• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مدعوتو محمّد احمد جان کی جانب سے نیو یارک میں پاکستان ڈے پریڈ میں تھا لیکن بوجوہ اب فرانس، سوئٹزر لینڈ وغیرہ سے ہوتا ہوا امریکہ پہنچونگا اور امریکہ سے تو اب ہماری دوستی کو نئی تازگی دستیاب ہو رہی ہے لیکن یہ بات ہمیشہ پیش نظر رہنی چاہئے کہ مملکتیں اپنے مفادات کا تعين مکمل عدم تعصب ، محبت ،دشمنی کے جذبات سے بالا تر ہو کر ٹھنڈے ذہن سے کرتی ہیں ۔ ایس سی او کے اجلاس کی آمد آمد ہے اور چین نے امریکہ پر کڑی تنقید کا آغاز کردیا ہے اور تنقید کس معاملےپر ؟ چین نے امریکہ پر شدید تنقید کے نشتر چلائے ہیں کہ امریکہ نے انڈیا پر جو پچاس فیصد ٹیرف عائد کر دیا ہے وہ یکطرفہ ہے چین اس امریکی اقدام کو مسترد کرتا ہے ۔ اسکے ساتھ ساتھ یہ خبر بھی موجود ہے کہ چین نے انڈیا کو یقین دہانی کرائی ہے کہ چین انڈیا کی ریئر ارتھ منرل کی ضروریات کو پورا کرئیگا، خیال رہے کہ چین نے یہ تمام گفتگو اس وقت کی ہے کہ جب انڈیا پاکستان سے اپنے تصادم میں شکست کی وجہ چین کو قرار دینے کی کوشش کر رہا ہے حالانکہ پاکستان کا یہ واضح مؤقف ہے کہ پاکستان نے ان چھیانوے گھنٹوں میں جو کچھ کیا اپنے زور بازو پر کیا اور چین بھی انڈیا کے ان بے بنیاد دعووں کو مسترد کر چکا ہے ۔ یہ بات مکمل طور پر واضح رہنی چاہئے کہ میں ان تمام چین انڈیا تعلقات کے امور کو مثبت نقطہ نظر سے دیکھتا ہوں کیوں کہ پاکستان سمیت یہ کسی کے بھی مفاد میںہرگز نہیں ہوتا کہ وہ دشمنی کو ذاتی پرخاش کی مانند صرف پروان ہی چڑھاتا چلا جائے کیونکہ عين میدان جنگ میں بھی امن کے راستے تلاش کرتے رہنا چاہئیں۔ اس تمام کے ساتھ ساتھ یہ خبر تو مزید دلچسپی کی حامل ہے کہ انڈیا نے چین سے درخواست کی ہے کہ وہ پاکستان سے انڈیا کے تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے اپنا کردار ادا کرے ۔ پاکستان کیلئے یہ خوش کن امر ہوگا اگر چین تلخی کو مزیدکم کرنے کیلئے پاکستان اور انڈیا کے درمیان پل کا کردار ادا کرسکے کیونکہ چین سے پاکستان کے تعلقات کی نوعیت ایسی ہے کہ پاکستان چین پر مکمل طور پر بھروسہ کر سکتا ہے اور سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے جو یہ تصور کیا جا رہا ہے کہ مودی حکومت اپنی تیزی سے گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کیلئےصورتحال کو ایک محاذ جنگ میں تبدیل کردیگی اس سے بھی اس پورے خطے کو گلو خلاصی نصیب ہو سکتی ہے اور اکتوبر میں یا اسکے بعد پانی پر کسی تنازع ، تصادم سے بچا جا سکتا ہے ۔ قومیں ایسے ہی سیکھتی ہیں۔ دشمنی کو دوستی میں تبدیل کرنا ہی اصل کامیابی ہوتی ہے یا کم از کم دشمنی تصادم تک تو نہ جائے ، ابھی چندروز قبل چین پر جاپان کے دوسری جنگ عظیم سے قبل کے حملے اور چینی شہر نانچنگ میں قتل عام پر ایک سیمینار انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز اینڈ میڈیا ریسرچ کے زیر اہتمام ہوا جس میں چین کے قائم مقام قونصل جنرل مسٹر کے کاؤ نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی ، اس انسٹیٹیوٹ کے چیئر مین کی حیثیت سے اپنی گفتگو میں ، میں نے عرض کیا کہ نانچنگ کا قتل عام ایک عظیم سانحہ تھا مگر اسکے باوجود چینی قوم اپنے عزم کے ساتھ کھڑی رہی اورچینی قوم میں جنگ کے جذبات یا ہمسایوں کو زیر نگیں رکھنے کی خواہش نہیں پیدا ہوئی جبکہ وقت کے ساتھ ساتھ جاپان نے بھی یہ سیکھ لیا کہ تصادم ، جنگوں میں کچھ نہیں رکھا ، سوال یہ ہے کہ پاکستان اور انڈیا یہ بات کب سمجھیںگے؟ اب جب ایس سی اوکانفرنس بھی قریب آ گئی ہے اور پاکستان کے امور میں انڈیا چینی مددبھی چاہتا ہے تو اس لئے وزیر اعظم شہباز شریف کے اس دورے کے حوالے سے اس جہت پر بھی مکمل تیاری ہونی چاہئے ۔ انڈیا سے کسی متوقع گفتگو کے علاوہ چین سے بھی سی پیک اور دیگر امور پر گفتگو میں پاکستان کی تیاری ہر حوالے سے بہت جامع ہونی چاہئے ، سی پیک پر کام کی رفتار ایک بہت غور طلب معاملہ ہے ۔ عمران خان کی حکومت کے دوران اس پروجیکٹ کی رفتار کچھوے کی چال کی مانند ہو گئی تھی مگر اب جب پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کو کافی عرصہ ہو چکا ہے تو ابھی تک سی پیک کی رفتار میں تیزی نہیں آ سکی ۔ چینی اس حوالے سے بہت فکر مند دکھائی دیتے ہیں اور بیجنگ میں تو میں نے یہاں تک سنا تھا کہ چینی یہ سمجھتے ہیں کہ شہباز شریف تو اس کی رفتار میں بہت تیزی چاہتے ہیں مگر جو لوگ اس کو نیچے ڈیل کر رہے ہیں ان میں یہ صلاحیت موجود نہیں کہ وہ اتنے بڑے پراجیکٹ کو سنبھال سکیں اور اس وجہ سے اس منصوبے میں غیر معمولی تاخیر ہو رہی ہے اور اس تاخیر کی وجہ سے کہیں نہ کہیں شکوک و شبہات بھی جنم لے رہے ہیں کہ کہیںکسی کے دباؤ کی وجہ سے تو ایسا نہیں ہو رہا ہے اور پاکستان عالمی سیاست اور معاشی مفادات کو جدا جدا کر کے دیکھ رہا ہے حالانکہ پاکستان کی چین سے تعلقات کی نوعیت ایسی ہے کہ پاکستان کے حوالے سے کوئی شک پیدا نہیں ہونا چاہئے ۔بالکل اسی طرح پاکستان میں بھی یہ تصور پنپ رہا ہے کہ گوادر میں ایکسپورٹ پراسیسنگ زونز مکمل نہیں ہوئے ہیں بلکہ ان کا وقت ہی گزر گیا ہے ، چین افغانستان سے ہونے والی دہشت گردی کو پاکستان اور چین دونوں کیلئے مضر گردانتا ہے اور خبر ہے کہ اس نے کچھ ایسے گروہوں سے براہ راست بھی رابطہ کیا ہے جو پاکستان کیلئے درد سر بنے ہوئے ہیں تا کہ ان گروہوں کو نیوٹرل کیا جا سکے ۔ ان تمام امور پر ہر طرح کی تیاری ایس سی اوکانفرنس میں شرکت سے قبل مکمل ہونی چاہئے تا کہ اس دورے سے زیادہ سے زیادہ مفادات حاصل کئے جاسکیں ۔

تازہ ترین