کہانیاں صرف کتاب، ڈرامہ یا فلم کے لیے ہی اہم نہیں ہیں بلکہ اب یہ موجودہ دور میں ہیلتھ کیئر سسٹم کا بھی ایک اہم حصہ بنتی جا رہی ہیں۔
ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ ’نریٹیو میڈیسن‘ یعنی مریض کی کہانیاں سننے اور سنانے کی مشق، ڈاکٹرز کو کسی بیماری کے پیچھے جذبات، زندگی کے تجربات اور سیاق و سباق کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے اور مریض کی بہتر دیکھ بھال کا باعث بنتی ہے۔
’نریٹیو میڈیسن‘کیا ہے؟
’نریٹیو میڈیسن‘ کا آغاز تقریباً 20 سال قبل کولمبیا یونیورسٹی میں ہوا اور اس کے بعد اسے اسٹینفورڈ، یونیورسٹی آف شکاگو اور ہارورڈ جیسے اداروں تک توسیع مل گئی۔
یہاں تک کہ ہارورڈ یونیورسٹی ’نریٹیو میڈیسن‘میں 9 ماہ کا ماسٹرز پروگرام بھی پیش کرتی ہے جہاں طلباء فلم، پوڈکاسٹ، نان فکشن رائٹنگ اور گرافک ڈیزائن جیسے تخلیقی ذرائع سے صحت عامہ کی مہم چلاتے ہیں۔
اس نقطۂ نظر کا مقصد طبی مہارت اور مریض کے ذاتی سفر کے درمیان فرق کو ختم کر کے اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ علاج کے منصوبے نہ صرف طبی طور پر درست ہوں بلکہ جذباتی طور پر بھی معاون ہوں۔
اس حوالے سے امریکی سائنسدان پال جے زیک کا کہنا ہے کہ دلچسپ کہانیاں دماغ میں آکسیٹوسن کی سطح کو بڑھا سکتی ہیں جسے’محبت کا ہارمون‘ بھی کہا جاتا ہے۔
پال جے زیک نے یہ بھی کہا کہ یوں ہمدردی کو فروغ دینے سے’نریٹیو میڈیسن‘ مریضوں اور ڈاکٹرز کے درمیان خوشگوار تعلق قائم کرنے میں مدد کرتی ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ ہیلتھ کیئر سسٹم میں’نریٹیو میڈیسن‘ کو شامل کرنے سے صرف مریضوں اور ڈاکٹرز کے درمیان بات چیت میں ہی بہتری نہیں آتی ہے بلکہ مریض کا علاج مزید مؤثر انداز میں کیا جا سکتا ہے کیونکہ مریض کی منفرد کہانی کو سمجھ کر ڈاکٹر ایسی نگہداشت پیش کر سکتے ہیں جو جسمانی اور جذباتی دونوں ضروریات کو پورا کرے۔