• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کونسا زمانہ یاد کروں۔ حضرت نوح کا کہ پاکستان کے قیام کے بعدکا ،جب سندھ طاس معاہدہ ہوا ،کہ دوسال پہلے کے سیلاب کا ، بدھا کا زمانہ کہ وہ نیپال سے ہوتے ہوئے کپل وستو پہ پہنچے کہ وہ تو 528قبل مسیح کازمانہ تھا۔ مگر یہ سب یاد کرتے ہوئے جب میں گلگت اور اسکردو پہنچی ہوں تو مجھے آج اپنے سامنے کوئی گھر کوئی گلی نظر نہیں آئے اور ہر جانب پتھرہی پتھر نظر آتے ہیں۔ یہ کھوج ہوئی کہ ان پتھروں کی تاریخ کتنی پرانی ہے۔ بہت یوٹیوب ویڈیودیکھیں اور بہت سی پرانی تاریخ کی کتابوں میں ڈھونڈا۔ اب تو ڈاکٹر سوانی بھی نہیں کہ صدیوں پرانے پتھروں کو آواز دیکر پوچھوں کہ تم اشوک کے زمانے کے ہو کہ اب تک لارڈبدھا کی نشانیاں دکھائی دے رہی ہیں۔ اتنے صدیوں پرانے پتھر مجھے کہہ رہے ہیں’’ ہمارے ساتھ بہت زیادتیاں ہوتی رہی ہیں ہم شکل سے بدشکل ہوگئے ہیں کہ ہر طرح کے خان سردار آکرہمیں واہ سے لیکر اسکردو تک بے طرح کاٹتے اور بالاخانوں اور محلوں کو سجاتے رہے۔ کنٹری ہومز بناتے رہے اور اب ہم اتنے چھوٹے ہوگئے کہ پانی کی لہر بہا کر ایسے نیچے لائی ہے کہ سارے غریب اور ان کے گھرہمارے نیچے ہیں۔ ہماری شناخت ہی دفن ہوگئی ہے اب داد فریاد کس سے کہ ان80سالوں میں جو پہاڑوں اور جنگلوں کے ساتھ زیادتی ہوتی رہی ہے۔ اسمیں شریک سارے جاگیردار جو بعد میں خود کو سیاست دان کہتے رہے۔ وہ آج بھی گلگت سیر کے لئے آتے ہیں اور غریب یہاں کے مکین انہیںدال روٹی بھی کھلاتے رہتے ہیں۔ بہت سی آنے جانے والی حکومتوں کو صرف زبان ہلانے کی توفیق ہوئی توکہاکہ اس وادی کو سیاحوں کی جنت بنائینگے۔ پتھروں نے کہا ہم تو چٹان کی طرح سخت اور مضبوط تھے۔ سورج ہم سے اجازت لیکر اوپر آتا تھا، ہم اپنے مویشیوں اورسادہ دل لوگوں کے ساتھ خوش تھے۔ ‘‘میں پتھروں کی دُہائی سے چونک کر اوپر کلاؤڈ برسٹ کے اندر شرابور ہوجاتی ہوں۔ میرا لاہور جہاں راوی کا پانی، سندھ طاس معاہدے کے تحت صرف ہمارے حصے میں تھا ، اب تو نالی کی طرح دکھائی دیتا تھا۔ وہی دریا بپھر کر ان سارے گھروں میں گھس کر پوچھ رہا ہے کہ کس کی اجازت سے میری زمین پرتم لوگوں نے راوی اربن سوسائٹی کے تحت کالونی بنائی۔ تم کو معلوم تھا کہ دریا اپنی شناخت اور راستہ کبھی نہیں بھولتا۔ مستنصرنے تو پرانے غائب ہوئے دریاؤں کا نوحہ بہت تفصیل سے لکھا ہے۔ مگر بستیوں کو آباد کرنے والے زرگر، غریبوں کو محلےدو محلے کے خواب دکھاکر جمع پونجی لیکر ہمارے گھروں میں راوی کا گھٹنوں گھٹنوں پانی چھوڑ کر، آنسو بھری آنکھوں سے سارے خاندان اپنی جمع پونجی کو یوں سیلاب کی نذر ہوتےدیکھ کر کس سے فریاد کریں کہ ہم لوگ مغربی تہذیب کو کاپی کرتے ہوئے گھروں میں دالان، صحن، روشن دان، سب کو کوڑا سمجھ کر فیشنی گھر کو اپنی جنت بناکر ابھی خوش بھی نہیں ہوئے تھے کہ ہاتھوں میں پنکھے ہلاتے ہوئے کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں۔ سرکار میں ایک ہی شخص سمجھدار ہے اور بڑ بولا بھی ہے۔ اس نے پارلیمنٹ میں کھل کر کہا ہے کہ دریا اور نالے اپنی گزر گاہ نہیں بھولتے ہیں۔ ہمارے ناسمجھ لوگوں نے گاتے ہوئے ’’ دریا کا کنارہ ہو‘‘۔ نئی آبادیاں بغیر کسی آرکیٹیکٹ کی ہدایت کےسمجھاکہ یہ خالی زمین ہے اس پر اپنی قسمت آزمائیں۔ اسوقت فطرت اور قدرت دونوں اس فریب کا پردہ چاک کررہی ہیں۔ انڈیا نے ستلج اور چناب اپنے پاس رکھے تھے۔ معاہدے کے مطابق ، جب سیلاب نے زور مارا تو حکومت ہند نے پانی اور سیلاب کی اطلاع دیدی، یہ قانونی طور پر تو درست ہےمگر اسمیں آبی جارحیت کی رمق ہے۔ ابھی تک ہم لاہور اور راوی کی حکایت بیان کررہے تھے۔تقسیم انڈیا کے نقشے میں فیروزپور بھی پاکستان میں آتا تھا مگر پنڈٹ نہرو کے مشورے سے فیروز پور ، انڈیا کو دیدیا گیا اور گنڈا سنگھا کے پل پردریا اپنا سر ماررہا ہے کہ میرے رستے میں یہ کون اورکیوں آکر کھڑا ہوگیا۔

آج سینکڑوں دیہات، فصلیں،مویشی، دریا برد ہوچکے ہیں۔ ابھی پنجند سے گزر کر اور گدو بیراج کو کراس کرکے سندھ کی ساری زمینیں لرز رہی ہیں۔ پانی جسے آب حیات کہتے ہیں ہم نے اسکی گزر گاہوں سے چھیڑ چھاڑ کی ہے اور ہم فخر سے بتاتے ہیں کہ ہم نیا پاکستان بنا رہے ہیں ۔ کراچی کے ڈیلٹاکا ستیاناس کردیا کہ ہمیں ڈیفنس سوسائٹیاں بنانی تھیں۔ جواز یہ کہ سنگاپور اور بمبئی کی توسیع بھی اس طرح ہی کی گئی ہے۔ تو ہم نے مچھیروں کی بستیاں چاہے گوادر ہوکہ راوی کہ کراچی کہ بدین، ہم نے سب جگہ ارے ملتان میں تو ایکڑوں پر پھیلے آم کے باغ کاٹ کر سوسائٹیاں بنا ڈالی ہیں۔ آج کے ڈاکٹروں نے فریب دیا ہے کہ وہ اپنے نسخوں سے آپ کی جھریاں ختم کرسکتے ہیں۔ آپ کی جوانی واپس لاسکتے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں کہ یہ کرتوت فطری نہیں، کوئی ہونٹ موٹے کرا رہا ہے، کوئی گنجے سروں پر بال لگوارہا ہے۔ کوئی پچاس کی ہوکر خود کو مہنگے سے مہنگا علاج کرواکر جوان بننا چاہ رہی ہے۔

ابھی تو سیلاب نے آدھی پاکستانی زمین چوسی ہے۔ ابھی ہم دیکھیں گے کہ کتنی اور سوسائٹیاں ، کتنے جھونپڑے اور فصلیں بہہ کر نابود ہوجائینگے ۔ قضاو قدر کے عذاب کو پھر غریب سہہ رہے ہیں۔

تازہ ترین