• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کی تاریخ میں صرف ایک ایسا واقعہ ہے جب اللّٰہ کی طرف سے شروع کیا گیا عذاب لوگوں کی توبہ تائب پر روک دیا گیا ہو۔ موصل کے شہر نینوا کے حکمران نے بنی اسرائیل کی سلطنت پر حملہ کیا اور بہت سوں کو قیدی بنا کر نینوا لے گیا۔ حضرت یونسؑ اللّٰہ کے نبی تھے۔ بنی اسرائیلیوں نے ان سے درخواست کی کہ ان کے قیدیوں کو رہا کروا دیں۔ آپؑ نے نینوا کے حکمران سے ملاقات میں اپنی خواہش کا اظہار فرمایا لیکن بدبخت نے تمسخر اڑاتے ہوئے کہا کہ" کیا تمہارے اللّٰہ کے پاس قدرت نہ تھی کہ انہیں میری قید میں ہی نہ آنے دیتا"۔ آپؑ نے اسے عذابِ الہیٰ سے ڈرایا لیکن اس سیاہ کار پر کوئی اثر نہ ہوا۔ مایوس ہوکر آپؑ نے دعا کی کہ" اے قادرِ مطلق تو ان پر عذابِ الہیٰ لا اور اگر عذاب نہ آیا تو میں جھوٹا ثابت ہو کر مار ڈالا جاؤں گا"۔ حضرت یونسؑ کی دعا قبول ہوئی لیکن جب عذاب آنا شروع ہوا تو نینوا کے بادشاہ اور باسیوں کو سمجھ آگئی اور انہوں نے رو رو کر، گڑا گڑا کر اجتماعی طور پر اللّٰہ کی بارگاہ میں اپنے قصور کی معافی مانگی، عاجزی و انکساری کا اظہار کیا،اپنے کئے پر نادم و پشیمان ہوئے اور حضرت یونسؑ پر ایمان لائے کہ وہ واقعی اللّٰہ کے پیغمبر ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول کی اور عذاب ختم ہو گیا۔" جب وہ ایمان لے آئے تو ہم نے دنیاوی زندگی میں رسوائی کا عذاب ان سے اٹھا لیا اور ان کو ایک مدت تک زندگی کا لطف اٹھانے دیا"۔(سورۃ یونس 10:98)۔ اللّٰہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر بستی چھوڑنے پر حضرت یونسؑ سے اللّٰہ ناراض ہو گیا جس کے باعث ان کو بہت سختیاں جھیلنا پڑیں حتیٰ کہ ان کو مچھلی نے زندہ نگل لیا۔اس کے پیٹ میں ہوش آنے پر آپؑ نے اللّٰہ کی ناراضی اور نتیجتاً عذاب الہیٰ کو سمجھ لیا۔ سجدے میں گر کر متواتر گریہ و زاری اور توبہ استغفار کرتے رہے حتیٰ کہ اللّٰہ رحمان و کریم نے توبہ قبول کی۔" اس نے اندھیروں میں پکارا کہ الہیٰ تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے بے شک میں ظالموں میں سے ہوں"۔( سورۃ الانبیاء21:87) ۔حضرت موسیؑ کی نبوت فرعون و قبطیوں پر عملاً ثابت ہونے کے باوجود وہ اطاعت پر راضی نہ ہوئے تو اللّٰہ کی جانب سے ایک ایک کر کے ان پر عذاب آنا شروع ہو گئے۔ ہر مرتبہ عذاب پر فرعون اور قبطی توبہ تائب کرتے اور موسیؑ سے کہتے کہ اپنے رب سے ہمیں معافی دلوا دیں اور یہ عذاب ہٹوا دیں۔ عذاب ہٹتے ہی وہ دوبارہ سرکشی پر آمادہ ہو جاتے اور اگلے عذاب سے دوچار کر دئے جاتےجو بلآخر فرعون اور اس کے لوگوں کے غرق ہونے پر منتج ہوا۔ حضرت لوطؑ اور حضرت نوح ؑکی قومیں بھی اللّٰہ کے عذاب کا شکار ہوئیں کیونکہ وہ اللّٰہ کے احکامات کی نافرمانی کرتے اور توبہ تائب نہیں کرتے تھے۔

مون سون کی بارشوں کا سلسلہ ختم ہونے ہی نہیں آ رہا، ایک کے بعد دوسرے، تیسرے اور مزید سلسلے چل رہے ہیں جو ستمبر کے پہلے ہفتے تک جاری رہیں گے۔ اس قدر بارشیں ہو رہی ہیں کہ 100 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ ملک کے بیشتر علاقے خطرناک طوفانی بارشوں کی زد میں ہیں خصوصاً کے پی کے کا حال تو ناقابلِ بیان ہے جسے آفت زدہ صوبہ قرار دے کر ایمرجنسی لگانی چاہیے۔ پی ٹی آئی کے لمبے دورِ حکومت میں اندھا دھند کرپشن کے منفی اثرات اب نمایاں ہو رہے ہیں۔" بلین ٹری سونامی" کی کہانی کا انجام ہے کہ صوبے میں آدھے سے زیادہ پہاڑ گنجے ہو چکے ہیں۔ اس حساب سے لکڑی چوری ہوئی ہے کہ پہاڑ بھر بھرا کر گر رہے ہیں، گلیشیرٔ پھٹ رہے ہیں اورخوفناک لینڈ سلائیڈز آرہی ہیں۔ دریاؤں اور نالوں میں بہتے کٹے درخت سیلاب میں بہتے انسانوں اور مویشیوں سے ٹکرا کر ان کے اعضاء پاش پاش کر دیتے ہیں۔ ادھر کراچی کا بھی برا حال ہے مسلسل بارش سے نکاسیٔ آب کا مخدوش نظام مفلوج ہو گیا ہے۔ عمارتوں، گھروں،آبادیوں اور کچی بستیوں کا تو کوئی حال ہی نہیں۔ قیمتی گاڑیاں پانی میں غرق ہو رہی ہیں جبکہ عمارتوں اور گھروں کی چھتوں پر چڑھے لوگوں کی بے بسی دیدنی ہے۔ متاثرین کے پاس پینے کا صاف پانی ہے نہ خوراک تک رسائی! گھروں میں پانی کے باعث بجلی بند، روشنی ہے نہ موبائل فون چارج کر سکتے ہیں۔کس سے مدد مانگیں؟ بارش رک بھی جائے، پانی اتر بھی جائے تو کیا لوگوں کی مشکلات ختم ہو جائیں گی؟ ڈینگی، پیچس، ہیضہ، ٹائیفائیڈ، پیٹ کے دیگر امراض سے ایک بہت بڑی تعداد متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔ ایسے میں متاثرہ لوگوں کی مدد کرنا،ان کو درپیش مسائل حل کرنا ان حکومتوں کی ترجیح نظر نہیں آتی۔ دونوں صوبائی حکومتیں کسی طور یہ ذمہ داری وفاق یا فوج کے سر منڈھ کر خود بری الزّمہ ہونا چاہتی ہیں۔بعینی پنجاب اور اسلام آباد کے حوالے سے بھی بلند و بانگ دعوے بھی ہواہوئے۔ ہر سال مون سون کی بارشیں آتی ہیں اس کے باوجود نکاسیٔ آب کا انتظام ہے اور نہ کچی بستیوں اور آبادیوں کی محفوظ مقامات پر منتقلی کا بندوبست۔2020 میں کراچی میں بارشوں سے ایسے ہی حالات پیدا ہو گئے تھے لیکن سندھ حکومت کے اس وقت کے رویے اور آج میں ذرہ برابر فرق نہیں جبکہ پنجاب کے شہروں میں بھی بد نظمی اور بد انتظامی سر چڑھ کر بول رہی تھی۔رہی بات کے پی کے کی تو جب پورے صوبے کے وسائل وفاق سے حزبِ مخالف کی جنگ پر لگا دیے جائیں تو یہی ہونا تھا۔

عوام کٹی پتنگ بنے ہیں ! کوئی وفاق کی طرف دیکھ رہا ہے تو کوئی صوبائی حکومت سے شاکی ہے۔ کسی کو رفاہی اداروں کی کاوشوں پر بھروسہ تو کسی کو فوج کی مدد کا یقین۔ کسی کو این جی اوز سے وفا کی امید ہے تو کوئی اپنی سیاسی پارٹی سے پُر امید لیکن کیا کسی نے اپنے رب سے سچے دل سے توبہ کی؟ اور اسے پکارا؟ اپنے ذاتی و اجتماعی گناہوں کو تسلیم کرتے ہوئے گڑگڑا کر معافی کا خواستگار ہوا؟ جہاں حاکمِ اعلیٰ کے حکم کے منافی قوانین ڈنکے کی چوٹ پر رائج ہوں، جہاں سود، وراثت، نکاح اور نہ جانے کتنے شرعی مسائل کے اسلامی قوانین کے برخلاف فیصلے ہوتے ہوں، جہاں مساجد منہدم اور شراب کے لائسنس جاری ہوں، جہاں اپنی پارٹی کا ہر حال میں دفاع کیا جائے چاہے وہ ملک سے غداری کرے، جہاں حق و باطل میں تمیز مٹ جائے، جہاں ایل جی بی ٹی کیو جیسے قوانین کا دفاع کیا جاتا ہو، جہاں انصاف خریدا جاتا ہو، جہاں گواہی چھپانے میں عافیت کا پرچار ہو، جہاں مظلوموں، فلسطینیوں اور کشمیریوں کے حقوق پر محض لفاظی ہو،جہاں غیر مسلموں پر بھروسہ اور مسلمانوں کے درد پر خاموشی اختیار کی جائے تو کیا ہم اپنے رب کے رحم وکرم کے حقدار ہیں ؟ آج ہمارے معاشرے میں وہ تمام تر برائیاں بدرجٔہ اُتم موجود ہیں جن کے باعث پچھلی قوموں پر اللہ کا عذاب نازل ہوا۔ اسلام کے نام پر لئے گئے وطن کو کیا ہم اسلامی ریاست کہہ سکتے ہیں؟ یہ بے چینی، بے راہ روی، لاقانونیت، نا انصافی جس کا ہم شکار ہیں کیا اس کے ہم خود ہی ذمہ دار نہیں؟ کیا یہ اللہ کے عذاب کی واضح نشانیاں نہیں؟ حق سچ کا ساتھ دینے کے بجائے میڈیا اور پروپگنڈے کی شکار قوم ان عذابوں کو کبھی گلوبل وارمنگ کبھی سونامی اور کبھی کرونا جیسے نام دیتے ہیں۔آج ہماری قوم بھٹک چکی ہے اگر بنی اسرائیل کی طرح دہائیوں تک بھٹکنا نہیں چاہتی تو توبہ کرنا ہوگی، خود کو بدلنا ہوگا، اللہ تعالیٰ سے رجوع کرنا ہوگا۔ بے شک وہ معاف کرنے والا رحمان و رحیم ہے!

؎یہ بُت کہ تراشیدۂ تہذیبِ نوی ہے

غارت گرِ کاشانۂ دینِ نبوی ہے

تازہ ترین