وزیراعظم ہاؤس کے در و دیوار ہمیشہ سے ایک خاص وقار اور سنجیدگی کے امین رہے ہیں۔ لمبے کوریڈورز، قالینوں پر بچھا خاموشی کا دبیز پردہ اور دروازوں کے پیچھے جاری ملکی فیصلوں کی گونج۔ یہاں ہر چیز طاقت اور ذمہ داری کی کہانی سناتی ہے۔ مگر آج کا دن ان سب سے مختلف محسوس ہو رہا تھا۔ وہی عمارت، وہی ماحول، مگر کرسی اقتدار پر ایک ایسےفرد موجود تھے جنہیں میں نے ہمیشہ ایک لفظ سے پہچانا ہے’رفتار‘۔ جی ہاں، وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف۔میں وزیر اعظم ہاؤس کے مہمان خانہ میں بیٹھا تھا، جہاں ماحول میں ایک ہلچل سی تھی۔ وزراء اور ارکانِ اسمبلی اپنے منصوبوں کی فائلوں سمیت ایسے تیار بیٹھے تھے جیسے دوڑ کے آغاز کا انتظار ہو۔ سب جانتے تھے کہ شہباز شریف کے پاس وقت قیمتی ہے اور فیصلے فوری۔ وزراء اس کوشش میں تھے کہ اپنے منصوبے اس انداز میں پیش کریں کہ وہ وزیراعظم کی منظوری حاصل کر سکیں۔ ہر فرد وزیر اعظم کی جانب سے بلاوے کا منتظر تھا۔میرے قریب وفاقی وزیر برائے بحری امور، محمد جنید انوار چوہدری بیٹھے تھے۔ آج صبح ہی انکے دفتر میں ملاقات ہوئی تھی، جہاں انہوں نے بحری شعبے کی صورتحال اور مستقبل کے منصوبے پیش کیے۔ انکے پیش کردہ منصوبے اور تیزی سے ان پر عملدرآمد سے محسوس ہوا کہ وہ اپنی چار ماہ کی وزارت میں برسوں کا کام نمٹا چکے ہیں اور اگر انھیں وزیر اعظم کا اعتماد حاصل رہا تو عنقریب پاکستان کا بحری شعبہ ایک بار پھر عروج حاصل کریگا۔ منسٹر صاحب کی گرمجوشی دیکھ کر پاکستان کے بحری امور کا ماضی یاد آیا کہ کبھی پاکستان ستر سے اسی جہازوں کا مالک ہوا کرتا تھا، آج صرف نو یا دس جہاز رہ گئے ہیں۔ ایک زمانے کا سمندری جلال محض یادگار بن چکا ہے۔ مگر وفاقی وزیر محمد جنید انوار چوہدری کے لہجے میں امید اور عزم تھا۔ انکا کراچی اور گوادر سے آگے دبئی، ایران اور عراق تک فیری سروس کا منصوبہ محض ایک ٹرانسپورٹ آپشن نہیں بلکہ ایک معاشی رابطے کا نیا دروازہ ہے۔ وفاقی وزیر بتارہے تھے کہ سات سال سے فائلوں میں دبا لائسنس انھوں نے سترہ دنوں میں جاری کردیا،ان کا انداز بتا رہا تھا کہ یہ وزارت اب صرف نام کی نہیں، عمل کی وزارت بننے جا رہی ہے۔اسی دوران ایک لمحے کو خیال ماضی میں لے گیا —عمران خان کے دور میں اسی وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والی ایک ملاقات، جب اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا ایک سنہری موقع گنوا دیا گیا تھا۔ ذہن ابھی انہی سوچوں میں تھا کہ اچانک اسٹاف ممبر قریب آ کر بولا:وزیراعظم صاحب نے یاد کیا ہے۔میں اٹھ کھڑا ہوا، اور ساتھ ہی ایک اور اہم شخصیت بھی میرے ساتھ تھی—وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ۔
وزیراعظم کے کمرے میں داخل ہوتے ہی ایک خوشگوار حیرت ہوئی —شہباز شریف صاحب نے نہ صرف پرتپاک مصافحہ کیا بلکہ چہرے پر وہی مسکراہٹ تھی جو ایک طرف گرمجوشی اور دوسری طرف عزم کی علامت تھی۔ جیسے ہی ہم بیٹھے، گفتگو کا آغاز ان کے مجوزہ جاپان کے دورے سے ہوا۔ میں نے مبارکباد پیش کی کہ بیس سال بعد کوئی پاکستانی وزیراعظم جاپان کا دورہ کرنے جا رہا ہے۔ یہ محض ایک سفارتی دورہ نہیں بلکہ ایک نئے معاشی دور کا آغاز ہو سکتا ہے۔ جاپانی حکومت ایک بڑے پیکیج کی تیاری میں ہے، جس کا اعلان اسی دورے کے دوران متوقع ہے۔میں نے ذکر کیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کا مجوزہ جاپان دورہ بھی پاک–جاپان تعلقات میں تیزی کا مظہر ہے۔ دونوں لیڈرز کا بیک ٹو بیک دورہ اس بات کا ثبوت ہے کہ دو دہائیوں کے بعد یہ تعلقات ایک نئے عروج کی طرف بڑھ رہے ہیں۔بات آگے بڑھی اور بھارت کے ساتھ حالیہ جنگ کا ذکر آیا۔ میں نے وزیراعظم کو بتایا کہ اس جنگ میں پاکستان کی شاندار کامیابی نے نہ صرف ملکی وقار کو بلند کیا ہے بلکہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو بھی نیا حوصلہ دیا ہے۔ اب وہ فخر سے اپنا سر بلند کر کے چلتے ہیں کیونکہ دنیا انکی بات سن رہی ہے۔
اسی دوران میں نے اوورسیز پاکستانی ڈاکٹر نسیم شہزاد کا معاملہ بھی وزیراعظم کے سامنے رکھا۔ یہ وہی نسیم شہزاد ہیں جنہیں تمغۂ امتیاز اور ستارۂ امتیاز سے نوازا گیا، جو سنگاپور میں پاکستان کا فخر ہیں، مگر وطن میں انہیں جھوٹے مقدمات اور ناانصافی کا سامنا ہے۔ میں نے وزیراعظم کو تفصیل سے بریف کیا۔ شہباز شریف صاحب نے نہ صرف ہمدردی کا اظہار کیا بلکہ فوری طور پر ڈی جی ایف آئی اے کو ہدایت دی کہ معاملے کی شفاف تحقیقات ہوں اور انصاف کو یقینی بنایا جائے۔ اس لمحے میں نے محسوس کیا کہ اوورسیز پاکستانی وزیر اعظم کیلئے محض ایک سیاسی نعرہ نہیں بلکہ ایک حقیقی ترجیح ہیں۔ملاقات کے دوران شہباز شریف ایک ایسے لیڈر نظر آئے جو نہ صرف موجودہ حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کے امیج کو بہتر بنانے کیلئے عملی اقدامات پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کا لہجہ پُراعتماد، ان کی باتوں میں ٹھوس منصوبہ بندی اور ان کے ارادوں میں استحکام واضح تھا۔