اگلے روز ہم پراگ میں تازہ دم ہو کے نکلے، ارادہ تھا کہ پراگ کا وہ مینار دیکھا جائے جو ایفل ٹاور کی طرح دکھائی دیتا ہے، لیکن وہ مینار دیکھ کر کم از کم مجھے تو خاصی مایوسی ہوئی، ایفل ٹاور اگر ’ساشے پیک‘ میں دستیاب ہوتا تو ایسا ہوتا۔احسان شاہد نے اطمینان سے جواب دیا ’’پھر کیا کریں، پراگ کے مئیر پر پرچہ کٹوا دیں؟‘‘ خیر، ہم ٹکٹ لیکر لفٹ کے ذریعے اوپر گئے، وہاں سے شہر کا نظارہ کیا، پورے شہر میں جہاں جہاں پرانی عمارتیں اور مکانات تھے وہ فن تعمیر کا اعلیٰ نمونہ دکھائی دے رہے تھے جبکہ نئی عمارتیں کنکریٹ کا ڈھیر۔ پراگ میں دیکھنے کی ایک چیز ’کمیونزم کا عجائب گھر‘ ہے، اِس میوزیم میں انہوں نے اُس جدوجہد کی وہ پوری تاریخ اکٹھی کر دی ہے جو چیکوسلواکیہ نے سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کے خلاف کی۔ میں نے میوزیم کی کتاب میں اپنے تاثرات لکھے کہ کاش ایسا کوئی میوزیم پاکستان میں بھی بنے جہاں سن 47ءکے بٹوارے کی تاریخ محفوظ کی جائے، وہ تاریخ جس کے نتیجے میں لاکھوں لوگوں کے گھر اُجڑے اور کروڑوں لوگ دربدر ہوئے۔ پراگ میں بھی پنجاب ہی یاد آیا۔
ہم نے فیصلہ کیا کہ کافکا کے شہر میں آئے ہیں تو اُس کا وہ مکان بھی دیکھنا چاہیے جہاں اُس نے اپنا ناول دی کاسل لکھا تھا۔ پتا چلا کہ وہ پراگ قلعے کے احاطے میں واقع ’گولڈن لین‘ میں ہے اور مکان کا نمبر 22ہ ے۔ہم نےگھر تلاش کرنا شروع کیا مگر جلد ہی احساس ہوا کہ یہ تو امرا کے گھر ہیں کافکا غریب یہاں کہاں رہتا ہو گا۔ دوبارہ تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ گولڈن لین قلعے کے اندر کہیں واقع ہے۔ ہم نے دفتر معلومات سے دریافت کیا تو انہوں نے نقشہ ہاتھ میں تھما دیا اور نشان لگا کر بتایا کہ قلعے کے اندر سے ہی راستہ جائے گا۔ نقشے کے مطابق کافکا کا گھر قلعے کے دربار نمبر پانچ کی پچھلی گلی میں تھا، بالآخر ہم وہاں پہنچ گئے، یہ ایک چھوٹی سی گلی تھی اور اسے دیکھ کر فوراً اندازہ ہو گیا کہ یہاں غریب غربا ہی رہتے ہوں گے۔ یہاں قطار اندر قطار چھوٹے چھوٹے مکانات بنے تھے اور یہ گلی ڈھلوان کی طرح بَل کھاتی ہوتی ہوئی قلعے کے بیرونی حصے تک جا رہی تھی۔
ایک مکان کے باہر نیلی تختی پر فرانز کافکا لکھا تھا، یہ مکان نمبر 22تھا، بیسویں صدی کے سب سے بڑے اور پُراسرار لکھاری کافکا کا گھر۔ اِس گھر کو انہوں نے چھوٹی سی دکان میں تبدیل کر دیا تھا جہاں کافکا کے نام پر دھڑادھڑ چیزیں فروخت کی جا رہی تھیں۔ کہتے ہیں کہ اِس تنگ اور گھٹن زدہ مکان میں بیٹھ کر کافکا نے دی کاسل جیسا لازوال ناول لکھا تھا۔ دکان کے باہر کافکا کی بڑی سی تصویر تھی جو اب اُسکی ہر کتاب پر ہوتی ہے، اداس اور خوابناک آنکھوں والی تصویر۔ میں نے کافکا کو سلام کیا اور اُسے بتایا کہ میں بھی اُسکے کروڑوں چاہنے والوں میں سے ایک ہوں، اُسکی تحریروں کا عاشق ہوں، Metamorphosis سے لیکر The Trial تک میں نے آپ کی تقریباً تمام کہانیاں پڑھی ہیں، میلینا کے نام خطوط نہیں پڑھے تھے، اِس سفر کے دوران وہ بھی دیکھ لیے۔ یہ سُن کر پہلی مرتبہ کافکا کی اُداس آنکھوں میں چمک نظر آئی، مگر صرف ایک لمحے کیلئے، اور پھر وہی گہری اداسی۔ میں نے ہمت کرکے وہ سوال پوچھ ہی لیا جس کیلئے میں اتنا طویل سفر کرکے یہاں پہنچا تھا۔ ’’آپ کی کہانیوں کے کردار اِس قدر بے بس، لاچار اور مجبور کیوں ہیں، وہ خوشی کا جشن کیوں نہیں مناتے، کیوں آپ In the Penal Colony جیسی خوفناک کہانیاں لکھتے ہیں، کیوں A Hunger Artist جیسے کردار تخلیق کرتے ہیں، اِس دنیا میں صرف جبر، تشدد اور ظلم تو نہیں ہے، انسان اتنا بھی مجبور نہیں جتنا آپ اسے مجبور بنا دیتے ہیں!‘‘ کافکا کی آنکھوں میں پھر زندگی لوٹ آئی۔ ’’میرے دوست، میں نے تو کچھ بھی تخلیق نہیں کیا، میری تحریرں کو تو آگ لگا دینی چاہیے تھی، افسوس کہ اُن سے اِتنا بھی نہ ہوا۔ فاقہ کَش فنکار کوئی اور نہیں میں خود ہوں۔‘‘ کافکا کی آنکھیں پھر خاموش ہو گئیں۔ میں نے گلا کھنکار کر صاف کیا۔ ’’لیکن آپ یہ بھی تو کہہ سکتے تھے کہ آپ نے اُس معصوم بچی کیلئے خطوط لکھے جو برلن کے ایک باغ میں بیٹھی آنسوؤں سے رو رہی تھی کیونکہ اُسکی گڑیا کہیں گُم ہو گئی تھی، آپ نے اسے دلاسہ دیا کہ اُسکی گڑیا ایک سفر پر نکلی ہے اور پھر آپ ہر روز اُس کیلئےایک خط لکھ کر لاتے تھے۔ آپ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ میں نے زندگی میں تین محبتیں کیں سو مجھ پر یہ الزام درست نہیں کہ میں انسانی جذبوں کا اظہار فقط دکھ اور کرب کے ذریعے ہی کرتا ہوں؟‘‘ پہلی مرتبہ کافکا کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی اور بہت جلد معدوم ہو گئی۔ ’’میرے دوست، تمہارا شکریہ کہ تم نے مجھ پر الزامات عائد کیے اور خود ہی اُن کا جواب بھی دے دیا، وگرنہ مجھے تو آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ میرے خلاف مقدمہ کیا ہے۔‘‘ کافکا خاموش ہو گیا۔ مجھے لگا جیسے وہ مزید بات نہیں کرنا چاہتا لیکن میرا ایک سوال ابھی باقی تھا۔ ’’آپ نے ’دی کاسل‘ مکمل کیوں نہیں کیا، اسے ادھورا کیوں چھوڑ دیا، کیا آپ کو وقت نہیں ملا یا آپ چاہتے تھے کہ آپ کے پڑھنے والے خود اُس ناول کو مکمل کریں ؟‘‘ کافکا نے کچھ کہنا چاہا مگر مجھے لگا جیسے اُسکے ہونٹ بھنچ گئے ہوں اور اُسکی قوت گویائی سلب کر لی گئی ہو، وہ بولنا چاہتا ہو مگر بے بس ہو، وہ اظہار کرنا چاہتا ہو مگر خوف کی وجہ سے کر نہ پا رہا ہو۔ میں نے کافکا کی اُس لازوال تصویر پر آخری نظر ڈالی اور قلعے کی اُس گلی سے نکل آیا، اُس قلعے سے جہاں تک کافکا کو کبھی رسائی نہ مل سکی تھی۔