حکام وزارت صنعت و پیداوار نے انکشاف کیا ہے کہ شوگر ایڈوائزری بورڈ کی سفارش پر چینی کی برآمد کا فیصلہ وفاقی کابینہ کیا تھا۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس اختیار بیگ کی صدارت میں ہوا، جس میں وزارت صنعت و پیداوار کے حکام نے بریفنگ دی۔
بریفنگ میں بتایا گیا کہ چینی کی برآمد کا فیصلہ وفاقی کابینہ نے کیا تھا، شوگر ایڈوائزری بورڈ نے چینی ایکسپورٹ کرنے کی سفارش کی تھی، ڈیٹا کی بنیاد پر چینی کی ایکسپورٹ کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
بریفنگ میں مزید بتایا گیا کہ ایف بی آر کے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کی بنیاد پر ایکسپورٹ کا فیصلہ ہوا تھا، شوگر ملز ایسوسی ایشن اور کین کمشنر کے ڈیٹا پر چینی کی برآمد کا فیصلہ ہوا تھا۔
اجلاس میں ایف بی آر حکام نے بھی بریفنگ دی اور بتایا کہ ہمارا ٹریک اینڈ ٹریڈ سسٹم سب سے زیادہ قابل اعتبار سمجھا جاتا ہے، 79 شوگر ملز کی پیداوار کا مکمل ڈیٹا موجود ہے۔
ایف بی آر حکام نے مزید کہا کہ ہمارے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم میں کوئی خرابی نہیں، آئندہ سال کی پیشگوئی کا فیصلہ کرنا سب سے مشکل ہے کیونکہ گزشتہ برس گنے کی پیداوار کم ہوئی۔
اجلاس میں یہ بھی بتایا گیا کہ گزشتہ مالی سال 7 لاکھ 50 ہزار ٹن چینی برآمد کی گئی تھی، ڈھائی لاکھ میٹرک ٹن چینی درآمد کی جا رہی ہے، یہ گھاٹے کا سودا نہیں۔
ایف بی آر حکام نے بتایا کہ امپورٹ پرائس 197 روپے پڑ رہی ہے، جس میں 18 فیصد سیلز ٹیکس شامل ہے، پرائس کا تعین غلط ہوتا ہے ہمیں شپنگ کاسٹ بھی شامل کرنی ہوتی ہے۔
وزارت فوڈ سیکیورٹی کے حکام نے اجلاس کے شرکاء کو بتایا کہ پچھلے 10 سال کا ڈیٹا ہمارے سامنے ہے، 10 میں سے 7 سال ہماری چینی کی قیمتیں زیادہ رہی ہیں۔
اس پر اختیار بیگ نے استفسار کیا کہ ہماری چینی کی قیمت کتنی فیصد زیادہ تھی؟
حکام نے جواب دیا کہ 2015-16 میں فی کلو 64 پیسے کا فرق تھا،2021ء سے 2024ء تک صرف ہماری چینی کی قیمت کم رہی ہے۔
کمیٹی اجلاس میں وفاقی سیکریٹری کو بریفنگ کیلئے طلب کرلیا گیا ، ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) مسابقتی کمیشن نے کہا کہ 10-2009 میں چینی کرائسز پر پہلی انکوائری کی تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ شوگر ملز کی سنوائی باقی تھی، معاملہ سندھ ہائی کورٹ میں رہا پھر سپریم کورٹ چلاگیا، 2019ء سے 2021ء کے اسکینڈل میں سی سی پی نے ایک اور انکوائری کی تھی۔
ڈی جی مسابقتی کمیشن نے یہ بھی بتایا کہ اس کیس میں انڈسٹری کو 44 ملین کا جرمانہ عائد کیا گیا تھا، دونوں انکوائریوں میں فائنڈنگ ہیں کہ قیمتوں میں ہیرا پھیری ہوئی۔
اُن کا کہنا تھا کہ 2005 ءکے چینی کے کرائسز کا ہم جائزہ لےرہے ہیں، پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کا پلیٹ فارم قیمتوں کی ہیرا پھیری کےلیے استعمال ہوا۔
مرزا اختیار نے سوال اٹھایا کہ اس معاملے پر کیا ایکشن لیا گیا تھا؟ کتنے جرمانے کیے گئے تھے؟
اس پر ڈی جی مسابقتی کمیشن نے جواب دیا کہ 2021ء میں 44 ارب روپے کے جرمانے عائد کیے گئے تھے، شوگر ایسوسی ایشن اور ملز دونوں پر جرمانے کیے گئے تھے، یہ آرڈر مختلف جگہوں پر چیلنج کیا گیا تھا۔