امسال یوم آزادی پر برادر صد احترام خورشید ندیم نے اس بندہ کم مایہ کو براہ راست مخاطب کر کے کچھ نہایت قیمتی ارشادات عطا کئے ہیں۔ عزیز مکرم سے درویش کا باہمی احترام پر مبنی تعلق کم و بیش دو دہائیوں پر محیط ہے۔ اس طویل عرصے میں اختلاف رائے کبھی تلخی کے قریب نہیں پھٹکا۔ ان کا قلم کبھی ان کے علمی مقام، بلند پایہ اخلاق اور شفقت سے فروتر کسی لفظ سے آلودہ نہیں ہوا۔ فقیر پرتقصیر کی نیاز مندی میں کبھی کوتاہی نہیں ہوئی۔ محب مکرم نے استفسار فرمایا ہے کہ ناچیز اور اس کے ہم خیال قائد اعظم کی دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس منعقدہ 11 اگست 1947 ء میں تقریر بار بار کیوں دہراتے ہیں۔ میں اپنی معروضات میں محترم خورشید ندیم کے اس خیال سے استفادہ کرتا ہوںکہ قائداعظم کا تصو ر ریاست سیکولر تھا اور نہ سید ابوالاعلیٰ مودودی کے وضع کردہ خطوط سے مطابقت رکھتا تھا۔ گزارش ہے کہ تقسیم بنگال ، میثاق لکھنؤ، نہرو رپورٹ پر قائداعظم کے ردعمل ، 23مارچ 1940 ء کی قرارداد ، اپریل 1941 ء میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی قرارداد اور 3جون 1947 ء کو بابائے قوم کے آل انڈیا ریڈیو سے خطاب تک تمام دستاویزات دیکھ جائیے۔ مسلم لیگ اور قائداعظم کی تمام جدوجہد ہندوستانی مسلمانوں کیلئے آئینی تحفظات کی سیاسی جدوجہد تھی۔ قائداعظم تحریک خلافت، پین اسلام ازم اور پیشوائیت سے متفق نہیں تھے۔ قیام پاکستان کے بعد بھی قائداعظم نے درجنوں مواقع پر پاکستان میں جمہوریت اور اقلیتوں کے لیے مساوی حقوق کا اعلان کیا اور پیشوائیت کو مسترد کیا۔ اس کے حوالہ جات طالب علم سے زیادہ استاذی خورشید ندیم کے نوک زباں ہیں۔ پاکستان ایک قومی ریاست کے طور پر وجود میں آیا ۔ قومی ریاست کے تین بنیادی اصول ہیں۔ شہریوں کی حاکمیت اعلیٰ، متعین جغرافیائی حدود اور شہریت کی مساوات۔ قائداعظم کی مذکورہ تقریر اس تصور کا جامع ترین اظہار ہے۔7 اگست 1947 ء کو کراچی روانہ ہوتے ہوئے قائداعظم نے ہندوستان میں باقی رہنے والے مسلمانوں کو مملکت ہندوستان سے وفاداری کی تلقین کی تھی۔ واضح رہے کہ 1941 ء میں ہندوستان کے موجودہ رقبے پر چار کروڑ بیس لاکھ مسلمان آباد تھے۔ 1951ء میں بھارت کی پہلی مردم شماری کے مطابق ہندوستانی مسلمانوں کی تعداد ساڑھے تین کروڑ تھی۔ گویا مشرقی پنجاب ، دہلی اور بہار سے ہجرت ، شہادت یارضاکارانہ مراجعت کے نتیجے میں ہندوستانی مسلمانوں کی تعداد میں صرف ستر لاکھ کا فرق پایا گیا۔ یہ امر بھی طے ہے کہ تقسیم ہند کے منصوبے میں تبادلہ آبادی کا کوئی ذکر نہیں تھا اور مسلم لیگ ، پنجاب اور بنگال کی تقسیم نہیں چاہتی تھی۔ چنانچہ قائداعظم کے تصور پاکستان میں غیر مسلم پاکستانیوں کی بڑی تعداد شامل تھی۔ ہندوستانی علما کی اکثریت قائداعظم کی قیادت تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھی۔ مولاناشبیر احمد عثمانی کی سربراہی میں جمعیت علمائے ہند کا دھڑا مسلم لیگ کے ایما پر قائم ہوا اور اس کی گواہی مولانااحتشام الحق تھانوی دے چکے ہیں۔ راجہ صاحب محمود آباد اور چوہدری خلیق الزمان کے خیالات بھی کچھ راز نہیں۔ مغربی پاکستان میں 1945 ء سے قبل مسلم لیگ کا کوئی قابل ذکر رہنما موجود نہیں تھا۔ علامہ اقبال سمیت پنجاب کی سیاسی قیادت کے قائداعظم سے اختلافات سائمن کمیشن سے لے کر مسلم لیگ کے پٹنہ اجلاس منعقدہ اپریل 1938 ء تک تاریخ کا حصہ ہیں۔ قائداعظم نے بے شک متعدد بار اسلام کے بنیادی اصولوں کا ذکر کیا لیکن اس سے ان کی مراد انصاف ، امن اور مساوات تھی، مذہبی حکومت نہیں۔ قائداعظم نے کبھی کسی مذہبی پیشوا کی قیادت تسلیم نہیں کی ۔ پیر صاحب مانکی شریف کے نام قائداعظم کا مکتوب دستاویزی متن کا حصہ ہے۔ 1923ء میں پیدا ہونے والے امین الحسنات المعروف مانکی شریف 1945ء میں 22برس کی عمر میں مسلم لیگ میں شامل ہوئے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی قیام پاکستان کے بعد یہاں تشریف لائے۔ سلیمان ندوی شبیر احمد عثمانی کی وفات کے بعد 1950 ء میںپاکستان آئے۔ دستور پاکستان پر مولانا غلام رسول مہر کے ساتھ ان کے مکالمے کا ذکر پیر حسام راشدی نے کر رکھا ہے۔ سچ یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد پاکستان بالخصوص مغربی پاکستان میں مسلمانوں کی غیر متوقع اکثریت میں مجلس احرار سمیت علما کو یہ امکان نظر آیا کہ وہ مسلم عوام کے مذہبی جذبات پر سیاست کر کے ایک مذہبی ریاست کا مطالبہ کر سکتے ہیں جس میں قانون سازی ، اقتدار اور قومی تشخص کے تعین پر ان کی اجارہ داری ہو۔ قائداعظم کی مذکورہ تقریر کا ایک حصہ عموماً نظراندازکیا جاتا ہے جس میں انہوں نے قیام پاکستان کا مقصد بیان کیا تھا۔ ’اگر ہم پاکستان کی اِس عظیم مملکت کو پرامن اور خوش حال دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں دل جمعی اور خلوص نیت سے اپنی توجہ لوگوں بالخصوص عوام اور غریبوں کی بہتری کی طرف مبذول کرنا چاہیے… اگر آپ اِس عزم کے ساتھ کام کریں گے کہ آپ میں سے ہر فرد، اول و آخر یکساں حقوق، مراعات اور ذمہ داریوں کے ساتھ اِس ریاست کا شہری ہے، تو آپ کی ترقی کی کوئی حد نہیں ہو گی‘۔ میںبرادر محترم خورشید ندیم کی اس رائے سے متفق ہوں کہ ہمیں تاریخی مباحث سے اوپر اٹھ کر اس امر پر غور کرنا چاہیے کہ پاکستان کے لوگوں کا معیار زندگی کیسے بہتر ہو۔ انصاف ، رواداری اور معاشی ترقی کے مقاصد کیسے حاصل ہوں ۔ مشکل یہ ہے کہ پاکستان کو ایک مذہبی ریاست کی بجائے شہری مساوات کے اصول کی بنیاد پر قومی ریاست کا تشخص دیے بغیر یہ مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔ ہمیں قائداعظم کی تقریر دہرانے سے کوئی تسکین حاصل نہیں ہوتی۔ ہمارا موقف ہے کہ قائداعظم ایک جمہوری پاکستان چاہتے تھے ۔ جمہوریت اور سیکولرازم میں ایک نازک تعلق پایا جاتا ہے ۔ ایک سیکولر ریاست تو غیر جمہوری ہو سکتی ہے ۔ مثال کے طور پہ سوویت یونین سیکولر تھا لیکن جمہوری نہیں۔ اسکے برعکس سیکولر اصولوں کی بنیاد پر شہریوں کے درمیان مذہب کی بنیاد پر تفریق ختم کیے بغیر جمہوریت کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ دنیا بھر کی جمہوری حکومتیں دیکھ کر ہمیں بتائیے کہ وہ کون سا ملک ہے جہاں جمہوریت تو موجود ہے لیکن حکومت مذہب، رنگ، زبان یا نسل کی بنیاد پر شہریوں میں تفریق اور درجہ بندی کرتی ہو۔