• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بیجنگ کی ٹھنڈی ہوا اور ہائی ندی کے کنارے بہتے شفاف پانی کے ساتھ موجود جدید کنونشن سینٹر میں جب شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس شروع ہوا تو یوں لگا جیسے تاریخ ایک نئے باب کیلئے صفحہ پلٹ رہی ہو۔ اندر داخل ہوتے ہی دیواروں پر آویزاں پرچم، نرم روشنیوں میں جگمگاتے ہال اور سجے دروازوں کی جلالت نے ماحول کو غیر معمولی وقار بخشا ہوا تھا۔ پھر جیسے ہی معتبر عالمی رہنماؤں کی قطار میں وزیراعظم پاکستان شہباز شریف ہال میں داخل ہوئے، سب نگاہیں یکدم ان پر مرکوز ہو گئیں۔ اعتماد سے بھرے قدم، مصافحے میں شائستگی اور چہرے پر سکون—یہ سب کچھ ایک ایسے پاکستان کا عکس تھا جو کمزور دفاعی انداز میں نہیں بلکہ پر اعتماد، تعمیری اور ذمہ دار ریاست کی صورت دنیا کے سامنے کھڑا ہے۔

ہال کی فضا میں خاموش وقار تھا، مگر بھارتی وفد نے حسب روایت شور برپا کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے پاکستان کو دہشت گردی کا ذمہ دار ٹھہرانے کی پرانی روش دہرائی۔ لیکن جب وزیراعظم شہباز شریف نے مائیک سنبھالا، تو لمحہ بھر کو کمرے کی فضا بدل گئی۔ ان کی آواز میں ٹھہراؤ اور دلائل میں وزن تھا۔ انہوں نے دنیا کو بتایا کہ پاکستان خود دہشت گردی کا سب سے بڑا شکار ہے، ہزاروں جانیں گنوا چکا ہے اور امن کے لیے عملی اقدامات کرتا رہا ہے۔ یہ وہ لمحہ تھا جب کمرہ خاموش ہو گیا، ہر کان سننے پر مجبور تھا، اور بھارت کا پروپیگنڈا پس منظر میں گم ہوتا گیا۔ دنیا نے پاکستان کی بات کونہ صرف سنا نہیں بلکہ اس کی تائید بھی کی۔

چین کے صدر شی جن پنگ سے ملاقات میں سی پیک کے اگلے مراحل اور توانائی کے منصوبوں پر ٹھوس بات ہوئی۔ وزیراعظم لی چیانگ کے ساتھ جدید زراعت، تعلیم اور گرین انرجی جیسے شعبے زیربحث آئے۔ ترک صدر رجب طیب اردوان نے شہباز شریف کو بھائی کی طرح گلے لگایا۔ آذربائیجان کے صدر الہام علیف کے ساتھ توانائی اور راہداری تعاون پر گفتگو نے پاکستان کی تجارتی اہمیت کو اجاگر کیا۔ ایران کے صدر نے مشکل وقت میں پاکستان کی حمایت پر ایک بار پھر شکریہ ادا کیا۔ روس کے صدر کی وزیر اعظم شہباز شریف کے ساتھ غیر معمولی گرمجوشی کو سب نے محسوس کیا تو وسطی ایشیائی رہنماؤں نے پاکستان کو خطے کی بندرگاہوں اور زمینی راستوں کے ذریعے عالمی تجارت کا فطری پل قرار دیا۔ یہ سب ملاقاتیں یوں محسوس ہو رہی تھیں جیسے ایک نئے دور کے دروازے کھل رہے ہوں۔

اس عالمی کانفرنس میں وزیر اعظم کے ہمراہ فیلڈمارشل عاصم منیر کی موجودگی نے اس منظر کو اور بھی تاریخی بنا دیا۔ عالمی قیادت نے ان کی حیثیت کو غیر معمولی اہمیت دی اور بھارت کے خلاف پاکستان کی حالیہ سفارتی و اسٹرٹیجک کامیابیوں میں ان کے کردار کو نمایاں طور پر سراہا۔ اجلاس کے دوران بیانیے کی اصل جنگ جاری تھی۔ پاکستان نے حقیقت اور وقار کے ساتھ اپنی بات رکھی اور دنیا نے سنی۔ وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے عالمی میڈیا پر پاکستان کے مؤقف کو مؤثر انداز میں اجاگر کیا۔ چینی میڈیا نے پاک–چین تعاون کو نمایاں کیا، ترک پریس نے عالمی برادری پر زور دیا، وسطی ایشیائی اخبارات نے پاکستان کی تجارتی اہمیت پر لکھا، جبکہ بھارتی میڈیا میں مایوسی اور اضطراب چھلکتا رہا۔

پھر آیا وہ لمحہ جس نے دنیا کی نگاہوں کو اپنی طرف کھینچ لیا۔ چین کی عظیم دفاعی پریڈ—دنیا کی سب سے بڑی پریڈ—کا انعقاد ہوا۔ شاندار فوجی قافلے، فضاؤں میں گونجتے جیٹ طیارے اور میدان میں گونجتے ڈھول۔ اس سب کے درمیان پاکستان کے وزیراعظم کو نمایاں حیثیت دی گئی۔ کیمرے ان پر مرکوز رہے اور ان کے چہرے پر سکون اور فخر جھلکتا رہا۔ اس کے برعکس بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اس تقریب میں شرکت ہی نہ کی۔ یہ منظر خود بول رہا تھا کہ پاکستان کو عزت اور وقار دیا جا رہا ہے جبکہ بھارت اپنی کمزور سفارتی پوزیشن کے ساتھ پیچھے رہ گیا ہے۔

اجلاس کے بعد پاکستانی وفد کے چہروں پر اطمینان نمایاں تھا۔ جیسے سب جانتے ہوں کہ انہوں نے ایک بڑی فتح حاصل کر لی ہے۔ بھارت خالی ہاتھ لوٹا، مگر وزیراعظم شہباز شریف عزت، فخر اور کامیابی لے کر وطن واپس پہنچے۔ ان کا یہ پیغام دنیا تک پہنچ چکا تھا کہ پاکستان امداد کا طالب نہیں بلکہ عملی تعاون اور ترقی کا شراکت دار ہے۔کانفرنس میں کامیاب شرکت، معاشی کامیابی اور سیاسی استحکام، بلاشبہ شہباز شریف کی حکومت اس وقت بہترین انداز میں چل رہی ہے، مگر ان کا اپنی صفوں میں موجود منفی عناصر پر کڑی نظر رکھنا ناگزیر ہے۔ یہ وہی عناصر ہیں جنہوں نے ماضی میں ایک متنازعہ قانون پاس کرانے میں دانستہ ایسی غلطی کی جس نے ملک میں مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دیا اور پورا ملک غیر مستحکم ہوا۔ اسی کے نتیجے میں احسن اقبال پر قاتلانہ حملہ ہوا، خواجہ آصف پر سیاہی پھینکی گئی، نواز شریف پر حملہ ہوا۔ یہ سب واقعات حادثہ نہیں تھے بلکہ ایک منظم سازش کی کڑیاں تھیں۔ آج بھی یہی عناصر حکومت کا حصہ بن کر پس پردہ سازشوں میں مصروف ہیں۔ اگر ان پر بروقت قابو نہ پایا گیا تو یہ حکومت کے لیے اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہوگا۔ وزیراعظم کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی صفوں کو منفی کرداروں سے پاک رکھیں تاکہ یہ حکومت مکمل استحکام کے ساتھ اپنی مدت پوری کر سکے۔

بیجنگ کا یہ اجلاس اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان سفارت کاری کے میدان میں اپنی قربانیوں اور دلائل کے ساتھ دنیا کو قائل کر سکتا ہے۔ بھارت نے شور مچایا مگر دنیا نے پاکستان کو سنا۔ چین کی دفاعی پریڈ میں دی گئی اہمیت نے اس بیانیے کو مزید مضبوط کر دیا۔ یہ لمحہ پاکستان کے لیے ایک نئے موڑ کی حیثیت رکھتا ہے اور اگر اندرونی استحکام قائم رہا تو یہ کامیابی دیرپا اور فیصلہ کن ثابت ہوگی۔

تازہ ترین