14 اگست 2025ء جس جوش اور جذبے کیساتھ منائی گئی اس سے یہ حوصلہ ملتا ہے کہ اب پاکستان کو سفارتی پیش قدمی اور خاص طور پر سارک ممالک میں آگے بڑھنا چاہیے یہ بھی بھارت کی جارحیت کا ایک دندان شکن جواب ہو سکتا ہے۔ ایک لکھنے والے کیلئے کتنےانبساط کا موقع ہوتا ہے جب اسکی تحریر کو سراہا جائے تجویز کی تائید ہو ہم نے آواز بلند کی کہ 14اگست ہم سب کی ہے۔ پاکستان ہم سب کا ہے۔ جو ناانصافیاں ہوتی رہیں۔ ظلم ڈھائے گئے۔ میرٹ کا قتل عام ہوتا رہا۔ اسکی ذمہ دار 14اگست ہے نہ پاکستان۔ یہ تو ہمارے مختلف ادوار کے منتخب اور غیر منتخب حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔
یہ سمجھنا چاہئے کہ ہمارے غاصب حکمران اکثریت پر جبر اسی لئے ڈھاتے ہیں کہ وہ اپنے آپ سے اپنے وطن سے بیزار ہو جائیں۔صبح آزادی کامل کیلئے جدوجہد ترک کر دیں۔ ہمارے دلوں میں ایک دوسرے سے نفرت بھی اسی لیے پیدا کی جاتی ہے۔ عام لوگوں کیساتھ ناانصافی ہر صوبے میں ہو رہی ہے۔ہر پارٹی کی حکومت میں ہوتی ہے۔ چند خاندان برسر اقتدار رہتے ہیں اور ان خاندانوں کے لوگوں نے پارٹیاں بانٹ لی ہیں۔ ایک بھائی بھتیجا چچا ایک پارٹی میں دوسرے کسی اور میں۔ اس طرح ساری سیاسی پارٹیاں انکی گرفت میں رہتی ہیں۔
مسئلہ اصل یہ ہے کہ ہم اپنے ہاں طبقاتی تضادات ختم نہیں کر سکے۔ بدترین جاگیرداری اور سرداری نظام ہمارے ہر صوبے میں موجودہیں۔ جاگیرداری اور سرداری نظام کی بندشیں روایات، طبقاتی تفاوت بدلتے زمانوں کیساتھ ہمارے سماج میں تبدیلیاں نہیں آنے دے رہے ہیں۔ تعلیم علاج اور زندگی کے دوسرے معاملات میں سہولتیں بھی اکثریت کو دستیاب نہیں ہیں۔ آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہووں دامادوں کیساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے اور بہت سی باتیں کرنیکا دن۔ ہماری تجویز یہ بھی ہوتی ہے کہ اتوار کو ہی نماز عصر کے بعد ہم سب اپنے اپنے محلے میں ہمسایوں کی مزاج پرسی کریں۔ کسی ایک گھر میں اکٹھے ہو جائیں یا مقامی مسجد میں بیٹھ جائیں بیماروں کی عیادت کریں۔ ایک دوسرے کے مسائل جو آپ خود حل کر سکتے ہیں انکو حل کر لیں۔ ایک اہم مسئلہ اور ہے جس پر بات ہونی چاہیے کہ جنوبی ایشیا کے تمام ممالک کا تعلق 14اگست 1947ءسے ہی ہے۔ پاکستان ،بھارت، نیپال، سری لنکا، بنگلہ دیش، بھوٹان، مالدیپ یہ سب برٹش انڈیا میں تھے انڈیا کو آزادی ملی تو یہ ممالک وجود میں آئے اور برصغیر کے مسلمانوں نے ایک الگ وطن پاکستان اپنے لئے حاصل کیا۔دنیا میں سب سے گنجان آبادی والے ملک بھی یہیں ہیں۔ سب سے زیادہ غربت بھی یہیں ہے۔ سب سے زیادہ تنازعات بھی اسی خطے میں ہیں۔ آپس میں دوستانہ تعلقات نہیں ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ جارحانہ رویہ سب سے بڑے ملک بھارت کا ہے۔ اسکے کشمیر پر غاصبانہ قبضے کی وجہ سے 78سال سے جنوبی ایشیا میں امن قائم نہیں ہو سکا ۔پاکستان اور انڈیا کے درمیان تین بڑی جنگیں لڑی گئیں۔ 78سال سے کشمیر کے عوام اپنے حق خودارادیت کیلئے مسلسل احتجاج کرتے آ رہے ہیں۔ اب موسم بہار میں پہلگام میں سیاحوں کی ہلاکتوں کو بہانہ بنا کر بھارت نے پھر چار روزہ جارحیت کی۔ جس میں اسے ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ نریندر مودی کی پالیسیوں کے سبب بھارت اس وقت پوری دنیا میں تنقید کا نشانہ ہے۔
بھارت دنیا میں سب سے بڑی جمہوریت کا دعویٰ کرتا رہا ہے یہ حقیقت ہے کہ وہاں حکمران ہمیشہ ووٹ کے ذریعے تبدیل ہوئے ہیں۔ بڑی جاگیرداریاں، رجواڑے بھارت کی کانگریس حکومت نے ابتدا میں ہی ختم کر دیئے تھے۔ جسکی بدولت وہاں جمہوریت کی بنیادیں مضبوط ہوئیں اور کانگریس کے قائد جواہر لال نہرو 17سال مسلسل حکومتی سربراہ رہے۔ اسلئے وہ اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدل سکے اور ملک کو استحکام دے سکے مگر اب نریندر مودی کی قیادت میں بھارت کا جمہوری تصور مسخ ہو رہا ہے۔ سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کے ساتھ بی جے پی کا بے رحمانہ سلوک پوری دنیا میں تنقید کا محور ہے ۔چھوٹی ذات کے ہندوؤں کو برابر کا شہری نہیں سمجھا جاتا اور بھارت کے انہی رویوں کے سبب سارک علاقائی تعاون کا واحد ادارہ ہے جو آج تک پیش قدمی نہیں کر سکا اور بھارت کے ان رویوں کی وجہ سے سارک انسانی وسائل کی ترقی میں بھی بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ اب میرے خیال میں وقت آگیا ہے کہ عام بحث کی جائے کہ پاکستان کی آئندہ انڈیا پالیسی کیا ہونی چاہیے۔دفاع کے ساتھ ساتھ تعلیم علاج معالجے معیشت کے شعبوں میں ہمیں بہت آگے بڑھنا ہے۔پارلیمنٹ میں بھی، یونیورسٹیوں میں بھی، تحقیق اور غور وفکر ہو۔دوسرے ممالک بھی پاکستان کی طرف ہی دیکھتے ہیں کیونکہ اس علاقے میں بھارت کی جارحانہ اور توسیع پسندانہ پالیسیوں کو صرف پاکستان ہی للکار سکتا ہے ۔ اس وقت پاکستان کو جو برتری نصیب ہوئی ہے تو یہی سازگار دور ہے۔ جب پاکستان سفارتی پیش قدمی کر کے ایک طرف دنیا میں اپنا وقار بحال کر سکتا ہے۔ اور دوسری طرف سارک ممالک سے اپنے تعلقات بہتر کر کے جنوبی ایشیا میں ایک نیا سیاسی منظر نامہ تخلیق کرسکتا ہے۔ بنگلہ دیش میں حسینہ واجد شیخ کی رسوائی کے بعد اچھا موقع ہے اگرچہ ہم اس میں تاخیر کر رہے ہیں کہ بنگلہ دیش سے اپنے معاملات بہتر بنائے جائیں ۔انکےہاں پاکستان دوست ماحول پیدا ہو رہا ہے۔ نیپال بھی بھارت کی ناانصافیوں کا شکار ہے۔ سری لنکا بھی مالدیپ بھوٹان اور اب افغانستان بھی سارک تنظیم کا رکن ہے اسلئے پاکستان کو ان سب ممالک کی ایک میٹنگ جلد از جلد منعقد کرنی چاہئے۔ بھارت یقیناً اس میں رکاوٹیں ڈالے گا لیکن اس وقت پاکستان کو امریکی صدر کی اشیرباد بھی حاصل ہے اسلئے یہ نادر موقع ہے کہ ہم یہ پہل کر دیکھیں۔ بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے دشمن کا مقابلہ بہتر طور پہ اسی طرح کیا جا سکتا ہے کہ دشمن کو اچھی طرح سمجھا جائے ۔اس وقت پاکستان میں بھارت سے متعلق جو اکثریت کے خیالات ہیں اس میں 14اگست 2025ء ایک فیصلہ کن تاریخ بن سکتی ہے قوم نے جس جذبے کے ساتھ جشن میں حصہ لیا ہے اسکا تقاضا ہے کہ ہم اکثریت کیساتھ ہونیوالے عمومی رویوں میں پالیسیوں میں تبدیلی پیدا کریں۔ چند خاندانوں کی سرپرستی کے بجائے پاکستان کے ہر خاندان کی سرپرستی کریں۔ بلوچستان پر خاص طور پر توجہ مرکوز کریں۔ وہاں کے مسائل اور شکوے شکایات دور کریں۔ بھارت وہاں کے مخصوص حالات کے سبب ہمیشہ در اندازی کرتا ہے ۔ بلوچستان کے نوجوانوں کے دل جیتیں۔ پورے سارک ممالک کو سرگرم کریں۔ افغانستان سے بھی اپنے تعلقات کو معمول پر لائیں۔ 14اگست 2025ء کو زیادہ سے زیادہ فیصلہ کن بنا کر ہی ہم 2047ء میں پاکستان سنچری کے موقع پر ایک خود کفیل خود مختار پاکستان حاصل کر سکتے ہیں اور ہر پاکستانی کو خوددار بنا سکتے ہیں۔