• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

معلومات میں بہت بہت اضافہ  

اللہ مسلمانوں کو عقلِ سلیم دے۔ آج جو جتنا دولت مند ہے اُتنا ہی دانش ور، امریکی صدر تو ایک چھلاوا ہیں اور وہ مُلکوں کے ساتھ بندر بانٹ کر رہے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں نقل اور سفارش کا رجحان طلبہ کا مستقبل دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے، ڈاکٹر ریاض علیمی پریشان تھے کہ اب ایسی باتیں بھی لوگوں کے سر سے گزر جاتی ہیں۔ بہرحال، اصلاح ضروری ہے۔ 

ماہِ جون میں عالمی یوم والدین کے ساتھ، دودھ کا دن، بائسیکل، چائلڈ لیبر، موسیقی اور بیوہ عورتوں کا عالمی دن بھی منایا جاتا ہے، ثانیہ انور نے ہماری ناقص معلومات میں بہت بہت اضافہ کیا۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں کیا ہی خُوب لکھا گیا کہ ؎ تم اتنا جو مسکرا رہے ہو، کیا غم ہے جو چُھپا رہے ہو۔ 

گوانگ چُو 34منزلہ عمارت کا پڑھا، پرواز کے کیا کہنے، لُطف ہی آگیا۔ اختر سعیدی کتابوں پر تبصرے کے ایکسپرٹ ہو چُکے ہیں۔ شری مرلی چند، صفدر خان، سید زاہد علی، پرنس افضل شاہین شریکِ محفل تھے اور ہفتے کے چٹھی کے ونر رانا محمد شاہد ٹھہرے، بہت مبارک ہو۔ (شمائلہ نیاز، دائرہ دین پناہ، تحصیل کوٹ ادّو، مظفّر گڑھ)

ج:دراصل ثانیہ انور ہماری ٹیم میں بہت بہت خوش گوار اضافہ ہیں، تو قارئین کی معلومات میں بہت بہت اضافہ ہونا تو ناگزیر ہی تھا۔

زمانہ بڑے شوق سے سُن رہا تھا…

ذوالفقار چیمہ کی داستانِ حیات سنڈے میگزین کی زینت تھی، قارئین کے دل چسپ تبصروں اور مِلنے جُلنے والوں سے بھی معلوم ہوتا رہتا کہ سوانحِ عمری بڑی دل چسپی سے پڑھی جارہی ہے، لیکن نہ جانے یک دَم کیا ہوا کہ کہانی کو ایک خُوب صُورت موڑ دے کر ختم کردیا گیا۔ حالاں کہ ایک بہادر، فرض شناس پولیس آفیسر کی زندگی میں دورانِ ملازمت اَن گنت ایک خطرناک موڑ آتے ہیں، تو یہ توقع تھی کہ سلسلہ ابھی مزید چلے گا، وہ کیا ہےکہ ؎ زمانہ بڑے شوق سےسُن رہا تھا۔ 

مجھ ناچیز کا دوسرا خط نمایاں طور پر شائع کرکے حوصلہ افزائی کرنے کا بہت بہت شکریہ، بالخصوص والدہ محترمہ سے متعلق اتنے پیارے ریمارکس دینے پر ہم سب گھر والوں، خاص طور پر خالاؤں اورنانی امّاں جان کی طرف سےدلی دُعائیں قبول فرمائیں۔ ویسے یہ سو فی صد حقیقت ہے کہ ہم جیسے طلبہ کے لیے ’’سنڈے میگزین‘‘ سے بہتر تفریح اور کوئی نہیں۔ 

نصابی کتب پڑھ پڑھ کرجب سخت بوریت اور ذہنی تھکاوٹ سی ہونے لگتی ہے، تو جریدے ہی کی سمت ہاتھ جاتا ہے۔ دل تو چاہتا ہے کہ سنڈے میگزین کو تواتر سے خط لکھوں، لیکن کم علمی کے باعث تین چار خطوط کے بعد ذخیرۂ الفاظ ہی ختم ہوکر رہ گیا ہے۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں شائع ہونے والے تمام خطوط کا بغور مطالعہ کرتا ہوں۔ ویسے اگر آپ کی رہنمائی حاصل رہی، تو شاید میں بھی اچھا لکھنے لگوں۔ (حافظ عُمرعبدالرحمٰن ڈار، ہرن مینار، شیخوپورہ)

ج: حافظ صاحب! آپ اچھا لکھتے ہیں، بس مطالعے کو زندگی کا لازمہ بنالیں کہ اچھا لکھنے کے لیے اچھا پڑھنا بےحد ضروری ہوتا ہے۔ چیمہ صاحب کی سوانح عُمری بالآخر ختم ہونی ہی تھی اور کوئی سلسلہ اپنی مقبولیت کے ساتھ ختم ہو تو زیادہ اچھا ہوتا ہے، بہ نسبت اِس کے کہ لوگ ہاتھ جوڑ کر ختم کرنے کی درخواست کریں۔

سارے موتی ایک لڑی میں… 

آج کی چٹھی عمومی نہیں، ایک خصوصی تبصرے پر مشتمل ہے۔ مَیں دراصل میگزین کے تمام لکھاریوں کو دلی خراجِ تحسین پیش کرنا چاہتی ہوں کہ ؎ ’’اپنا زمانہ آپ بناتے ہیں اہل دل … ہم وہ نہیں کہ جن کو زمانہ بنا گیا‘‘ کے مصداق ’’سنڈے میگزین‘‘ نے دنیا کی نظروں میں اپنا نام و مقام خُود بنایا ہے، اور یہ ادراک مجھےکچھ یوں ہوا کہ گزشتہ دنوں کچھ نئے جرائد سے شناسائی کا موقع ملا۔

اور چوں کہ پہلی بار سنڈے میگزین سے ہٹ کر (کتب کے علاوہ) کچھ مطالعہ کرنے کا اتفاق ہوا تو جریدے کی قدر دوچند ہوگئی۔ سچ کہوں تو ان جرائد میں بلاشبہ تفریحی مواد موجود تھا، لیکن اس قدرکم تر کہ ہزارہا تو املا اور پروف کی غلطیاں۔ تو بھئی، کہنا صرف یہ ہے کہ اپنا سنڈے میگزین دی بیسٹ ہے۔ 

منور مرزا مُلک و قوم کی فلاح وبہبود کے لیے سدا کوشاں نظر آتے ہیں، تو محمود میاں نجمی اور ڈاکٹر حافظ محمّد ثانی نے دینِ اسلام کی ترویج و اشاعت کا بیڑہ اُٹھا رکھا ہے۔ اختر سعیدی کتاب سے ٹوٹا رشتہ بحال کرنے کی جستجو میں ہیں، تو رئوف ظفر کا قلم معاشرے کے نبض پر ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک اہم موضوع احاطۂ تحریر میں لاتے ہیں، اور اپنے منور راجپوت تو ہرفن مولا ہیں، جس موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں، اُسے امر کردیتے ہیں۔

ڈاکٹر قمر عباس بھی ہمیشہ معلومات کا ایک جہاں وا کرتے ہیں اور عرفان جاوید کے اندازِ نگارش کے بھی کیا کہنے، اُن کا تو ہر سلسلہ انتہائی منفرد و خاص ہوتا ہے۔ ثانیہ انور، رابعہ فاطمہ، ڈاکٹر عزیزہ انجم، سیدہ تحسین عابدی، عالیہ زاہد بھٹی، عشرت زاہد، ڈاکٹر سمیحہ قاضی، محمد کاشف، ہمایوں ظفر، نظیر فاطمہ، وحید زہیر، فرّخ شہزاد اور، اور بھی اَن گنت نام ہیں، کس کس کو سیلوٹ پیش کروں کہ ایک سنڈے میگزین کے توسّط سے ہم نے کیا کیا شاہ کار نہیں پڑھ ڈالے۔ اور اب تذکرہ اُس خاص شخصیت کا کہ جس کے ذکر کے بغیر یہ سارا قصّہ ادھورا رہے گا، (پلیز، پلیز آپ یہ حصّہ ایڈٹ مت کیجیے گا کہ آپ ہمیشہ میری بےلوث تعریف و توصیف پر قینچی چلادیتی ہیں۔)

بخدا! مَیں بنا کسی لاگ لپیٹ کے، حقیقت کے آئینے میں آپ کو تہہ دل سے خراجِ تحسین پیش کرنا چاہتی ہوں کہ میرے خیال میں جب تک ٹیم لیڈر اعلیٰ اوصاف کا مالک، بہترین صلاحیتوں کاحامل نہ ہو، ٹیم کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو، مکمل کارکردگی نہیں دکھا پاتی۔ یہ یقیناً آپ کی قیادت و سیادت ہی کا کمال ہے، جو آج سنڈے میگزین اس اوجِ کمال پرہے۔ اور بلاشبہ یہ سارے موتی ایک لڑی میں پرونے کا سہرا آپ ہی کے سر ہے۔ (ایمن علی منصور)

ج: اس قدر حوصلہ افزائی، ہمت افزائی پر ہماری طرف سے نم آنکھوں کے ساتھ تشکّر قبول کرو۔ تم جیسے قارئین میسّر ہوں تو لکھنے والوں کو بھلا اور کیا چاہیے۔

فراخ دل، کُھلے ہاتھ کے!! 

’’شفق، دھنک، ماہتاب، گھٹائیں، تارے، نغمے، بجلی، پھول…‘‘ عبارت کے ساتھ عالیہ راجپوت جلوہ افروز نظر آئیں۔ خُوب صُورت پیراہنوں میں اچھی لگیں، مگرسب سے بہتر تصویر نمبر 6 تھی۔ چہرے پر انتہائی سنجیدگی اِسی بات کی دلالت کر رہی تھی کہ باہر کا موسم کچھ اور اندر کا کچھ اور ہے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی کی ’’روشنی کے مینار‘‘ کے عنوان سے حضرت ابوذرغفاریؓ پر تحریر بے مثال تھی۔ 

’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں حافظ بلال بشیر ’’ماحولیاتی تبدیلی، سنگین عالم گیر مسئلہ‘‘ کے موضوع پر قلم طراز تھے، اِسی موضوع پر قبل ازیں ہم نے بھی ایک مفصّل و جامع تحریر بھجوائی تھی، جو مسترد کر دی گئی۔ ’’متفرق‘‘ میں ڈاکٹر ناظر محمود نے بتایا کہ ’’صحافت گڈے گڑیا کا کھیل نہیں، خُود کو وقف کر دینے کا حوصلہ ضروری ہے۔‘‘ ثانیہ انور ماہِ جون کے حوالے سے اہم معلوماتی نگارش لائیں۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا ڈونلڈ ٹرمپ کے ہفتۂ سفارت کاری پر روشنی ڈال رہے تھے۔ ’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ میں’’مارٹن کوارٹرز کا ماسٹر‘‘ کی دوسری اور آخری قسط کا بھی جواب نہ تھا۔

عرفان جاوید کے انتخاب کو داد نہ دینا زیادتی ہوگی۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں بلقیس متین کی تحریر کے ساتھ میری بھیجی گئی افغانی ڈش دولمہ کی ترکیب بھی شائع کی گئی، بہت نوازش۔ عالیہ زاہد بھٹی کی تحریر ’’کچھ ہلکا پُھلکا‘‘ میری نظرمیں نمبرون ٹہری، اختر سعیدی کا کتابوں پر تبصرہ اور دیگر نگارشات بھی خوب ہی تھیں۔ ڈاکٹر معین نواز نے ’’قاصد کے آتے آتے خط ایک اور لکھ رکھوں…‘‘ لکھ کے ماضی کے کیا کیا حسین دریچے وا کردیئے۔ 

پچھلے کئی ہفتوں سے قرات نقوی محفل سے غائب ہیں ، خیریت! اگلے جریدے کے ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں آپ نے ہمارے خط کے جواب میں لکھا کہ ’’ہم نے بھی کیا بھانت بھانت کےاندازِ نگارش نہیں دیکھ ڈالے۔ ایک طرف سر پٹخ پٹخ کے مرگئے کہ تحریر حاشیہ، سطر چھوڑ کے لکھیں، تو دوسری طرف آپ ہیں، دو لفظ لکھ کر اگلی سطر پر جست لگا دیتے ہیں اور اِس لمبی چھلانگ کی منطق بہت غور کے باوجود سمجھ نہیں آئی۔‘‘ 

بسم اللہ، ہم سمجھائے دیتے ہیں کہ ہرشخص کی کچھ مخصوص عادات ہوتی ہیں، تو اپنی یہ عادت یے کہ ایک بات یا جملہ مکمل کرنے کے بعد نئی بات نئی سطر ہی سے شروع کی جاتی ہے، اس کو آپ میرا اسٹائل بھی کہہ سکتی ہیں اور ایک نفسیاتی وجہ بھی کہ کچھ لوگ فطرتاً تنگ دل، کنجوس ہوتے ہیں تو کچھ فراخ دل، کھلے ہاتھوں کے، تو بس، ہم ذرا بڑے دل کے واقع ہوئے ہیں۔ 

عید الاضحیٰ ایڈیشن اس بارجمعۃ المبارک کو شائع ہوا، ہاکر چُھٹی پر جاچکا تھا، تو شمارہ 10جون کو پڑھنا نصیب ہوا۔ تہوار سے متعلقہ تمام تحریریں خُوب تھیں، دیر آید درست آید کے مثل شمارہ تاخیر سے ملا، لیکن پڑھ کر سیر حاصل معلومات اور مسرت پائی۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں ایک لکھاری نے شکایت کی کہ اُن کی بات کو ٹھیک طور پر سمجھا نہیں گیا، تو یہی شکایت ہمیں بھی ہے۔ اِسی لیے تفصیلی وضاحت پیش کررہا ہوں۔ (محمّد صفدر خان ساغر، نزد مکّی مسجد، راہوالی، گوجرانوالہ)

ج: اگر آپ کو لگتا ہے کہ ہماری زندگی کا واحد مقصد بس آپ لوگوں کی اوٹ پٹانگ رام کہانیاں پڑھنا ہی رہ گیا ہے، تو آپ اپنی تصحیح فرمالیں، ہمیں کسی فضول، بےمقصد بات کی چھے چھے صفحات کی وضاحت قطعاً درکار نہیں (اِسی لیےقلم زد کرکے ردّی کی ٹوکری کی نذر کردی گئی)۔

چند واضح جملوں میں جریدے کے مندرجات سے متعلق جو بھی اپنی رائے دینا چاہے، ضرور دے سکتا ہے، مگر کسی کی غلط عادات اور نفسیاتی مسائل کی تفصیل جاننے میں نہ تو ہمیں کوئی دل چسپی ہے اور نہ ہمارے پاس اِن کا کوئی حل۔

                     فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ پرعالمِ اسلام کی بہت بڑی شخصیت، حضرت جعفر بن طالبؓ کی زندگی پہ خُوب صُورت تحریر رقم کی گئی۔ بھارت سے جنگ کے پس منظر میں سیّدہ تحسین عابدی ’’امن ہمارا اصول، دفاع ہمارا فرض‘‘ کے عنوان سے شان دار تحریر لائیں۔ 

منور مرزا کا تجزیہ ’’پاک بھارت تنازعات، وارڈپلومیسی ناگریز‘‘ بھی انہی حالات وواقعات کا احاطہ کررہا تھا۔ اس ضمن میں رحمان فارس کے کیا بہترین اشعارہیں۔ ؎ بہت سے کام رہتے ہیں، تمہارے بھی، ہمارے بھی…کروڑوں لوگ بھوکے ہیں، تمہارے بھی، ہمارے بھی… بھلا اقبال وغالب کا کہاں بٹوارہ ممکن ہے…کہ یہ سانجھے اثاثے ہیں، تمہارے بھی، ہمارے بھی…اگر نفرت ضروری ہے تو سرحد پر اکٹھے کیوں…پرندے دانہ چُگتے ہیں، تمہارے بھی، ہمارے بھی۔ ثانیہ انور ’’روڈ سیفٹی ویک‘‘پرخصوصی تحریرلائیں۔ 

شمارے کی سب سے منفرد تحریر محمد اظہارالحق کا افسانہ ’’میری وفات‘‘ تھی۔ گو یہ تحریر پہلے بھی پڑھ چُکا تھا، مگر کچھ تحریریں لازوال ہوتی ہیں۔’’چمن کو میرے ذرا خوش لباس رہنے دو…‘‘ شدید گرم موسم میں ماڈل کی خوش لباسی کے ساتھ آپ کی تحریر نے بھی پیراہنوں کو دل کشی عطا کی۔ ’’ذیابطیس اور فریضۂ حج‘‘ ڈاکٹر شکیل احمد کی معلوماتی تحریرتھی۔ پاکستان کےمختلف شہروں، علاقوں کے تعارف کا سلسلہ بھی بہت عُمدہ ہے۔ 

جیسا کہ’’اوستہ محمد‘‘اور’’پنجند‘‘ سے آگاہی ہوئی۔ کیا مَیں ’’بورے والا‘‘ سے متعلق ایک نیا مضمون بھیج سکتا ہوں؟ بے شک؎ ماں جیسی ہستی، دنیا میں ہے کہاں؟ ماؤں کے نام پیغامات کا دوسراحصّہ بھی خوب رہا۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ کے جوابات اکثر چہرے پر مسکراہٹ لے آتے ہیں۔ عروبہ غزل (عین غین) کی ای میل، واقعتاً ’’ای میل آف دی ویک‘‘ کی حق دار تھی۔ مئی کا آخری شمارہ، صُبح صُبح اڈے سے جاکر خریدا۔ ’’آپریشن بنیان مرصوص‘‘ پرخصوصی تحریریں شاملِ اشاعت تھیں۔ 

منور مرزا نے ’’جنگ کے بعد امن کی تلاش‘‘ جیسے اہم موضوع پر مفصل لکھا۔ جتنی بھی جنگیں لڑلیں، آخری حل امن ہی ہے۔ ’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ یقیناً ایک منفرد سلسلہ ثابت ہوگا کہ افسانہ ’’مارٹن کوارٹر کا ماسٹر‘‘ بھی ایک لاجواب انتخاب ثابت ہوا۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ کی تحریر ہمیشہ کی طرح دل چسپ تھی۔

’’عورت اپنے شوہر سے کس چیز کی خواہاں ہوتی ہے؟‘‘ اِس سوال کے کوئی درجن بھر جوابات تھے، لیکن اگر ایک شوہر سے پوچھا جائے، تو وہ اپنی بیوی سے صرف ایک چیز کا خواہاں ہوتا ہے اور وہ ہے،’’خاموشی‘‘۔ ’’پیارا گھر‘‘ کی تحریر ’’ماؤں کا فراخ دامن، بَھرا خزانہ‘‘ بہت پسند آئی۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ پرکلثوم پارس کی ’’مہلت‘‘ کا جواب نہ تھا۔ یکم جون کا شمارے میں، عظیم صحابیٔ رسولﷺ، حضرت ابوذر غفاریؓ کےحالاتِ زندگی پڑھے۔ 

بےشک، اِن عظیم ہستیوں کی زندگیاں عام انسانوں کے لیے ’’روشنی کا مینار‘‘ ہی ہیں۔ ثانیہ انور ماہِ جون کے عالمی ایام پردل چسپ، معموماتی تحریر کے ساتھ موجود تھیں۔ عالمی یوم ِماحولیات پرحافظ بلال بشیر نے اچھی تحریر لکھی۔اخلاق احمدکےشاہ کارافسانےکےآخری حصّے نے اپنی گرفت میں لیے رکھا۔ عرفان جاوید کے شکرگزار ہیں کہ ہمیشہ منفرد آئیڈیاز پرکام کرتے ہیں۔ 

ڈاکٹر ناظر محمود کی تحریر ’’صحافت گڈے، گڑیا کا کھیل نہیں‘‘ بھی متاثر کُن تھی۔ نئی کتابوں پر تبصرہ اور آپ کا صفحہ ساتھ ساتھ تھے۔ ایک نظر ’’ہفتے کی چٹھی‘‘ پر پڑی، تو دوسری اپنی کتاب کے تبصرے پر۔ بے اختیاربرسوں پہلے پی ٹی وی سے سُنا گانا زبان پر آگیا۔ ’’جدھرجدھر نظر گئی، خوشبو سی بکھر گئی۔‘‘ (رانا محمّد شاہد، گلستان کالونی، بورے والا)

ج: شوہر، عورت سے صرف’’خاموشی‘‘کا خواہاں ہوتا ہے، تو جب ماں بہنیں ’’چاند چہرہ، ستارہ آنکھیں‘‘ تلاشنےکی مہم پہ نکلی ہوتی ہیں، اُنھیں کوئی گونگی، بہری ڈھونڈ لانےکا عندیہ دیا کرے ناں۔ہاں، ’’بورے والا‘‘ پہ کچھ لکھنا چاہتے ہیں، تو لکھ کے بھیج دیں۔

گوشہ برقی خطوط

* کیا سنڈے میگزین میں آپ کے صفحے پر کچھ خاص لوگوں ہی کی ای میلز شائع کی جاتی ہیں۔ پوچھنا یہ تھا کہ ای میل شائع کروانے کے لیے کیا اپنے شہرکی جگہ ’’ٹیکساس، امریکا‘‘ لکھنا پڑے گا یا یہ اعزاز ہم جیسے عام لوکل لوگوں کو بھی مل سکتا ہے؟ ( ثناء اللہ سید)

ج : اِس قوم کا المیہ ہی یہ ہے کہ خُود کوشش کرنے پر قطعاً یقین نہیں رکھتی۔ دوسروں پر تنقید جتنی مرضی کروا لو۔ جو ہر ہفتے پورا جریدہ پڑھ کے باقاعدگی سے ای میل کرے، اُس کا یہ حق بنتا ہے کہ اُس کی پذیرائی، حوصلہ افزائی کی جائے۔ آپ کو تواِس ای میل میں بھی جریدے کے مندرجات پر ایک جملہ لکھنے کی توفیق نہ ہوئی۔

* میرے خیال میں تو خواتین خُود ہی ’’سمجھوتے اور قربانی‘‘ کے نام پر سب ظلم وستم برداشت کرتی ہیں۔ ثانیہ انور مارچ کے عالمی ایام سے متعلق عُمدہ تحریر کے ساتھ آئیں۔ اگر ہر ماہ کے آغاز میں ایسی ہی ایک تحریر میگزین کی زینت بن جائے، تو کیا ہی بات بنے۔ ’’اسپیشل بزم‘‘ کی مہمان دوپٹا اوڑھے اپنی خُوب صُورت آنکھوں سے تکتی بہت ہی پیاری لگی۔ ذوالفقار چیمہ کی سوانح عُمری کو تو تواتر سے تعریفی ٹوکرے موصول ہورہے ہیں۔ ’’شانِ صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ بزبانِ اہل بیت‘‘سبحان اللہ کیا ہی شان دار تحریر تھی۔ چولستان کے قلعہ دراوڑ پہ مضمون اورتصویریں بہت پسند آئیں۔ 

آنکھ کھولی تو گھر میں روزنامہ جنگ تمام گھر والوں کے زیر مطالعہ دیکھا،آج50 سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی اِس اخبارسے دل نہیں بَھرا، بیوی بچّے بھی آپ کے جریدے کا بصد شوق مطالعہ کرتے ہیں۔ گو کہ حالات کے تحت صفحات کم ہوگئے ہیں، مگر اخباربینی کی عادت نہیں جاتی۔ اللّٰہ تعالیٰ اس اخبار اور اس کے میگزین کے تمام منتظمین کو اپنی رحمت کے سائے میں رکھے۔ (ڈاکٹر محمّد فاروق منیر، کلینیکل سائیکالوجسٹ، پی ایچ ڈی سائیکالوجی، پنڈی گھیب، ضلع اٹک)

ج: جزاک اللہ، بس، آپ ہی جیسے کرم فرماؤں کے سبب پرنٹ میڈیا کا دال دلیہ چل رہا ہے۔

قارئینِ کرام کے نام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk

سنڈے میگزین سے مزید