشمارے میں ٹرمپ کے نئے دَور پرسرسری نظر ڈالی کہ یہاں تو ہر دوسرا شخص اسی موضوع پر بات کر رہا ہے۔ پی ٹی وی کے عروج و زوال کی داستان مجھے اپنے بچپن کے سنہرے دَور میں لے گئی، جب ہم نے 14 انچ کا اینٹینے والا ایک پرانا ٹی وی لیا تھا اور سگنلز کے لیے ہمہ وقت اینٹینا ہلانا جُلانا پڑتا تھا۔ ’’اسٹائل‘‘ کی تحریر سے 100 فی صد متفق نہیں کہ خواتین سے متعلق بہت سی عام باتیں، سچ بھی ہیں، خاص طور پر یہ کہ خواتین واقعی اچھی ڈرائیورنہیں ہوتیں۔
اور آپ کے آخری جملے پر تو بہت زور کی ہنسی آئی کہ ’’لیکن، آپ کپڑے آئرن کرکے ہی پہنیے گا۔‘‘ہاہاہاہا…’’پیارا گھر‘‘ میں کھانوں کی تراکیب دیکھ کے منہ میں پانی بھرآیا کہ سارے ہی پکوان بہت چٹ پٹے معلوم ہوئے، یہاں توکھانوں میں کوئی ذائقہ ہی نہیں ہوتا۔ ’’آپ کاصفحہ‘‘میں اس بارجوابات بہت عمدہ تھے۔ ایک بات پوچھنی تھی کہ کیا مَیں ’’اسٹائل‘‘ کے لیے کوئی تحریرلکھنے کی کوشش کرسکتی ہوں۔ (قرات نقوی، ٹیکساس، امریکا)
ج: نیکی اور پوچھ پوچھ… ایک بار نہیں، سو بار لکھنےکی کوشش کرو کہ ہم تواب یک سانیت سے سخت عاجز آچُکے ہیں۔
* آپ کا سنڈے میگزین بہت اچھا ہے اور معلومات میں اضافے کا بڑا ذریعہ بھی۔ یہ میری دوسری ای میل ہے۔ پلیز، ضرور شامل کرلیجیے گا۔ (شہزاد احمد)
ج: پہلی شامل ہوگئی تھی کیا؟
قارئینِ کرام کے نام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk