میں بنیادی طور پر عقل پرست ہوں۔ ریاضی اور سائنس کے اصولوں کو مانتا ہوں، منطق پر چلنے کی کوشش کرتا ہوں، غیر منطقی اور غیر عقلی باتوں کو مسترد کرتا ہوں مگر اِسکے باوجود کبھی کبھی اِن سب فلسفوں کو تنہا بھی چھوڑ دیتا ہوں کیونکہ یہ دنیا بے حد پُراسرار ہے اور کسی ایک علم یا نظریے میں اتنی وسعت نہیں کہ آفاق کی اِس کارگہ شیشہ گری کو سمجھ سکے، اسی لئے میرا ماننا ہے کہ شُبھ شُبھ بولنا چاہئے، کیا پتا، کب، کچھ کہا ہوا سچ ثابت ہو جائے۔ فی الحال شانِ نزول اِس بات کی یہ ہے کہ میں مذاق میں کہا کرتا تھا کہ یہ دنیا اگلے ساٹھ ستّر برسوں میں تباہ ہو جائیگی، اِس پیشن گوئی کے پس منظرمیں موسمیاتی تبدیلیوں کی تباہ کاریاں تھیں، نہ جانے وہ کون سی منحوس گھڑی تھی جب میں نے یہ بات منہ سے نکالی جو اب درست ثابت ہو رہی ہے۔ سیلاب نے جس طرح اِس خطے میں تباہی مچا رکھی ہے اسے دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ خاکم بدہن دنیا کی تباہی کا آغاز جنوبی ایشیا سے ہوگا۔ پاکستان اور ہندوستان کے علاقوں کی جو ویڈیوز سوشل میڈیا پر پھیلی ہوئی ہیں وہ بے حد خوفناک ہیں، گاؤں، قصبے، شہر تباہ و برباد ہو رہے ہیں، فصلیں اُجڑ رہی ہیں، لوگ مر رہے ہیں، اُن کا مال اسباب، گھر بار پانی میں بہہ رہا ہے۔ مزید خوفناک بات یہ ہے کہ یہ پانی اب یہاں نہیں رکے گا، اور نہ ہی یہ اِس بات کا انتظار کریگا کہ پہلے ہمارے سرکاری ادارے اور محکمے موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوں پھر میں بہنا شروع کرونگا تاکہ نقصان کم سے کم ہو۔ ہمارے جیسے ملک میں ہر دوسرے تیسرے برس سیلاب بلکہ مہا سیلاب آتا ہے، یعنی ابھی ہم بحالی کے تخمینے ہی لگا رہے ہوتے ہیں کہ اگلا سیلاب آ جاتا ہے۔ ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ کیا اِس موسمیاتی تبدیلی کو واپس کیا جا سکتا ہے، اگر نہیں، تو پھر اِس سے کیسے نمٹا جائے، کیا ہمارے پاس اتنی صلاحیت بھی ہے کہ ہم اِس عذاب کا مقابلہ کر سکیں؟ اِن سوالوں کے جواب مجھے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ملے، اور جن صاحب نے یہ باتیں کیں اُن کا نام انجینئر ظفر اقبال وٹو ہے اور اِس موضوع پر وہ بے حد معلوماتی اور عملی تجاویز دیتے رہتے ہیں۔ اُنکی ایک تحریر ملاحظہ ہو:’’یہ جو ہم دیکھ رہے ہیں یہ مون سون نہیں ہے بلکہ موسمیاتی دھڑن تختہ ہے۔ کشمیر، بونیر، باجوڑ، سوات، شانگلہ، دیر، مانسہرہ اور قریبی علاقوں میں تباہ کن سیلاب سے 200 سے زیادہ جانوں کے ضیاع ، گھروں اور پلوں کی تباہی اور MI17 ہیلی کاپٹر حادثے میں شہید ہونیوالے ریسکیو ٹیم کے ممبران کیلئے دل بہت دکھی ہے ۔ تاہم یہ سانحات ایک تکلیف دہ یاد دہانی ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی اب ہمارے گھروں کے اندر داخل ہوچکی ہے۔ پاکستان میں یہ آفات اب کوئی ’غیر معمولی‘ نہیں واقعہ نہیں رہیں بلکہ معمول کا کام بن چُکا ہے اور ہم سے فیصلہ کن کارروائی کا مطالبہ کر رہا ہے۔ اگر ہم موسمیاتی تبدیلیوں سے بچنے کیلئے عملی اقدامات میں تاخیر کرتے رہے تو صرف اگلے پانچ سال کے اندر اندر ہماری اس بےعملی کی لاگت 250ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔ صرف اکیلے سیلاب سے 2050ء تک پاکستان کو60 ارب ڈالر کے نقصانات ہوسکتے ہیں۔ اس سال 2025ء کے کلائمیٹ رسک انڈیکس میں پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونیوالا ملک قرار دیا گیا ہے حالانکہ پاکستان کا حصہ موسمیاتی تبدیلی کا باعث بننے والی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں صرف 1% ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ایک انسانی المیہ ہماری آنکھوں کے سامنے رونما ہو رہا ہے۔ حکومتوں کو اب الفاظ سے آگے بڑھنا چاہیے کیونکہ یہ آفت اچانک نہیں آئی اسکا ہمیں کئی برسوں سے ادراک تھا لیکن اس سے نپٹنے کیلئے ہماری تیاریاں، پالیسیاں اور عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہ کام اب فوری ہونے چاہئیں۔
: 1- جنگلات کا بے دریغ کٹاؤ بند ہونا چاہئے۔ 2- دریاؤں، ندی نالوں اور سیلابی راستوں کی نشاندہی ہوکر ان میں انسانی آبادیوں پر پابندی ہونی چاہئے۔ 3- ماحولیاتی ماڈلنگ ، سیلاب کی پیش گوئی اور سیلاب کے انتباہ کے نظام ہونے چاہئیں جو ڈیجیٹل دور میں کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔ 4- آفت کے وقت آفت زدہ علاقوں میں ریسکیو اور ریسپانس کی ایپ ہونی چاہئے۔ 5- سیاحوں کی ممکنہ طور پر سیلابی علاقوں میں آمدورفت مانیٹر ہو۔ 6- پلوں، سڑکوں اور دیگر تعمیرات کے سٹینڈرڈ اور کوڈ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے لحاظ سے اپ گریڈ ہوں۔ 7- موسمیاتی آفتوں سے بچاؤ سے منسلک تمام محکموں کا آپس میں گہرا ربط بنانا چاہئے اور ان محکموں میں کام کرنیوالے فیصلہ سازوں اور کارکنان کی موسمیاتی تبدیلیوں کی جدید سائنس پر تربیت اور کیپیسٹی بلڈنگ کرنا چاہئے۔ 8۔ عالم اداروں سے موسمیاتی انصاف کے تقاضوں کے مطابق آفتوں سے نپٹنے کیلئے مدد اور ان سے بچنے کے منصوبوں کیلئے فنڈنگ لانی چاہئے۔ 9۔ عوامی سطح پرموسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے بچاؤ کیلئے شعور بیدار کرناچاہئے اور عوام الناس کی تربیت کرنی چاہئے۔‘‘انجینئر ظفر اقبال وٹو نے گویا دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے، اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اِس دریا کو بند ہی رکھیں اور کوزہ اُس وقت کھولیں جب ہمیں ضرورت ہو۔ لیکن نہ جانے کیوں مجھے لگتا ہے کہ اِن میں سے شاید ہی کسی بات پر عمل ہو کیونکہ نہ صرف عوامی بلکہ سرکاری سطح پر بھی اِس بات کا اِدراک نہیں ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے کیسے بھیانک نتائج نکل سکتے ہیں (بلکہ نکل رہے ہیں)۔ یہ کام Business as usual نہیں ہے، موسمیاتی عذاب سب کچھ نگل لے گا اور ہم فائلوں پر دستخط کرتے رہ جائینگے۔ اِس مسئلے سے نمٹنے کے تین مراحل ہیں، پہلا، منصوبہ بندی، دوسرا، تیاری اور تیسرا رد عمل۔ بد قسمتی سے ہم صرف فائر فائٹنگ کر رہے ہیں اور وہ بھی ٹھیک سے نہیں ہو رہی کیونکہ ہم نے اپنے دماغ میں وہ چِپ ہی نہیں لگائی جو یہ بتا سکے کہ یہ وہ مون سون نہیں جو ہر سال پاک و ہند میں آتا ہے بلکہ یہ موسمیاتی تبدیلی کا جن ہے جس کو قابو کرنا ممکن نہیں۔ اگر ہم اِس مسئلے کا وہ حل نہیں کرتے جو ظفر وٹو نے بتایا تو پھر سوائے اِسکے اور کوئی چارہ نہیں کہ ہم اِس دنیا میں معصوم جانیں پیدا کرنا بند کردیں کیونکہ یہ دنیا مستقبل میں پیدا ہونیوالے بچوں کے رہنے کے قابل نہیں رہے گی۔ اور یہ بات بر صغیر تک نہیں رکے گی، موسمیاتی تبدیلی کا عفریت بالآخرپوری دنیا کو تباہ کر دیگا اِلّا یہ کہ کوئی معجزہ ہو جائے اور معجزے اب نہیں ہوتے!