بعض ناقدین کی اس بات سے اتفاق بہت مشکل ہے کہ نواز شریف نے اکتوبر 1999 کے بعد کے آلام و مصائب سے (جس میں طویل جلا وطنی بھی تھی) کچھ نہیں سیکھا۔ وطن سے دور، اُن کا بہت سا وقت soul researching میں گزرتا۔ وہ اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ پاکستان میں جمہوریت کے فروغ کے لئے سیاسی جماعتوں کو تصادم کی بجائے ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا رویہ اپنانا ہوگا۔ سول ملٹری ریلیشن شپ کے حوالے سے ان کی سوچ تھی کہ اس میں آئین کو رہنما بنانا اور ہر ایک کو اپنی اپنی حدود میں رہنا چاہئے۔ ریاست ِ پاکستان سے ’’ناراض عناصر‘‘ کے بارے میں ان کا نقطۂ نظر تھا کہ ان کی ناراضی کے اسباب پر سنجیدگی سے غور کرنا اور ان کی جائز شکایات کے ازالے کے لئے مکالمے کا راستہ اختیار کرنا چاہئے کہ وہ قومی دھارے میں واپس آجائیں۔
فروری 2008کے انتخابات سے شروع ہونے والے نئے جمہوری دورمیں اُنہوں نے یہی راہ اختیار کی۔ وفاق میں صحت مند پارلیمانی حزبِ اختلاف کا کردار ادا کیا۔ جہاںضرورت پڑی عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا۔ زرداری، گیلانی حکومت کی طرف سے عدلیہ کی بحالی کا مطالبہ تسلیم ہونے پر وہ گوجرانوالہ سے واپس لوٹ آئے۔
مئی 2013 کے انتخابات کے بعد اُنہوں نے خیبر پختونخوا میں تحریکِ انصاف کی حکومت بننے دی، (اگرچہ مولانا فضل الرحمٰن پی ٹی آئی کا راستہ روکنے کیلئے تیاری مکمل کر چکے تھے )اُنہوں نے بلوچستان میں پختون قوم پرست جماعت کو گورنر شپ اور بلوچ قوم پرستوں کو وزارتِ اعلیٰ بخش دی اگرچہ سنگل لارجیسٹ پارٹی کی حیثیت سے حکومت سازی کا پہلا حق مسلم لیگ(ن) کا تھا۔ نواب خیر بخش بلوچوں کے سب سے بڑے قبیلے کے سردار تھے۔ یحییٰ خاں کے دور میں ون یونٹ ٹوٹنے کے بعد بلوچستان کو پہلی بار صوبے کا درجہ ملا۔ تب بلوچ قوم پرست لیڈر نواب خیر بخش مری، سردار عطأ اللہ مینگل اور میر غوث بخش بزنجو، خان عبدالولی خاں کی نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) میں شامل تھے۔ اکبر بگٹی نیپ کے رکن تو نہ تھے، لیکن عملاً وہ انہی کے حلیف سمجھے جاتے۔ 1970 کے عام انتخابات میں بلوچستان میں قومی اسمبلی کی چار میں سے تین نشستیں نیپ نے جیت لیں( ان پر نواب مری ، عبدالحئی بلوچ اور میر بزنجو منتخب ہوئے تھے۔ عطأ اللہ مینگل بلوچستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے) قومی اسمبلی کی چوتھی نشست مفتی محمود (مرحوم ) کی جے یو آئی کے حصے میں آئی۔ دلچسپ بات یہ کہ بلوچستان میں بھٹو صاحب کی پیپلز پارٹی کی ایک بھی نشست نہیں تھی(قومی میں، نہ صوبائی اسمبلی میں) سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد، بھٹو صاحب کے نئے پاکستان میں پہلے چار ماہ مارشل لا جاری رہا۔ یحییٰ خاں کے جانشین کے طور پر جناب بھٹو (سول ) چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تھے۔ اپریل میں عبوری دستور کے نفاذ کے ساتھ بلوچستان اور صوبہ سرحد میں نیپ اور جے یو آئی کی مخلوط حکومتیں بنیں۔ بلوچستان میں جناب عطأ اللہ مینگل اور سرحد میں مفتی محمود وزیراعلیٰ بنے۔ بلوچستان کی گورنری کے حوالے سے شامی صاحب نے گزشتہ شام ایک دلچسپ بات بتائی، بلوچ سرداروں سے ملاقات میں بھٹو صاحب نے نواب مری کو گورنر بنانے کی بات کی تو نواب نے منہ دوسری طرف پھیر لیا کہ وہ مری قبیلے کے سردار کے طور پر خود کو لاڑ کانہ کے جاگیردار سے بڑا سمجھتے تھے، تب قرعۂ فال میر غوث بخش بزنجو کے نام نکل آیا۔ صرف 10ماہ بعد بھٹو صاحب نے مینگل حکومت برطرف کردی۔ سردار مینگل اہلِ پنجاب کو اپنا دکھڑا سنانے آئے اورلاہور میں وکلاء کے ا جتماع میں اور موچی دروازے کے جلسہ ٔ عام میں بھی ان کا اعلان تھا، خدانخواستہ بچا کھچا پاکستان بھی ٹوٹ گیا تو ہم بلوچستان کا نام پاکستان رکھ دیں گے۔ مینگل حکومت کی برطرفی پرمفتی محمود احتجاجاً صوبہ سرحد کی وزارتِ اعلیٰ سے مستعفی ہوگئے۔ مینگل حکومت کی برطرفی بلوچوں کے لئے ایک بڑا صدمہ تھی، فوجی آپریشن نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ اس کے باوجود ولی خاں سمیت متحدہ حزبِ اختلاف نے 1973 کے آئین کی تیاری اور اتفاقِ رائے سے اس کی منظوری میں بھرپور تعاون کیا۔ البتہ نواب خیر بخش مری، ان چند ارکان اسمبلی میں شامل تھے جنہوں نے 1973کے آئین پر دستخط نہیں کئے تھے، دیگر ارکان میں احمد رضا قصوری اور بہاولپور صوبہ محاذکے نظام الدین حیدر بھی شامل تھے۔
1974 میں نیشنل عوامی پارٹی کو خلافِ قانون قرار دے کر اس کی قیادت پر وفاق سے غداری کا مقدمہ قائم کر دیا گیا۔ گرفتار شدگان میں نواب مری بھی تھے۔ یہ بلوچوں کے زخموں پر نئی نمک پاشی تھی۔ حیدرآباد ٹربیونل کے دنوں میں ہی بلوچ قیادت کے ولی خاں سے اختلافات پیدا ہوچکے تھے۔ رہائی کے بعد ان کی راہیں جدا ہوگئیں۔ افغانستان پر سوویت قبضے کے بعد خیر بخش مری کابل میں جابسے ۔ احسان وائیں کو یاد ہے کہ ڈاکٹر نجیب کی دعوت پر بیگم نسیم ولی خاں کی زیرقیادت اے این پی کا وفد کابل گیا تو نواب مری نے اپنے ہاں ان کے لئے لنچ کا اہتمام بھی کیا تھا۔سوویت انخلاء کے بعد 1992 میں (نوازشریف کا پہلا دور) کابل پر افغان مجاہدین کے قبضے کے بعد نواب مری کے لئے خطرات بڑھ گئے تھے، تب حکومت ِ پاکستان نے C130 میں ان کی بحفاظت واپسی کا اہتمام کیا۔ نواب مری پہلے بھی کم گو تھے لیکن گزشتہ کچھ برسوں سے تو جیسے چپ کا روزہ رکھ لیا ہو۔ ان کے صاحبزادے بالاچ مری اور حربیار مری نے افغانستان کا رُخ کیا، بالاچ ایک حملے میں مارا گیا ، حربیار کابل میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف ہتھیار اُٹھانے والے ’’ناراض بلوچوں ‘‘کی قیادت کر رہا ہے۔ نواب مری کا بڑا بیٹا چنگیز خاں مری جسے قبائلی روایات کے مطابق قبیلے کا سردار بننا ہے، 1995 میں نواز شریف کی مسلم لیگ سے وابستہ ہوا اور مشرف دور کی مشکلات کے باوجود عہدِ وفا پر قائم رہا۔ 2013 کے الیکشن میں وہ کوہلو سے بلوچستان اسمبلی کا رکن منتخب ہوا۔ وہ ڈاکٹر مالک کی کابینہ میں بھی شامل ہے۔ پاکستان کے ساتھ اس کی کمٹمنٹ لازوال ہے۔ اس کا کہنا ہے، سنجیدہ مذاکرات کے ذریعے’’ناراض بلوچوں‘‘ میں سے 90% کو قومی دھارے میں واپس لایا جاسکتا ہے۔ نواب مری کے ملاقاتیوں کو گلہ ہوتا، نواب کو چپ سی کیوں لگ گئی ہے؟اور پھر خاموش رہنے والے نواب نے آنکھیں بھی بند کر لیں۔ ان کی علالت کے دوران نوازشریف، چنگیز خاں مری سے مسلسل رابطے میں رہے۔ وزیراعظم نے بیرونِ ملک علاج کی پیشکش بھی کی۔ یہ روایت بہت قدیم ہے کہ 1970 کے بعد جو شخص قومی /صوبائی اسمبلی کارکن رہا، اس کی وفات پر اسمبلی کا اجلاس دُعائے مغفرت اور مرحوم کیلئے کلماتِ تحسین کے ساتھ اُس روز ملتوی کردیا جاتا ہے۔ نواب مری کے لئے اس روایت پر عمل کیوں نہ ہوا؟یہ کوتاہی یقینا نادانستہ ہوگی، لیکن یہ ’’ناراض بلوچوں‘‘ سے اظہارِ خیر سگالی کا بہت اچھا موقع تھا، جو ضائع ہوگیا۔