ڈنمارک، سویڈن اور ناروے کے پانچ روزہ دورے کے بعد میں واپسی کا رختِ سفر باندھ چکا ہوں۔ کوپن ہیگن، اسٹاک ہوم اور اوسلو میں مختلف ممالک کے سفارت کاروں، وزرا، ارکانِ پارلیمنٹ، اہم قائمہ کمیٹیوں کے ارکان اور پاکستانیوں کے متعدد نمائندہ اجتماعات کی حکایات اور خوشگوار یادیں ایک گٹھڑی میں باندھ رکھی ہیں۔ آنے والے دنوں میں اُن کا تذکرہ ہوتا رہے گا۔ آج مجھے آپ کی ملاقات کوپن ہیگن میں مقیم ایک پاکستانی سے کرانی ہے جو نصف صدی سے اس شہر میں مقیم ہے اور ایک تاریخ بن چکا ہے۔
اس الف لیلیٰ کا آغاز کھاریاں تحصیل کے ایک چھوٹے سے گائوں دَھنّی سے ہوتا ہے۔ قیامِ پاکستان سے کچھ برس پہلے کی بات ہے کہ ایک زیریں متوسَّط گھرانے میں ایک بچے رحمت خان نے جنم لیا۔ دو برس بعد اُس کے والد دنیا سے چل بسے اور اُس کے لئے زندگی کی راہیں مشکل ہوگئیں۔ کسی نہ کسی طورپر اُس نے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ اُس دور کی عمومی مشق کے مطابق منشی عالم، منشی فاضل وغیرہ کے امتحان پاس کئے اور گائوں کے سرکاری اسکول میں مُدَرِّس کے طورپر خدمات سرانجام دینے لگا۔ اُس کے ہاں دو بیٹے پیدا ہوئے۔ ثاقب حسین اور محمد احسن۔ معلوم نہیں کب رحمت خان کی نظر کسی اشتہار پر پڑی اور اُس نے اپنے حالات کار میں بہتری لانے کے لئے ڈنمارک جانے کا فیصلہ کرلیا۔ جہاز کا سفر اُس کے بس میں نہ تھا وہ ریل گاڑیوں، بسوں اور ٹرکوں پر سواری کرتا، ایران، ترکی اور جانے کہاں کہاں کی خاک چھانتا ڈنمارک پہنچ گیا۔ اُسے ڈبل روٹی بنانے والی ایک چھوٹی سی فیکٹری میں نوکری مل گئی۔ محنت، مشقت اور اپنے خاندان کی زندگی بدلنے کا عزم اُس کا زادِراہ ٹھہرا۔ 1975میں اُس نے اپنے دونوں بیٹوں، چاربیٹیوں اور بیوی کو بھی ڈنمارک بلالیا۔ ثاقب پہلے سے اسکول میں تھا۔ محمد احسن کی عمر صرف چار سال تھی۔ کچھ ماہ بعد اُسے بھی کوپن ہیگن کے ایک سرکاری اسکول میں داخل کرادیاگیا۔
یہاں سے میری کہانی، تمثیل کے سارے کرداروں کو پردے کے پیچھے بھیجتے ہوئے صرف ایک مرکزی کردار محمد احسن پر مرکوز ہوجاتی ہے۔ میٹرک کرنے کے بعد اُس نے مقامی تعلیمی نظم کے مطابق پانچ سال کوپن ہیگن یونیورسٹی کے لا ڈیپارٹمنٹ میں تعلیم مکمل کرکے وکالت کی اعلیٰ سند حاصل کرلی۔ تقریباً پانچ سال وزارت انصاف میں خدمات سرانجام دیں۔ دو برس وزارت قانون کا مشیر رہا۔ دو سال وزیراعظم آفس میں قانونی امور کی نگہبانی کی۔ پانچ برس اٹارنی جنرل کے دفتر سے منسلک رہتے ہوئے خدمات سرانجام دیں۔ سات برس ہائی کورٹس میں وکالت کی۔ پھر ایک وقت آیا کہ محمد احسن کوپن ہیگن یونیورسٹی میں قانون کی تعلیم دینے لگا۔ یہ سلسلہ کئی برس جاری رہا۔ اس نے آئین، انسانی حقوق، فوجداری قوانین، اطلاعات کی آزادی اور ماحولیاتی امور پر گراں قدر مقالے لکھے۔
پھر فضیلت کا وہ باب کھلا جس کا خواب رحمت خان نے کبھی نہ دیکھا تھا اور جس کے بارے میں محمد احسن نے بھی کم کم ہی سوچا تھا۔ سخت چھان بین کے کڑے ضابطوں سے گزرتا ہوا وہ اپریل 2018میں ہائی کورٹ کا جج بن گیا۔ ڈنمارک کے قانون کے مطابق سپریم کورٹ کے جج کے انتخاب کے لئے اشتہار دیا جاتا ہے۔ جج بننے کے خواہش مند افراد کو، باقاعدہ درخواست دینا پڑتی ہے۔ چیف جسٹس اور دیگر جج صاحبان پر مشتمل بورڈ درخواستوں کا جائزہ لیتا اور اہل افراد کی فہرست مرتب کرتا ہے۔ منتخب افراد کو باضابطہ ٹیسٹ سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ ایک نہایت ہی کٹھن مرحلہ ہوتا ہے۔2022میں ایک جج کی اسامی کا اشتہار نکلا تو محمد احسن نے بھی درخواست دے دی۔ تب وہ ہائیکورٹ کا جج تھا۔ قانونی طریقہ کار کے تحت اُسے بھی عملی ٹیسٹ کے مرحلے سے گزرنا پڑا۔ وہ کامران ٹھہرا اور فروری 2023میں ڈنمارک کی اٹھارہ رُکنی سپریم کورٹ کا جج بن گیا۔
اب وہ مسٹر جسٹس محمد احسن ہے۔ ڈنمارک کی سپریم کورٹ کو قائم ہوئے 364 سال ہوگئے ہیں۔ 1661سے 2025تک کسی ایک بھی مسلمان کو سپریم کورٹ کا جج بننے کا اعزاز حاصل نہیں ہوا۔ اتفاق سے یہ اعزازِ بلند حاصل کرنے والا پہلا مسلمان جج پاکستانی ہے۔ کھاریاں کے گائوں دَھنّی کے اس رحمت خان کا بیٹا جو کوئی آٹھ دہائیاں پہلے ڈنمارک آیا اور کوپن ہیگن کی ایک بیکری میں برسوں ڈبل روٹی بناتا رہا۔
میں نے پہلے سے طے شدہ مصروفیات میں سے ایک کھڑکی نکالی اور کوپن ہیگن میں پاکستان کے انتہائی فعال سفیر، شعیب سرور سے کہا کہ مجھے مسٹر جسٹس محمد احسن سے ملنا ہے۔ انہوں نے اپنی سفارتی صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہوئے ملاقات کا وقت لے لیا۔ جسٹس صاحب نے کام کے بوجھ کی وجہ سے بتایا کہ ملاقات سپریم کورٹ میں ہوگی۔
مقررہ وقت پر، سفیر محترم مجھے لے کر، پارلیمنٹ اور وزیراعظم آفس کے پہلو میں واقع سپریم کورٹ لے گئے ۔ اُس کا بڑا سا سیاہ رنگ پھاٹک بند تھا۔ شعیب نے فون پر اطلاع کی۔ مجھے عجیب سا لگا کہ پھاٹک کے باہر کوئی گارڈ ہے نہ پولیس اہلکار۔ ہم پھاٹک تک جاتی آٹھ دس سیڑھیوں سے نیچے ہی کھڑے تھے کہ ایک شخص نے پھاٹک کھولا۔ وہ بھی وردی پوش نہیں تھا۔ مجھے لگا کوئی اہلکار ہوگا۔ شعیب نے مجھے بتایا __ ’’یہ خود جسٹس محمد احسن ہیں۔‘‘ میرے ذہن میں لمحہ بھر کو اسلام آباد کی بارگاہِ انصاف، اُس کے کّروفر، جلال وجمال اور اپنے منصفانِ کرام کے شکوۂِ کوہ شکن کا منظر، تفاخر کے کتنے ہی شوخ و شنگ رنگ لئے گھوم گیا۔ مجھے افسوس ہوا کہ یہ بھی کوئی سپریم کورٹ ہے؟ ایسے ہوتے ہیں سپریم کورٹ کے جج؟
اندر جا کر اندازہ ہوا کہ یہ عمارت، ہماری سپریم کورٹ کی عمارت سے کئی گنا بڑی اور خوبصورت ہے۔ جج صاحب ہمیں ساتھ لئے، بڑے کورٹ روم تک پہنچ گئے۔ ہمیں کرسیوں پر بٹھایا اور لیپ ٹاپ کھول کر بریفنگ دینے لگے۔ مجھے ان کے دفتر بلکہ پوری عمارت میں کوئی دوسرا شخص نظر نہیں آیا۔ جج صاحب نے بتایا کہ چھٹی ہوچکی ہے اور سب گھروں کو جاچکے۔ وہ بریفنگ دیتے رہے۔ میں پیہم کریدبھرے سوال کرتا رہا۔ معلوم ہوا کہ ججوں کے انتخاب میں ڈنمارک کے بادشاہ، پارلیمنٹ اور حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں۔ سارا کام سپریم کورٹ خود کرتی ہے۔ ایک عجائب خانہ تھا کہ کھلتا چلا گیا۔ میرے ایک سوال پر جسٹس صاحب بولے ’’ہمارے ہاں جج بولتے نہیں۔ سوال بھی شاذونادر ہی کرتے ہیں۔ صرف سنتے اور سنتے ہی چلے جاتے ہیں۔ میں نے سپریم کورٹ میں دو سالہ عرصے میں صرف دو بار سوال پوچھے تھے۔ ہمارے جج صرف کان رکھتے ہیں، زبان نہیں۔‘‘
ڈنمارک کی سب سے بڑی عدالت کے دبدبے اور جج صاحبان کے طنطنے کی کم مائیگی کے احساس سے میرا دِل بوجھل سا ہونے لگا۔ یہ کیسے جج ہیں جو صرف کان رکھتے ہیں؟ جن کے منہ میں زبان ہی نہیں؟ جسٹس احسن کہنے لگے ’’آئین واضح ہے۔ قانون واضح ہے۔ ہم مقدمے کی پوری فائل بڑی توجہ سے پڑھ کر آتے ہیں۔ پھر وکلاء کے دلائل سنتے ہیں۔ اُن دلائل کو آئین وقانون کی کسوٹی پر پرکھتے اور فیصلہ سنا دیتے ہیں۔ اس میں بولنے، وکلاء سے سوال کرنے، بحث وتکرار میں پڑنے اور وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ میں پوچھنا چاہتا تھا کہ ’’کیا آپ کسی کو سسلین مافیا یا گاڈ فادر نہیں کہتے؟ اپنے وزیراعظم کو دھمکی نہیں دیتے کہ تمہیں جیل بھیج دوں گا؟ کوئی دِل کو بھا جائے تو ’گڈ ٹو سی یو نہیں کہتے؟‘ لیکن پہلی ملاقات کے حجاب نے اجازت نہ دی۔ (جاری ہے)