مصنّف: ظفر قریشی
صفحات: 514، قیمت: 1200روپے
ناشر: فرید پبلشرز، اُردو بازار، کراچی۔
فون نمبر: 1354469 - 0333
ظفر قریشی کا شمار پاکستان کے اُن صحافیوں میں ہوتا ہے، حق گوئی جن کا طرۂ امتیاز ہے۔ وہ ہر اُس مزاحمتی تحریک کا حصّہ رہے، جس کا آغاز آمرانِ وقت کو آئینہ دِکھانے کے لیے کیا گیا۔ اب ایسے نڈر اور بے باک صحافی خال خال ہی رہ گئے ہیں۔ اُن کی کوئی کتاب ایسی نہیں، جس میں ظالموں کی مذمّت اور مظلوموں کے حق میں آواز نہ اُٹھائی گئی ہو۔ اُنہوں نے امریکا قیام کے دَوران بھی اپنے اندازِ بیاں اور طرزِ تحریر میں کوئی لچک پیدا نہیں کی، وہاں بیٹھ کر بھی پاکستان کے سیاسی منظر نامے کا ژوف نگاہی سے جائزہ لیتے رہے۔
ظفر قریشی کا زیرِ نظر ناول54 ابواب پر مشتمل ہے۔ ہر باب انکشافات سے پُر اور حقائق پر مبنی ہے۔ بقول مصنّف’’ یہ ناول ایک دیسی نوجوان کی کہانی ہے، جو امریکا جاکر وہاں گم ہوگیا، مگر اُس نے اپنے وطن، اپنے وطن کے لوگوں، حالات اور اقدار سے ناتا نہیں توڑا۔‘‘ اِن سطور سے پتا چلتا ہے کہ یہ ظفر قریشی ہی کی آپ بیتی ہے، جسے اُن کے اندازِ تحریر نے جگ بیتی بنا دیا۔
اِس ناول کو ایک نظریاتی ناول بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ بقول ڈاکٹر ممتاز احمد خان’’یہ ناول عالمی گاؤں کی حقیقی صُورتِ حال پیش کرتا دِکھائی دیتا ہے۔‘‘ یہ ناول ہی نہیں، سماجی، ادبی اور تاریخی منظر نامہ بھی ہے۔ اُنہوں نے اپنے ناول میں پوری سچّائی کے ساتھ اپنے اور دوسرے معاشروں کی عکّاسی کی ہے۔
ممتاز صحافی، غلام محی الدّین نے فلیپ میں لکھا ہے کہ’’اگر مَیں ظفر قریشی کو ایک ناول نگار سے زیادہ حقیقت نگار کا درجہ دوں، تو غلط نہ ہوگا، یہ ناول اُنہوں نے اپنا خونِ جگر صرف کرکے لکھا ہے۔‘‘ بلاشبہ یہ ناول حقیقت نگاری کا مرقّع ہے۔ اس کا انتساب ممتاز صحافی اور دانش وَر، غازی صلاح الدّین کے نام کیا گیا ہے، جو اُن کی نگاہ میں’’رول ماڈل‘‘ کا درجہ رکھتے ہیں۔