انسانی زندگی ہمیشہ سے متضاد خیالات اور رنگارنگ نظریات سے عبارت رہی ہے۔ زندگی گزارنے کیلئے لوگوں کے پاس متنوع چوائسز ہیں۔ کچھ لوگ’’ میں‘‘ کے قائل ہیں اور انہیں ایسا لگتا ہے کہ دنیا میں میرے سوا کچھ بھی نہیں۔ اس دنیا کا محورومرکز’’ میں‘‘ ہوں باقی نفوس واشیاء کو میرے گرد گھومنا چاہیے۔ وہ خود کو سب سے اہم سمجھتا ہے۔ اس رویے کے لوگوں کو اپنی شخصیت کو مرکزی سمجھنے کی وجہ سے ہر واقعہ، حادثہ یا عمل اپنے ہی متعلق لگتا ہے وہ اس واقعے کی اہمیت سے قطع نظر صرف یہ دیکھتے ہیں کہ انہیں اس سے فائدہ پہنچے گا یا نقصان۔
دراصل انسانوں کی سوچ انفرادی ، گروہی اور اجتماعی نقطہ ہائے نظر میں بٹی ہوئی ہے، انفرادی سوچ خود غرضی اور میں پر مبنی ہوتی ہے جبکہ گروہی سوچ ہم پر مرکوز ہوتی ہے اس سوچ کے شکار لوگ اپنے گروہ اپنی پارٹی یا اپنے خاندان کے فائدے اور نقصان کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں انہیں اس سے غرض نہیں ہوتی کہ انکے خاندان کے فائدے سے ہزاروںلوگوں کا نقصان ہوگا، انہیں اس بات کی فکر بھی نہیںکہ انکی پارٹی کا نظریہ ملک کے استحکام کو فائدہ پہنچا رہا ہے یا نقصان؟ خاندانی دشمنیاں سیاسی نفرتیں اور گروہی نقصانات اسی سوچ کی وجہ سے جنم لیتے ہیں۔
تیسرا نظریہ کم مقبول ہے جبکہ اوپر ذکر کیے گئے دونوں نظریات فائدے اور منافع کے ہیں جبکہ تیسرا نظریہ گھاٹے اور نقصان کا ہے مگر تاریخ کے بڑے لوگ وہی ہوتے ہیں جو اپنا خسارہ اور گھاٹا برداشت کرلیتے ہیں کسی کو نقصان نہیں پہنچاتے۔ انکے نزدیک انفرادی یاگروہی فائدہ اہم نہیں ہوتا اجتماعی فائدہ زیادہ اہم ہوتا ہے۔ وہ صوفیاء کی طرح جیتنے کو نہیں ہارنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
ہارن کھیڈ فقیرا
اسی طرح سوہنی مہینوال کی مقبول تضمیں میں علی حمزہ کا یہ مصرعہ بہت مقبول ہوا ہے ’’ہاں میں ناکام نی/کچیاں دا ہوندا کچا انجام نی‘‘
اس غیر مقبول نظریے کی بنیاد یہ ہے کہ ہم جس کو ناکامی اور شکست تصور کررہے ہوتے ہیں وہ دراصل کامیابی کا زینہ ہوتی ہے۔ بہت سے سیرت نگاروں نے جنابِ رسول اکرمﷺ کی طرف سے صلح حدیبیہ کے بارے میں لکھا ہے کہ صلح کے موقع پر جید صحابہ کرام رضی اللّٰہ عنھم کا خیال تھا کہ ہم گھاٹے کا سودا کررہے ہیں مگر تاریخ نے ثابت کیا کہ اس صلح نے عالم عرب میں اسلام کے جھنڈے گاڑ دئیے اور سب دشمن قبیلے بھی اسلامی قافلے میں شریک ہوگئے۔میری ذاتی رائے میں انسانی تکبر، انا، ضد ، خود غرضی اور خود پسندی جیسی سوچ بالآخر لڑائی، جنگ اور نقصان پر منتج ہوتی ہے جبکہ انکساری، مصالحت ، لچک اور اجتماعی سوچ صلح، امن اور آشتی کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے ۔ انسانوں کیلئے تینوں آپشنز کھلی ہیں لیکن تاریخ کا سبق یادرکھنا چاہیے کہ جنگ اور تباہی کا راستہ غیر یقینی ہوتا ہے۔ نپولین جیسا فاتح عالم ، ڈیوک آف ویلنگڈن سے واٹرلو کے میدان میں نہ صرف جنگ ہارا بلکہ تاج وتخت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا۔ ہٹلر نے آدھے سے زیادہ یورپ کو سرنگوں کرلیا روس کی فتح کا سودا اس کے سر میں نہ سماتا تواسے اپنے بنکر میں خود کشی نہ کرنی پڑتی۔
یاد رکھیئے کہ صلح صفائی اور مفاہمت، کمزور اور ڈرپوک لوگ نہیں کرتے۔ نہ نیلسن منڈیلا کمزور اور ڈرپوک تھا اور نہ ہی صلاح الدین ایوبی اور رچرڈ شیردل۔دراصل امن،صلح اور مفاہمت صرف دلیر لوگ ہی کرسکتے ہیں۔ مجھ حقیر کی ناقص رائے میں بے نظیر بھٹو کی مفاہمت ، ڈیل نہیں بلکہ ایک دلیرانہ قدم تھا گو اس وقت ’’ ڈیل ‘‘ کے نام سے بدنام ہوکر یہ کوششیں جنرل مشرف کی اقتدار سے رخصتی اور بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد تاریخ کے صفحات سے گم ہوگئیں لیکن اگر یہ ممکن ہوجاتیں تو اس سے قومی اتحاد، دہشت گردی کے خلاف متحدہ محاذ اور ایک نئے سول اور فوجی توازن کی شکل میں عمل پذیر ہوتے دیکھا جاسکتا تھا مگر چند سازشیوں نے اسے ناکام بناکر ملک میں عدم استحکام کی ایسی بنیاد رکھی کہ دور دور تک مفاہمت کانام ونشان ہی مٹ گیا ہے حالانکہ قومیں اور ملک مفاہمت سے ہی آگے بڑھتے ہیں۔
ہمارا ملک پاکستان، صوبہ پختونخوا میں فتنہ الخوارج اور بلوچستان میں فتنہ الہندوستان کے خطرناک حملوں کی زد میں ہے آئے دن کوئی نہ کوئی واقعہ یا حادثہ رونما ہوجاتا ہے، انسانی جانوں کا ضیاع ہو رہا ہے دوسری طرف پنجاب پختونخوا اور سندھ میں سیلابوں اور بارش نے تباہی مچارکھی ہے نہ قدرتی آفات اور نہ پاکستان کے دشمن یہ دیکھتے ہیں کہ نقصان اور تباہی کا شکار ہونے والا سویلین ہے یا فوجی،نونی ہے یا انصافی،پپلیا ہے یا جماعتیاہے! کسی کا بھی نقصان ہو پورے ملک کا نقصان ہے۔تاریخ کی تلخیاں یہ سبق سکھاتی ہیں کہ میں اور ہم فائدہ مند رہیں اور سب نقصان میں ہوں تو معاشرے یا ملک کا مستقل چلنا مشکل ہوتا ہے جس کام میں سب کا فائدہ ہو چاہے ہمارا یا میرا کچھ نقصان بھی ہوجائے تو دوررس فائدہ اسی میں ہوتا ہے انفرادی اور گروہی فائدے اگر اجتماعی فائدے کو نقصان پہنچائیں تو حتمی طور پر وہ فائدے بھی نقصان کا باعث بنتے ہیں۔
میں نے حالیہ اور ماضی کے حادثات و واقعات سے یہی سیکھا ہے کہ نفرتیں دشمنیاں اور لڑائیاں مسئلوں کا حل نہیں ۔ حسد کرنے والے، نفرت کرنے والے یا لڑنے والے جنگ جیت بھی جائیں گے تو حسد، نفرت اور لڑائی کے جذبات کل خود ان کو کھا جائیں گے۔ مجموعی طور پر معاشرہ ،امن، صلح صفائی، نرمی اور رحم دلی کا ہے چند مفاد پرستوں نے معاشرے کو لڑاکا، ایک دوسرے کا دشمن اور نفرتوں کا نشانہ بنا رکھا ہے۔ انسانی معاشرہ مختلف حالات اور واقعات سے گزرتا ہے تو اس میں کئی دفعہ نفرت اور غصہ غالب آجاتا ہے جنگیں بھی ہوتی رہی ہیں حق اور باطل کا فیصلہ بھی ہوتا رہا ہے مگر دنیا میں کامیاب ترین ادوار امن ،مصالحت اور صلح و آشتی کے ہوتے ہیں، انا غالب ہوتو امن اور صلح نہیں ہوسکتی۔ میں اور ہم سے نکلیں اور سب پر آجائیں۔ اس کیلئے عقل اور لچک کی ضرورت ہے جو ہمارے معاشرے میں عنقا تو نہیں مگر آگ کو بھڑکانے والے زیادہ ہیں اور بجھانے والے کم۔تاہم مجھے یقین ہے کہ بالآخر صلح، امن، مصالحت اور لچک، انا اور ضد پر غالب آجائیں گے، میں اور ہم کا سر نیچا ہوگا اور سب کا سر اونچا۔ یہیں سے امن اور خوشحالی کا دور شروع ہوگا۔
سب دا بھلا تے سب دی خیر