• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ کی طرف سے پاکستان پر عائد ٹیرف کو 29فیصد سے کم کرکے 19فیصد کرنے اور انڈیا پر عائد ٹیرف کو 25 فیصد سے بڑھا کر 50فیصد کرنے کے متوقع اقدام نے پاکستان کیلئے امریکہ کو برآمدات بڑھانے کا سنہری موقع فراہم کیا ہے۔ تاہم ایک طرف جہاں پاکستان کو انڈیا کے مقابلے میں کم ٹیرف کے نفاذ سے فائدہ ہونے کا امکان ہے وہیں بنگلہ دیش پر عائد 20فیصد ٹیرف کی وجہ سے پاکستان کو سخت مقابلہ بھی متوقع ہے۔ اسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے برآمد کنندگان پہلے سے بڑے امریکی فیشن برانڈز کیساتھ کام کر رہے ہیں اسلئےپاکستان کی طرح وہ بھی انڈیا کا زیادہ سے زیادہ شیئر حاصل کرنے کی کوشش کرینگے۔ بنگلہ دیش کو پاکستان پر یہ برتری بھی حاصل ہے اسکے گارمنٹس سیکٹر میں تقریبا 41لاکھ سے ورکرز کام کرتے ہیں جبکہ پاکستان کے ٹیکسٹائل سیکٹر کی مجموعی افرادی قوت 10لاکھ ورکرز ہے۔ علاوہ ازیں بنگلہ دیش کی گزشتہ مالی سال کی برآمدات 48ارب ڈالر سے زیادہ تھیں جبکہ پاکستان نے اس عرصے میں تقریباً 36ارب ڈالر کی برآمدات کیں ۔

امریکہ میں برآمدات بڑھانے کیلئے پاکستان کو تین محاذوں پر پیشقدمی کرنا ہوگی۔ موجودہ حالات میں پاکستان کی برآمدات قیمت کی دوڑ میں بنگلہ دیش سے جیتنے کی پوزیشن میں نہیں۔ تاہم بہتر معیار، پائیدار مینوفیکچرنگ، تکنیکی ٹیکسٹائل، فیشن ڈیزائن اور انڈسٹری میں جدید ٹیکنالوجی پر سرمایہ کاری کرکے پاکستان اپنی مسابقتی پوزیشن بہتر بنا سکتا ہے۔ بنگلہ دیش کی بھی کوشش ہے کہ پاکستان سے ٹیرف کے اس ایک فیصد فرق کو بھی ختم یا کم کروایا جائے جبکہ ہندوستان کی طاقتور لابی پہلے ہی اپنی برآمدات کو کم ہونے سے بچانے کیلئے گاہکوں کو قیمتوں میں دس فیصد کمی کی پیشکش کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر طریقوں سے ٹیرف کم کروانے کیلئے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ ایسے میں پاکستان کے پاس وقت بہت کم ہے اور اگر اب بھی پاکستان نے طویل مدت کیلئے اپنی مسابقت بڑھانے کے اس موقع سے فائدہ نہ اٹھایا تو ٹیکسٹائل انڈسٹری کی بحالی اور برآمدات کو سو ارب ڈالر تک بڑھانے کا ہدف حاصل کرنا ممکن نہ ہو گا۔ پاکستان کیلئے اس موقع سے فائدہ اٹھانا اسلئے بھی ضروری ہے کہ گزشتہ چند سال سے پاکستان کی برآمدات میں کوئی نمایاں اضافہ نہیں ہوا ہے۔ تاہم اب یہ موقع میسر ہے کہ اگر حکومت توجہ دے تو امریکہ میں پاکستان کا مارکیٹ شیئر بڑھایا جا سکتا ہے۔

امریکہ کو بھیجی جانے والی پاکستانی اشیا میں سب سے بڑا حصہ ٹیکسٹائل مصنوعات کا ہے یعنی نوے فیصد ۔ اس صورتحال سے فائدہ اٹھانےکیلئے انڈسٹری کو درکار سپورٹ مہیا کرنے کیلئے ریفنڈز کی 72گھنٹے کے مقررہ وقت میں ادائیگی، بجلی اور گیس کی مسابقتی قیمتوں پر دستیابی اور شرح سود کو کم کرکے سنگل ڈیجٹ میں لانے کیساتھ ساتھ ایکسپورٹ فسیلی ٹیشن اسکیم کو اصل شکل میں بحال کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ انڈسٹری کی پیداواری لاگت میں کمی لا کر اسے زیادہ سے زیادہ برآمدی آرڈرز حاصل کرنے کے قابل بنایا جا سکے۔ اس سے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں فوری اور دیرپا اضافہ ممکن ہے ۔ حکومت یہ بات سمجھے کہ ٹیکسٹائل، چمڑے سے بنی مصنوعات، کھیلوں کے سامان اور فوڈ آئٹم میں پاکستان کی مقامی انڈسٹری میں امریکی منڈیوں میں انڈین مارکیٹ کا شیئر حاصل کرنیکی صلاحیت اور استعداد موجود ہے۔ تاہم اس کیلئے حکومت کی سپورٹ اور پالیسیوں میں تسلسل انتہائی ضروری ہے کیونکہ اسکے بغیر پاکستانی برآمدات کو مستقل بنیادوں پر بڑھانا ممکن نہیں۔ اس حوالے سے طویل المدت پالیسی کی تشکیل اس وجہ سے بھی ضروری ہے کہ اگر انڈیا پر 25فیصد اضافی ٹیرف برقرار رہتا ہے تو ہوم ٹیکسٹائل میں پاکستان کو سب سے زیادہ فائدہ ہو گا۔ ان حالات میں اگر انڈیا کو ملنے والے 20سے 30فیصد برآمدی آرڈرز ہی پاکستان کو مل جائیں تو برآمدات میں ایک سے ڈیڑھ ارب ڈالر کا فوری اضافہ ممکن ہے۔ پاکستان کیلئے یہ صورتحال اس وجہ سے بھی زیادہ سازگار ہے کہ پاکستان اور انڈیا کی طرف سے امریکہ برآمد کی جانیوالی منصوعات تقریبا یکساں ہیں۔

علاوہ ازیں ویلیو ایڈڈ مصنوعات کی برآمدات بڑھانے کیلئے کپاس کی ملکی پیداوار میں کمی کے چیلنج سے نمٹنےکیلئے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو انسانی ساختہ ریشوں پر منتقل ہونے کی ضرورت ہے۔ اس وقت عالمی سطح پر فائبر کی کھپت مجموعی ضرورت کا 70فیصد سے زیادہ ہے جبکہ پاکستان میں ان کا استعمال 11فیصد تک محدود ہے۔ اس کے برعکس بنگلہ دیش کی گارمنٹس انڈسٹری تیزی سے مصنوعی دھاگوں پر منتقل ہو رہی ہے جو مستقبل میں پاکستان کیلئے ایک بڑا چیلنج بن سکتی ہے۔

حکومت کو امریکہ سے تجارتی توازن بہتر بنانےکیلئے درآمدات بڑھانے پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ دو طرفہ تعلقات کو مزید مضبوط اور پائیدار بنایا جا سکے۔ اس حوالے سے دونوں ملکوں کی جانب سے ایک دوسرے کی مصنوعات کو مارکیٹ تک رسائی بھی حال ہی میں طے پانے والے معاہدے کا حصہ ہے۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان اگر امریکہ کی مصنوعات کو اپنی منڈیوں تک رسائی دیتا ہے تو اس میں پاکستان کیلئے کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے کیونکہ فاصلہ زیادہ ہونے کے باوجود پاکستان کو دوسرے ملکوں سے کم لاگت پر اشیاء مل سکتی ہیں۔ علاوہ ازیں پاکستان میں ایسا سازگار ماحول پیدا کرنیکی ضرورت ہے کہ ٹیرف کی زد میں آنیوالے ممالک بالخصوص چین سے صنعتوں کو پاکستان منتقل کیا جا سکے۔

تازہ ترین