• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج سے تین لاکھ سال پہلے ہوموسیپین یعنی انسان نے اس کر ـــہ ء ارض پہ ہوش کی آنکھ کھولی ۔ ان تین لاکھ برسوں میں اس نے پناہ ترقی کی ۔وہ کائنات کی ابتدا پہ روشنی ڈال رہاہے، اختتام کے تھیسز پیش کر رہا ہے ۔ دنیا بھر میں اس وقت بائیس ہزار یونیورسٹیاںہیں ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ان تجربات سے آدمی انصاف پسند ہو جاتا ۔ خوں ریزی تھم جاتی ۔ہوا اس کے برعکس ۔ آج سے ایک لاکھ سال پہلے انسان افریقہ سے نکلا ۔وسائل پہ قبضے کیلئے اس نے دو ٹانگوں پہ چلنے والی سات مختلف قسم کی انسانی سپیشیز کو کاٹ کے رکھ دیا، جو فاسلز کے ریکارڈ میں موجود ہیں۔

چند روز قبل ساری دنیا کی نظریں الاسکا میں ٹرمپ پیوٹن ملاقات پر تھیں ۔ پورا یورپ دعا کے ہاتھ اٹھائے کھڑا تھا ۔ یورپ اور امریکہ اس منحوس گھڑی کو رو رہے ہیں ، فروری 2014ء میں انہوں نے جب یوکرین میں’’ انقلابِ عظمت‘‘ Revolution of dignityبرپا کرنے کا فیصلہ کیا تھا ۔سابق سویت ریاست میں روس نواز حکومت گرانے کا نتیجہ آج یورپ اور امریکہ دونوں بھگت رہے ہیں ۔ان گیارہ برسوں میں کیا کچھ نہیں ہوا۔یورپ نے روسی گیس خریدنا بند کر دی ۔ روس کو ایران اور شمالی کوریا کی طرح اچھوت بنانے میں امریکہ اور یورپ ناکام رہے ۔ دنیا کی سب سے بڑی جوہری ریاست اور ویٹو کی طاقت کو انہوں نے مذاق سمجھ لیا تھا ۔

روسی فوجی بھرپور جنگجو ہے ۔ افغانستان کی دلدل میں توخیر سویت یونین اور امریکہ سمیت کوئی کامیاب نہیں ہو سکا۔ امریکہ اس جنگ میں براہِ راست اتر کر اپنی طاقت ضائع نہیں کر سکتا ۔اسکا ریڈار چین پہ مرکوز ہے ، جو نہ صرف جنگی بلکہ معاشی طور پربھی امریکہ کو پچھاڑنے کیلئے آگے بڑھ رہا ہے ۔ گو چینی معیشت ابھی امریکی معیشت کی دو تہائی ہے لیکن پچیس ٹریلین ڈالر قرض کے ساتھ امریکی دنیا کی سب سے بڑی مقروض قوم ہیں ۔ ان سب آفتوں سے بڑی آفت مگر یہ ہےکہ ڈونلڈ ٹرمپ جیسا شخص امریکہ کا صدر بن بیٹھا ہے ۔ٹرمپ کا کہنا ہےکہ وہ امریکہ کو دوبارہ عظیم بنا دے گا؛حالانکہ دراصل وہ امریکہ کو تباہ کروانے کی پوری صلاحیت رکھتاہے ۔ 28فروری کو یوکرین کے صدر زیلنسکی سے ٹرمپ نے تلخی سے کہا : تم تیسری جنگِ عظیم (برپا کرنے )کا جوا کھیل رہے ہو ۔ اگر امریکی آلاتِ حرب تمہیں مہیا نہ ہوں ، تم دو ہفتے میں ہار جائو۔ لطیفہ یہ ہے کہ یوکرین کو بانس پہ چڑھا کر روس سے لڑوانے والے بھی امریکہ اور یورپ ہی تھے ۔

ٹرمپ نے اس موقعے سے فائدہ اٹھا کر یوکرینی معدنیات ہتھیانے کی سوچی ۔ غزہ کی پٹی کو ہضم کرنے کا خواب دیکھا ۔ پاکستان سمیت سارے سیاسی عدم استحکام سے دوچار ممالک کے معدنی ذخائر پہ اس کی نظر ہے ۔ غزہ میں انسانی تاریخ کے بدترین قتلِ عام کے باوجود ٹرمپ نوبل انعام کو خواہاںہے۔

یہ ہے انسانیت کا حال۔ دنیا بھر میں قتل و غارت اور بے انصافی ہی غالب ہے ۔اسرائیل نے ایران پہ حملہ کیا تو طاقتور ممالک اکھٹے ہو کر ایران کو کوستے رہے کہ وہ ایٹم بم بنا کر عالمی امن تباہ کرنا چاہتاہے ۔اسرائیل کب کا بنا چکا۔

یہ سب کتنا مضحکہ خیز ہے۔ یورپ اور امریکہ تیسری عالمی جنگ سے کھیل رہے تھے ۔ یوکرین کی جنگ دراصل ایک چھوٹی عالمی جنگ ہی تھی ، روس کا پلڑا جس میں غالب رہا۔ امریکہ اور یورپ دنیا کی سب سے بڑی جنگی اور جوہری قوم کے ساتھ حالتِ جنگ میں تھے ۔ پاکستان اور بھارت میں جب جنگ شروع ہوئی تو اول امریکی نائب صدر نے کہا : یہ ہمارا دردِ سر نہیں ۔ آج ٹرمپ جنگ رکوانے کا سہرا اپنے سر باندھتا پھر رہا ہے ۔

انسانیت کی تاریخ یہ ہے کہ بار بار اسکے بدترین لوگوں نے اسکے بہترین لوگوں کو قتل کیا ۔ جہاں جس ملک میں جسکے پاس طاقت ہے ، وہ بزورِ شمشیر تخت پر بیٹھ جاتا ہے ۔شیخ حسینہ کی مثال آپ کے سامنے ہے ۔ ہمیشہ طاقت کے زور پر حکومتیں ہتھیا ئی گئیں ۔ آئین کو پھاڑ کے پھینک دیا گیا ۔ چین کا وزن روس کے پلڑے میں تھا ۔ اس دنیا میں روس ، چین ، ایران اور شمالی کوریا جیسے ممالک اسی لیے خدا نے تخلیق کیے ہیں کہ دنیا یونی پولر نہ ہو ۔ لشکروں کو خدا ایک دوسرے سے لڑواکے ان کا زور ختم کر دیتاہے ۔

یہ ہے تین لاکھ سالہ تاریخ رکھنے والے ہوموسیپین کا کرہ ارض ۔کہیں انسان انسان کا خون بہا رہا ہے ۔کہیں مرد مرد سے شادی کر رہا ہے ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ سوائے مستثنیات کے ،انسانیت کے یہ تین لاکھ سال ندامت کی داستان ہیں ۔بہرحال ، آخری پیغمبرﷺ کی بعثت کو چودہ صدیاں گزر چکیں ۔ عیسائی ، یہودی ، بت پرست ، مسلمان اور ملحد فیصلہ کن جنگوں کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔ کرہ ء ارض بائیس ہزار جوہری ہتھیاروں سے اٹا پڑا ہے ۔ قیامت نہ بھی آئی تو انسان نے ایک دوسرے کو مار ڈالنا ہے۔ہائے افسوس،بندوں پر افسوس !

تازہ ترین