• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جاہل عربی کے لفظ جہل سے نکلا ہے، اس کا مطلب نادانی، لاعلمی یا بے خبری ہے۔ جسے علم نہ ہو، جو حقیقت سے نا واقف ہو، جو سیکھ نہ سکے۔ علم کی کمی، دینی و دنیاوی علم سے محروم ہونا، سخت لہجہ اور رویہ اختیار کرنا، ضد ، ہٹ دھرمی، دلیل کے باوجود اپنی بات پر اڑے رہنا، بِنا تحقیق باتوں پہ یقین کرنا اور پھیلانا، خود کو عقلمند سمجھنا، دوسروں کے تجربات سے نہ سیکھنا۔ ایک شخص تعلیم یافتہ ہو کر بھی اگر سچ، اخلاق یا دلیل کو نہ مانے تو وہ بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔اُردو میں "جارح" اسے کہتے ہیں جو کسی پر بِلا جواز حملہ یا چڑھائی کرے، کمزور پر ظلم و زیادتی کرے۔جنگ میں پہل کرنے والا ملک جارح کہلاتا ہے جیسے ہندوستان ۔ لیکن کیا پاکستان پر آبی جارحیت کرنے پر ہم ہندوستان کو ہی موردِ الزام ٹھرائیں گے یا اپنے عادات و اطوار، معاملات و رویوں کے باعث ہم خود بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ کیا ہمارے نمائندوں کےرویے جمہوری اور فیصلے عوامی مفاد میں ہوتے ہیں ؟ کیا ہم پرانے تجربات اور نقصانات سے سیکھ کر متوقع قدرتی آفات کے سدِ باب کے لیے تیاری کرتے ہیں؟ دلیل، منطق یا سچ ماننے کی صلاحیت رکھتے ہیں یا ہم بت پرست ہیں کہ اپنے سیاسی قائدین کی غلطیوں، کوتاہیوں اور بشری کمزوریوں کو ماننے سے منکر ہیں۔ ہیرو ورشپ کی رو میں بہہ کر دین و دنیا، دوست رشتہ دار، اچھے برے کی تمیز کھو بیٹھے ہیں جبکہ پوری قوم سیاسی فرقہ واریت کا شکارہو کر بٹ چکی ہے۔ایک کا مؤقف دوسراکسی صورت تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔صوبوں کی حکومتیں عوامی فلاح و بہبود پر کم اور ایک دوسرےکو نیچا دکھانے پر زیادہ پُرعزم نظر آتی ہیں تا ہم ترقی صرف اشتہارات میں نظر آتی ہے۔قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے ان کے پاس کوئی منصوبہ بندی ہے نہ وژن اور نہ کوئی حکمتِ عملی۔ کئی کئی بار حکمرانی کے مزے لوٹنے والی ان سیاسی جماعتوں نے سب نظاموں وشعبوں کو ذاتی اور سیاسی مفادات کے بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ قائد اعظمؒ کے بعد ہمیں آج تک کوئی خیر خواہ قیادت نصیب نہیں ہوئی۔ 1947 سے لے کر آج تک پاکستان میں 29 بڑے سیلاب آئے، اس کے باوجود ہر آنے والی حکومت پچھلی پر الزام دھر دیتی ہے یا غیر معمولی بارشوں کا اعلان کر کے قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکتی ہے۔ قوم بادلِ نخواستہ اپنی سیاسی جماعتوں کی تاویلوں کے سامنے سر تسلیمِ خم کر دیتی ہے۔ کبھی ندیاں نالوں، دریاؤں کی زمینوں پر ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنا کر جیبیں بھری گئیں تو کبھی فنڈز خُورد بُرد کر کے نکاسی کے نظام مفلوج کر دیے گئے۔ اتنے سیلاب آئے ہماری حکومتوں نے کچھ نہیں سیکھا، اس سیلاب کے بعد بھی ہم کچھ نہیں سیکھیں گے! کیا دنیا میں دوسرے ممالک پر قدرتی آفات نہیں آتیں؟ کیا ان کے بھی نقصانات ہمارے جتنے ہی ہوتے ہیں؟ ان نقصانات کا سد ِباب کیسے ہو گا؟ حکومتی انتظام و انصرام، نظم و ضبط اسی لیے ہوتا کہ زیادہ بارشوں، زلزلوں، اندھیاں، بگولے، طوفان،سونامی، بجلی گرنے جیسی قدرتی آفات سے نمٹنے کی تیاری کی جائے۔کسی نے جنگلات کاٹ کر پہاڑ ایسے گنجے کر دیے کہ بارشوں میں پہاڑ ہی بہہ گئے تو کسی نے ڈزاسٹر مینجمنٹ کے فنڈز بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں جھونک دیے۔ کہیں جاں بَلب قوم کو ڈیم کے بجائے گلاس ٹرین مری تک چلانے کے خواب دکھائے جا تے ہیں۔ رنگیلا شاہ منصوبے لائے جا رہے ہیں لیکن ڈیم بنانے اور سیلابوں سے نمٹنے کی طرف کسی کی توجہ نہیں۔ حکومتوں کو راتوں رات سستی شہرت اور جیبیں بھرنے کی جلدی ہوتی ہے ڈیم بنانے میں تو کئی سال گزر جاتے ہیں۔ ڈزاسٹر مینجمنٹ محکمہ تو قدرتی آفات کی تباہی کاریاں سنبھالنے کے لئے بنایا گیا جوعملًا غیر فعال اور صرف سیلاب کی وارنگ دینے تک ہی محدود رہ گیا ہے۔ قدرتی آفات میں تو حکومت کی لاٹری نکل آتی ہے۔ڈونیشنز اور خیرات اکٹھی کرنے کے علاوہ سرکاری ٹھیکے داروں اور عہدیداران سب کی چاندی ہوتی ہے۔ ایمرجنسی میں کیے گئے اخراجات کا آڈٹ نہیں ہو سکتا جبکہ غیر ممالک سے اکٹھا کئے گئے بے بہا چندے بھی بغیر حساب کے خُرد بُرد ہو جاتے ہیں ۔ عوامی نمائندے بھی چندے کے سامان کو صرف اپنے ووٹروں میں بانٹ کر اپنی نشست پکی کرتے ہیں یا یہی سامان مارکیٹوں میں فروخت کر دیا جاتا ہے جبکہ بے چارے عوام ان کے منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔

ذرا سیلاب گزرنے دیں تو دیکھیں پانی کے اترتے ہی چیزوں کی قیمتیں کیسے آسمان کو چھوئیں گی۔ مرغی، مچھلی، گوشت، گندم، مکئی، تازہ سبزیاں، جانوروں کا چارہ اور روز مرہ کے استعمال کی اشیاء بے انتہا مہنگی ہو جائیں گی۔ جس میں زمینی حقائق اور زرعی حالات کے علاوہ منافع خوروں کی بددیانتی کا بھی عمل دخل ہوگا۔ فصلیں تباہ، اجناس و خوراک کے ذخیرے غرق، چارہ، ونڈا ضائع ہو جانے سے سپلائی اور ڈیمانڈ میں عدم توازن عوام کی جیبوں پر بجلی بن کر گرے گا۔ بعینی اگلے سال کی فصلوں کی کاشت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ فصل لگانے کے لیے کسان کو زمین کی تیاری کے لئے ہل چلانے، بیج ، کھادیں اورا سپرے کا انتظام کرنے کے لیے جو رقم درکار ہوگی وہ حالیہ فصلوں کے سیلاب میں بہہ جانے کے باعث اب کسان کے پاس نہ ہوگی۔ جبکہ پنجاب حکومت کی کسان کش پالیسیوں سے پہلے ہی کسانوں کی معاشی حالت دگرگوں تھی۔ در حقیقت پاکستان کے پیداواری طبقوں میں سب سے زیادہ کمزور، ناتواں اور لاغر کسان ہے! کسان کی پیداوار سے فلور ملیں، فیڈ ملیں، ٹیکسٹائل ملیں، شوگر ملیں وغیرہ اربوں کھربوں کماتیں ہیں جبکہ بیچارہ کسان ایک فصل سے اگلی فصل کے درمیان در بدر ہوتا رہتا ہے۔ دن رات محنت مشقت سے زمینیوں پر کاشت کی گئی فصلوں کے کوڑیوں کے دام لگنے پر کسان اپنی روزی روٹی سے محروم غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنےپر مجبور ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی نا اہلی کے باعث زرعی شعبہ غیر منافع بخش ہونے پر آخری ہچکیاں لے رہا ہے۔ سیاست دانوں اور سرکاری عہدیداران کو کسان کے مسائل سے کوئی شغف نہیں، انہیں تو موقع ملنا چاہیے کہ مہنگے داموں اناج اور اجناس درآمد کریں اور کمیشن بنائیں۔ پہلے جھوٹے تخمینے لگوا کر کاغذوں میں چینی برآمد کی جاتی ہے اور پھر جعلی قلت پیدا کر کے کاغذوں پر ہی مہنگے داموں درآمد کر لی جاتی ہے۔چینی مافیا ہو یا اناج مافیا، سب آپس میں ملے ہوئے ہیں، سب جیبیں بھر رہے ہیں جبکہ مظلوم قوم کو جعلی جمہوری نمائندوں نے جان بوجھ کر اندھیروں میں دھکیلا ہوا ہے۔کبھی آبی جارحیت کا نام ہےتو کبھی گلیشیئر پگھلنے کا الزام ہے ۔قدرتی آفات کی آڑ میں نقصان صرف عام عوام کا ہے۔ہمارا معاشرتی نظام بھی ہندوؤں کی مانند ذات پات میں بٹ چکا ہے جیسے خواص تو برہمن بنے قوم پر مسلط ہیں جبکہ باقی قوم نچلی ذات کی، جس کے مقدر میں ان برہمنوں نے ہمیشہ کے لئے مفلسی اور غربت لکھ دی ہے!افسوس! اب بھی قوم جہالت کے رویوں کی شکار بنی ،ان حالات سے کچھ نہ سیکھے گی!

؎یہ علم، یہ حِکمت، یہ تدبر، یہ حکومت

پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیمِ مساوات

تازہ ترین