برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر‘ اقبال کایہ شکوہ اپنی جگہ افغانستان میں زلزلہ آیا ہے، دنیا بھر میں مسلمانوں کے دل بجھ سے گئے ہیں ۔ایک نماز جنازہ جس میں نمازی بہت ہونے کے باوجود میتوں سے بہت کم ہیں۔ غزہ میں 54 اسلامی ملکوں کے ہوتے ہوئے اسرائیل اس پٹی کو طاقت سے خالی کروانے میں مسلسل قتل عام کر رہا ہےاس پر انسانی حقوق کی چیمپئن دنیا خاموش ہے امریکہ اور مغربی ممالک میں عام شہری تو مظاہرے کر رہے ہیں مگر حکومتوں کی طرف سے کوئی ایسا اعلان نہیں ہو رہا، او آئی سی طاقتور مسلم بادشاہتیں دولت مند مسلم ریاستیں سب مجرمانہ خاموشی سے یہ قتل عام دیکھ رہے ہیں، اب تک 70ہزار سے زیادہ انسان موت کی اندھیری وادیوں میں دھکیل دیے گئے ہیں جن میں بچوں اور ماؤں کی تعداد زیادہ ہے ۔شیر خوار بچے بھی اس میں شامل ہیں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو فلسطینیوں کی نسل کشی پر کمر بستہ ہے ۔ اسے کوئی ندامت نہیں ہے کیونکہ اسے واشنگٹن کی پشت پناہی حاصل ہے ،مسلم سربراہان مملکت محبوب خدا حضرت محمد ﷺ کی غلامی کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن دم زمینی خداؤں کا بھرتے ہیں دنیا بھرنے اور خاص طور پر مسلم ملکوں نے دیکھا تھا کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا استقبال انہی دنوں میں مسلمان ملکوں میں کس خلوص سے کیا جا رہا تھا جب غزہ میں مسلمانوں کی ہلاکتیں جاری تھیں کسی مسلم بادشاہ یا امیر نے اس دورے کو منسوخ نہیں کیا تاریخ شاید یہ محسوس کر رہی ہے کہ مسلمان سربراہ بھی فلسطینی باغیوں سے اکتا چکے ہیں ،یہ زندہ ضمیر لوگ انہیں برداشت نہیں۔ہم آغا حشر کاشمیری کی آہ دہراتے ہوئے یہی عرض کر سکتے ہیں’’آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لیے... بادلو ہٹ جاؤ دے دو راہ جانے کے لیے... خوار ہیں بدکار ہیں ڈوبے ہوئے ذلت میں ہیں... کچھ بھی ہیں لیکن تیرے محبوب کی امت میں ہیں... حق پرستوں کی اگر کی تو نے دل جوئی نہیں... طعنہ دیں گے بت کہ مسلم کا خدا کوئی نہیں... رحم کر اپنے نہ آئین کرم کو بھول جا... ہم تجھے بھولے ہیں لیکن تو نہ ہم کو بھول جا ‘‘مسلم دنیا کی واحد ایٹمی طاقت پاکستان کے تین صوبے اس وقت دریاؤں کی برہمی کا سامنا کر رہے ہیں گلگت بلتستان خیبر پختون خوامیں تباہی پھیلانے کے بعد سیلابی ریلے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب پھر دوسرے بڑے صوبے سندھ پر یلغار کر رہے ہیں۔ وزیراعلی سندھ اسے بجا طور پر سپر فلڈ کہہ رہے ہیں حکومت پنجاب کی خاتون وزراء ا سے غیر معمولی صورتحال قرار دے رہی ہیں۔ یقیناً ایسا ہی ہے لیکن اپنے ہم وطنوں کی جان اور مال بچانا تو ریاست ہی کی ذمہ داری ہے اس کیلئے دنیا بھر سے بار بار خبرداری بھی دی جا رہی تھی۔ اب شہریوں کو ڈوبتے ،املاک کو زمیں بوس ہوتے دیکھ کر یہ تاثر عام ہے کہ اس کیلئے حکومتوں نے مطلوبہ تیاری نہیں کی ۔دریا اپنا راستہ خود بناتے ہیں وہ کسی پر الزام عائد کرتے ہیں نہ کسی کے ہاتھ ہلانے پر خوش ہوتے ہیں ۔میرا تو ان دریائی طغیانیوں سے بچپن سےواسطہ ہے ۔جھنگ شہر میں ہجرت کے بعد پناہ گزین ہوئے تو دوسرے سال ہی 1948میں دریا کے پانی کو اپنے گلی کوچوں سے گزرتے دیکھا اور 1951ے سیلاب میں تو اپنے گھر کے سامنے اونچائی پر بیٹھے اپنے گھر کو رفتہ رفتہ سیلابی ریلے کی نذر ہوتے مشاہدہ کیا۔راجپورہ سے روانہ ہوتے وقت یہ تو محسوس کیا تھا کہ آبائی گھر چھوڑنے بھی پڑتے ہیں۔ 1951میں یہ تجربہ بھی ہوا کہ گھر طغیانیوں میں بہہ بھی سکتے ہیں۔پھر بھی ہم نے دریا کو اپنا دشمن نہیں سمجھا ’’مجھےچناب نے پالا تو سندھ نے سینچا ...مرے مزاج سے دریا دلی کبھی نہ گئی‘‘۔پانی اترتا ہے تو زمینیں زیادہ زرخیز ہو جاتی ہیں ’’اب تک میدانوں کے جسم چمکتے ہیں ...جانے کیسی مٹی دریا چھوڑ گیا ‘‘۔ملکوں ملکوں جانا ہوا ۔اپنی انکھوں سے دیکھا دریا اور انسان کیسے مل جل کر زندگی گزارتے ہیں۔جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول میں دریائے سیول بہت محبت سے بہتا ہے اس پر شہر کے اندر 27پل ہیں جو شہر کے مختلف حصوں کو آپس میں جوڑے رکھتے ہیں۔ قاہرہ میں دریائے نیل کو مصری ماؤں بہنوں بھائیوں سے ہم آہنگ پایا ۔کینیڈا میں بھی دریاؤں اور انسانوں کے درمیان قربتیں محسوس کیں۔ امریکہ میں اوہائیو دریا کو شہر سے عشق کرتے دیکھا۔ اللّٰہ تعالی نے موجودہ پاکستان کو صدیوں سے کیسے کیسے دریا دے رکھے ہیں ۔جن کی سیرابی سے زمینیں سونا اگلتی ہیں۔ ہم نے یورینیم کو توافزودہ کر لیا لیکن دریاؤں کا مزاج جاننے کی کوشش نہیں کی حالانکہ ان دریاؤں نے ہمارے ہاں رومانی داستانوں کو بھی جنم دیا ہے ۔ میٹھاپانی تو قدرت کا سب سے بڑا انعام ہے۔سب سے بڑے صوبے کو پنج آب اسی لیے کہا جاتا ہے۔ دوسرا بڑا صوبہ سندھ تو دریا کے نام سے ہی موسوم ہے ۔ملک میں اتنی یونیورسٹیاں قائم ہو گئی ہیں تحقیقی ادارے مصروف عمل ہیں ۔پرنٹ اور برقی میڈیا ہاؤسز ہیں۔ قومی سیاسی جماعتیں ہیں جو قیادت کی دعویدار ہیں اور پارلیمانی جمہوریت کی مضبوط بنیاد۔ کسی نے بھی دریاؤں سے دوستی کا ہاتھ نہیں بڑھایا۔ ہم کو تو پیسے کی ہوس نے بہکا دیا ہے۔ منہ زور دریاؤں کے راستے روک رہے ہیں۔ سمندر کو پیچھے دھکیل رہے ہیں ۔کسی تحقیق کیلئے نہیں وہاں فلک بوس عمارتیں بنانےکیلئے کروڑوں اربوں روپے کمانے کیلئے ۔لوگ بھی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے ان مہنگی ہاؤسنگ اسکیموں میں اپنے نام کی تختی لگانےکیلئے دوڑ میں شامل ہو رہے ہیں ۔گندم چاول گنا جوار باجرہ سبزیاںآم پیدا کرتی زمینوں پر بھی فلیٹوں کی تعمیر جاری ہے۔ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹیز بھی این او سی جاری کر رہی ہیں ۔ہمارے بزرگ جنگلوں میں شہر بساتے تھے۔ ہم شہروں کو جنگل بلکہ دلدل بنا رہے ہیں ۔یہاں سے پیسہ کما کر باہر جا بستے ہیں۔ لندن واشنگٹن دبئی سعودیہ برسلز میں بنگلے بنانے والوں نے کیا دیکھا کہ یہ ملک موسمیاتی تبدیلیوں سے اپنی حفاظت کن طریقوں سے کر رہے ہیں ۔اب بھی وقت ہے ان دنوں تو طغیانی اور نگرانی کا براہ راست مقابلہ ہے۔ سرکاری محکمے اپنے کام میں مصروف ہیں۔ ہم یونیورسٹیوں اور سیاسی جماعتوں سے گزارش کریں گے کہ بہت سنجیدگی اور ذمہ داری سے دنیا بھر کی ریسرچ سامنے رکھتے ہوئے بلوچستان سندھ پنجاب کے پی کے گلگت بلتستان آزاد جموں و کشمیر میں انسانی جان کی، مال کی حفاظت اور ایک محفوظ پرسکون سرسبز ماحول کی تعمیر کیلئے طویل المیعاد بنیادوں پر منصوبہ بندی کریں۔ یہ آپ کی قانونی ذمہ داری بھی ہے اخلاقی فرض بھی اور سماجی فریضہ بھی ۔دریا سمندر اللّٰہ تعالی کی عطا کردہ عظیم نعمتیں ہیں ان سے پنجہ آزمائی نہ کریں۔