• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

منٹونے بہت لکھا،اکثر ایک خانہ خراب ضرورت کی وجہ سے لکھا، مگر تب تو اسکی نواسی عائشہ جلال پیدا بھی نہیں ہوئی تھی جب اس نے محمد علی جناح کا خاکہ ’’میرا صاحب‘‘ لکھا، منٹو عام طور پر اپنے خاکوں میں جن سے پیار کرتے تھے انکی بھی کوئی نہ کوئی کمزوری بیان کرنے سے نہ چوکتے تھے جیسے اپنے استاد باری علیگ کی بزدلی کے بارے میں، اپنے یار شیام کے بہت سی خواتین سے تعلقات کے حوالے سے ممبئی کی فلمی دنیا کے دادا اشوک کمارکی بات کرتے ہوئے مگریہ کیا کہ ’’میرا صاحب‘‘ میں پریس میں چھپنے والی کسی ناموافق بات کا ذکر نہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ منٹو نے آغا حشر کے تھیٹر میں اداکاری کے جوہر دکھانی والے اور پاکستانی فلموں میں دیو کا کردار ادا کرنیوالے آزاد کی زبانی یہ خاکہ لکھا ہے جو محمد علی جناح کے ڈرائیور رہے تھے۔ پھر ڈرائیور توآپ کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں، آپ کی کنجوسی یا حساب فہمی یا عقیدتمندوں سے توقعات کہ آپکو قیمتی گھڑیاں یا انگوٹھیاں پیش کریں جو بعد میں مصر یا ہسپانیہ کے بازار میں لٹ جائیں مگر بانی پاکستان کے اس جزوقتی ڈرائیور نے دو باتوں کا ذکر کیا ایک تو انکی صفائی پسندی جسے اتنا تنومند ڈرائیوراپنی طرف سے چمکا دیتا تھا اسکے بعد بھی وہ نفاست پسند انگلی شیشے پر رکھ کے یہ جتلا دیتے کہ شیشے صاف نہیں ہوئے۔ دوسرے انکی بہن اگر بازار سے سودا سلف منگاتیں تو وہ چاہتے کہ ایک ایک پائی کا حساب لکھ کے دیا جائے (زوار حسین زیدی نے جناح پیپرز کے پلندوں میں ایسے حسابی پرزوں کا بھی ذکر کیا ہے) پھر منٹو نے اپنے سیاہ حاشیے میں کسی کو نہیں بخشا۔ پاکستان بننے کے بعد دکانوں کے نام رکھنے کی بد مذاقی جیسے جناح بوٹ ہائوس مگر اسی میں ایک معصوم دکاندار کا ذکر ہے جو خود پسینے میں بھیگا ہوا ہے مگر اسٹول پر رکھے پنکھے کا رخ محمد علی جناح کی تصویر کی جانب کیا ہوا تھا۔ جیسے ہمارے خالد سعید کے ہم عمر ماموں صلاح الدین حیدر ہیں ویسے ہی حامد جلال، منٹو کے ہم عمر بھانجے تھے ۔منٹو کی وفات کے بعد حامد جلال نے چاہا کہ ممانی اور ا نکی تینوں بیٹیوں کیلئے منٹو کی کتابوں کے حقوق اشاعت محفوظ ہو جائیں انہوں نے چاہا کہ لاہور کے بڑے بڑے پبلشروں سے وہ حقوق خرید لئے جائیں جو انہوں نے نصف بوتل کے عوض ’’لکھوا‘‘ لئے تھے۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور سے منٹو پر پہلی پی ایچ ڈی کرنیوالے سابق سول جج علی ثنا بخاری کی کتاب میں یہ تفصیل ہے کہ سوائے مولوی نذیر احمد کے پوتے شاہد احمد دہلوی کے سبھی نے اس نصف بوتل کے کتنے پیسے لئے۔ عامر خاکوانی نے حامد جلال کی مورخ بیٹی ڈاکٹر عائشہ جلال کا تازہ ترین انٹر ویو اینی دیوار بے روزگاری پہ لگایا ہے وہ آپ پڑھ لیں،دیکھ لیں اور سن لیں۔ منٹو کی اس نواسی نے کیمبرج میں پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا تھا ’’وہ اکیلا ترجمان‘‘۔ ڈاکٹر عائشہ نے کہا کہ جنوبی ایشیا میں جناح سے بڑا امن، قانون اور سچائی کا علم بردار کوئی اور نہ پیدا ہوا۔ پاک بھارت جنگ میں ہم احساس فتح کیساتھ اپنا یوم آزادی منا رہے ہیں ،وہ مرکز کے مقابلے پر صوبوں کے اختیار کا قائل تھا،وہ پنجاب اور بنگال کی تقسیم کے بھی خلاف تھا اور تو اور جو کابینہ اس نے پاکستان میں بنائی اس میں ایک شودر جوگندر ناتھ منڈل وزیر قانون تھا اور ایک بڑا قانون دان احمدی وزیر خارجہ۔

٭٭٭٭

یوم آزادی پر بچوں میں جوش و خروش زیادہ ہے جھنڈیوں اور پرچموں کیساتھ نغموں کا اور اپنی تصویروں کا مگر کچھ باتیں ایسی بھی ہو جاتی ہیں جو ان دنوں میں نہ ہوتیں تو اچھا تھا جیسے سندھ جیسی دھرتی میں ایک انسان دوست ہندو ڈاکٹر کی ہلاکت کا جو صبح کی سیر کر رہے تھے بہت عرصے تک ہم محسن کاکوروی کے نعتیہ قصیدے میں ایک جزو ’’عبادت صبح‘‘ طالبعلموں کو پڑھاتے تھے کہ دیکھو صبح کے وقت جب گلاب اپنی پنکھڑیاں کھولتا ہے تو پھول کی ایک ایک پتی بلبل کے دل پر وحی بن کے اتر رہی ہوتی ہے۔

کیفیت وحی میں ہے بلبل۔ہے وقت نزول مصحف گل

اذان فجرکی اپنی ایک کیفیت ہوتی ہے جو آ پکوبہت سی دعائوں پر آمادہ کرتی ہے ایسے میں چوہتر برس کی ایک ڈاکٹر یاسمین راشد کی اسیری بہت زیادہ دکھی کرتی ہے جو کینسر سے لڑ رہی ہیں ا نکا پہلا حق تو ان کے موجودہ قائد نے مارا تھا تب انکو بشارت دی گئی تھی کہ ع سے شروع ہونیوالے نام کے ہیرے چن لو سو بجائے ڈاکٹر یاسمین راشد کے سرائیکی وسیب کے ایک کنکر عثمان بزدار کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا انہوں نے جو گل کھلائے خاص طور پر پنجاب کی جامعات میں بہتر ہے میں انکا ذکر نہ کروں بس یہی کہوں گا کہ دنیا بھر میں پرندوں کو رہا کرکے دعا مانگنے کا رواج ہے اور اس دعا کی قبولیت کا دل کو یقین ہوتا ہے۔

٭٭٭٭

سرائیکی زبان میں بہت اچھے ناول لکھے جارہے ہیں،ڈاکٹر دلشاد کلانچوی کی بیٹی مسرت کلانچوی، پھر ہمارا شاعر رفعت عباس، ادھر محمد حفیظ خان اور کئی دوسرے تاہم عبدالباسط بھٹی کے ’’وستی رانجھے خاں‘‘ اس وقت زیر بحث ہے وہ خاکے، کہانیاں اور ایک ناول پہلے بھی لکھ چکا ہے،وہ رسول حمزہ کی آپ بیتی کا ترجمہ بھی کر چکا ہے اس نے اپنی بستی رانجھے خان کا ذکر کیا ہے اور ساتھ ایک نئی کالونی ڈریم گارڈن کا بھی جس کے سارے پودے ’’باہر‘‘ سے آئے ہیں باسط بھٹی معصومیت سے پوچھتا ہے کہ یارو مجھے سمجھائو تو سہی کہ پرندے ان درختوں پر گھونسلا کیوں نہیں بناتے؟

تازہ ترین