عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی زیرِ صدارت ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس ( اے پی سی) میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے، پیکا ایکٹ جیسے قوانین ختم کیے جائیں، مولانا خانزیب کی شہادت پر جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے۔
ایمل ولی نے سیلابی صورتِ حال کے تناظر میں 23 تاریخ کا امن مارچ مؤخر کرنے کا بھی اعلان کر دیا۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی، انتہا پسندی اور بدامنی کی ہر شکل کی شدید مذمت کی جاتی ہے، ان مسائل کو ناقص حکومتی پالیسیوں کا نتیجہ قرار دیتے ہیں، ان مسائل کے خاتمے کے لیے جامع اقدامات کی ضرورت پر زور دیا جاتا ہے، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں جاری تمام آپریشنز فوری بند کیے جائیں، انسانی و مالی نقصانات کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کے لیے عدلیہ کی نگرانی میں ٹروتھ کمیشن بنایا جائے، نام نہاد ڈیتھ اسکواڈز اور غیر قانونی مسلح جتھوں کا فوری خاتمہ کیا جائے، عوام کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔
اے پی سی کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ 18ویں آئینی ترمیم پر اس کی اصل روح کے مطابق مکمل عمل کیا جائے، این ایف سی ایوارڈ پر آئین کے مطابق مکمل عمل درآمد یقینی بنایا جائے، معدنیات اور وسائل کے حوالے سے 18 ویں ترمیم کے مطابق صوبوں کے حقوق کو تسلیم کیا جائے، بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں اراضی کی غیر قانونی الاٹمنٹس اور انتقالات کو منسوخ کیا جائے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ قبائلی عوام کے تاریخی اراضی حقوق کو تسلیم کیا جائے، بلوچستان میں لیویز فورس کو پولیس میں ضم کرنے کی تجویز کی مخالفت کی جاتی ہے، لیویز فورس کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے، ضم اضلاع میں تمام اختیارات سول انتظامیہ کے حوالے کیے جائیں، ایکشن ان ایڈ آف سول پاور جیسے قوانین کو فوری طور پر ختم کیا جائے، تمام لاپتہ افراد کو فوری بازیاب کر کے عدالتوں میں پیش کیا جائے، تمام سیاسی قیدیوں کو فوری رہا کیا جائے، سیاسی سرگرمیوں کے لیے آزادانہ ماحول فراہم کیا جائے۔
اے پی سی کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ سردار اختر جان مینگل پر عائد سفری پابندیوں کو فوری ختم کیا جائے، تھری ایم پی او، فورتھ شیڈول اور اس نوعیت کے دیگر غیر منصفانہ قوانین کو فوری منسوخ کیا جائے، آزاد میڈیا اور صحافت پر پابندیوں کو ختم کیا جائے اور پیکا ایکٹ جیسے قوانین کو مسترد کیا جائے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو غیر ملکی جنگوں میں ملوث کرنے سے گریز کیا جائے، استعماری طاقتوں کے تنازعات میں غیر جانبداری اختیار کی جائے، پاکستان کے تاریخی تجارتی راستوں کو دوبارہ کھولا جائے، سرحدی تجارت کو صوبوں کے دائرہ اختیار میں لایا جائے، فوجی آپریشنز اور دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں کی فوری بحالی کی جائے، آئی ڈی پیز کی واپسی اور ان کے لیے معاوضہ، روزگار اور کاروباری مواقع فراہم کیے جائیں۔
اے پی سی کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ خیبر پختون خوا کے سیلاب متاثرہ اضلاع کو آفت زدہ قرار دے کر فوری امدادی پیکیج کا اعلان کیا جائے، وفاقی اور پنجاب حکومت کے زیرِ تحویل ریسکیو 1122 کی گاڑیاں خیبر پختون خوا حکومت کے حوالے کی جائیں، آل پارٹیز کانفرنس میں شریک تمام عمائدین نے خیبر پختون خوا میں قدرتی آفات اور بدترین سیلاب پر افسوس کا اظہار کیا گیا۔
اعلامیے کے مطابق قومی امن جرگہ سے مطالبہ کیا گیا کہ موجودہ حالات کے پیشِ نظر 23 اگست کا مارچ ملتوی کریں، قومی امن جرگہ نے اس مطالبے کو منظور کیا، اسلام آباد امن مارچ کی نئی تاریخ بعد میں دی جائے گی، ضلع کرم میں ڈیڑھ سال سے بند سڑکوں کو کھولا جائے، ضلع کرم میں حالات بہتر بنانے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں، افغان مہاجرین کی جبری واپسی کی مذمت کی جاتی ہے، اس عمل کو روکا جائے، پاکستان کی سلامتی، استحکام اور ترقی آئین کی بالا دستی سے ہی ممکن ہے، اس مقصد کے حصول کے لیے تمام سیاسی قوتیں اپنی مشترکہ جدوجہد جاری رکھیں گی۔
مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی نے آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان اور کے پی ہمارے ماتھے کا جھومر ہیں، ان کے بغیر پاکستان نامکمل ہے۔
پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل نیئر حسین بخاری نے کہا کہ مشرقی اور مغربی بارڈرز کی صورتِ حال سامنے ہے، یہ نارمل صورتِ حال نہیں، ہمیں سیکیورٹی اداروں کے ہاتھ مضبوط کرنے چاہئیں۔
قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیر پاؤ نے کہا کہ براہِ راست اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے بجائے حکومت سے ہونے چاہئیں۔
اے پی سی کے بعد ایمل ولی خان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ وفاق بلوچستان اور خیبر پختون خوا کے ساتھ اپنا رویہ تبدیل کرے، ہم مذاکرات پر یقین رکھنے والے لوگ ہیں لیکن ہمیں سننے والا کوئی نہیں۔