لیفٹنٹ جنرل کنول جیت سنگھ ڈھلوں( ریٹائرڈ) سرینگر کشمیر میں کور کمانڈر 15کور تھے جب ہندوستانی آئین کی شق 370اور35-A متروک کی گئی جبکہ پلوامہ حملے کا جعلی ڈرامہ بھی انہی کی سرپرستی میں رچایا گیا تھا۔ اس کا اعتراف مقبوضہ جموں اور کشمیر کے اس وقت کے گورنر ستیہ پال ملک نے اپریل 2023 میں ایک انٹرویو میں کیا۔ جنرل کنول جیت ڈی جی ڈیفنس انٹیلی جنس اور ڈپٹی چیف انٹیگریٹیڈ ڈیفنس انٹیلیجنس بھی رہے، اب ریٹائرمنٹ کے بعد انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے سربراہ ہیں۔وہ فخریہ ہندوستان کی پاکستان کے لئے غلیظ حکمت ِعملی بیان کرتے ہیں جس سے ہندوستان کا اصل و مکروہ چہرہ بے نقاب ہو گیا اور پاکستان میں حالیہ غیر معمولی سیلابوں کے پیچھے ہندوستان کی ابلیسی چالیں اور مزموم مقاصد سامنے آگئے ۔انہوں نے بتایا کہ کیسے ہندوستان اپنے ڈیم پہلےبھر لے گا پھر اچانک گیٹ کھول کر اتنا زیادہ پانی چھوڑے گا جس سے پاکستان میں سیلابی صورتِحال پیدا ہو جائے گی۔ بعینی گرمیوں میں فصلوں کو جب پانی کی ضرورت ہوگی تو ہندوستان پانی روک کر پاکستان میں مصنوعی خشک سالی پیدا کرے گا۔ اب ہندوستان پانی کو بطور جنگی ہتھیار استعمال کرے گا کیونکہ انکے مطابق سندھ طاس دو طرفہ معاہدہ ہے جس پر بین الاقوامی قانون لاگو نہیں ہوتا۔اُوپری دریا والا ملک ہونے کے باوجود ہندوستان پاکستان کا پانی روک نہیں سکتا البتہ جب چاہے چھوڑ سکتاہے۔ ہندوستان نے مئی کی جنگ میں پاکستان سے شکست تسلیم نہیں کی اور جنگ بندی کو عارضی کہا اور اب جیسے گودی میڈیا پاکستان میں سیلابی صورتِحال کا سہرا اپنے سر باندھ رہا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ’’آپریشن سیندور‘‘ کا دوسرا حملہ پاکستان پر بدترین آبی جارحیت کی صورت میں کر دیا گیا ہے۔
31اگست کو چین کے شہر تیانجن میں شنگھائی تعاون تنظیم کا 25 واں دو روزہ سربراہی اجلاس ہوا جس میں 26ممالک روس، ایران، پاکستان، ہندوستان ، ترکی، شمالی کوریا سمیت وسط ایشیائی ممالک کے 20 کے قریب سربراہانِ مملکت نے شرکت کی جو دنیا کی تقریباً نصف آبادی کے نمائندہ ہیں۔ بعدازاں چین کی شاندار پریڈ اور بے پناہ طاقت اور جدید ٹیکنالوجی کے اظہار نے امریکہ کے چھکے چھڑا دیے۔ دو دہائیوں سے چین کی اڑان پر نظریں جمائے ،قیاس آرائیاں کرتی دنیا سمجھ گئی ہے کہ امریکہ اب دنیا کی واحد سپر پاور نہیں رہا جو یقیناً عالمی توازن کے لئے خوش آئند ہے اور ضروری بھی۔بعینی دنیا میں ڈالر کی اجارہ داری سے بھی معیشتیں یرغمال اور بے بس تھیں۔امریکہ جب چاہتا، جس پر چاہتا پابندیاں لگا کر اس کا ناطقہ بند کر دیتا نتیجتاً کوئی ملک بھی ایسے پابندی زدہ ملک سے تجارت نہ کر سکتاکیونکہ زیادہ تر بین الاقوامی لین دین کیلئے کرنسی ڈالر ہے جو صرف امریکی بینکاری نظام کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ برکس تنظیم کے ذریعے ڈالر میں تجارت سے نجات اور متوازی نظام کا قیام بھی دنیا کی معیشتوں کے لیے خوشخبری ہے۔ اس پر امریکہ کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اجارہ داری کے خلاف خود امریکہ میں بڑے سخت قوانین رائج ہیں، پھر ڈالر کے ذریعے دنیا پر اجارہ داری قائم رکھنے کی خواہش پر وہ خود کیسے حق بجانب ہو سکتا ہے؟ ادھر امریکہ سے دھتکارے جانے کے بعد وزیراعظم ہندوستان نے محبوب کی رقابت بڑھانے کے واسطے چین کا رخ کیا۔خیال تھا کہ چین ’’موذی‘‘ کو ہاتھوں ہاتھ لے گا، اس پر ریشہ خطمی ہو جائے گا، پرانے دوست اور ساتھی پاکستان کو نظر انداز کر کے’’چمکدار انڈیا‘‘ کی چمک سے چندھیا جائے گا۔لیکن 5ہزار سال پرانی تہذیب کے امین، فہم وفراست سے لیس چین نے گھر آئے ہوئے ’’موذی‘‘ کی پزیرائی تو کی مگر پاکستان کی عزت وشان کو اولین ترجیح دی۔پاکستانی وزیراعظم ہر جگہ پیش پیش، بہترین سفارتکاری کرتے دکھائی دیے جبکہ فیلڈ مارشل بھی بھرپور انداز میں مصروف ِعمل نظر آئے۔ پچھلے کچھ عرصہ میں پاکستانی وزارت خارجہ نے اعلٰی سفارتکاری کے ریکارڈ قائم کر دیے ہیں جبکہ ماضی میں اسی وزارت خارجہ کو پاکستان میں غیر ملکی نمائندہ کہا جاتا تھا۔"بنیان المرصوص"کی لازوال کامیابی اور ہندوستان کی شکستِ فاش و بین القوامی سبکی پاکستانی قوم کے لئے یقیناً اطمینان کا باعث ہے تاہم چار روزہ اس جنگ کا اختتام عارضی جنگ بندی پر کیا جانا بادی النظر میں درست معلوم نہیں ہوتا۔ کسے معلوم تھا کہ صدر ٹرمپ کی جلد بازی اور دباؤ پر لئے گئے فیصلے کی مستقبل میں اتنی بھاری قیمت ادا کرنا، پاکستانی عوام کیلئے زہِر قاتل ثابت ہو گی۔ مسلمانوں کی تاریخ گواہ ہے کہ ہم نے ہمیشہ اپنی جیتی ہوئی بازیاں مزاکرات کی میز پر ہاری ہیں۔ مئی کی عارضی جنگ بندی بھی یہی ظاہر کرتی ہے ۔ ہندوستان کی جانب سے بدنیتی سے چھوڑے گئے پانی، کلاؤڈ سیڈنگ، سیلاب در سیلاب اور سالانہ آبی جارحیت کا انجام کیا ہوگا؟ صدر ٹرمپ ہماری پزیرائی کریں، بے شک آئی ایم ایف ہمیں آسانی سے قرضے دے یا سیلاب زدگان پر عطیات کی بارش ہو لیکن درحقیقت ہماری معیشت تو اپنے پیروں پر مستحکم نہ ہو گی۔ ہمارے سیلاب زدگان ایک سال سیلاب کی تباہ کاریاں جھیل بھی گئے تو اگلے سال یا اس سے اگلے سال تو بالآخر انکی کمر ٹوٹ جائے گی۔’’موذی‘‘رہے یا نہ رہے ، ٹرمپ ہندوستان پر 150فیصد ٹیرف لگائے یا سب ہندوستانیوں کے ایچ ون وی ویزے متروک ہو جائیں، ماسوائے ذہنی اطمینان کے ہمیں کیا ملے گا؟ ہم پھر بھی ہندوستان جیسے سفاک اور بے رحم دشمن کے رحم و کرم پر رہیں گے۔ ٹرمپ آج تک ہماری مستقل جنگ بندی کی شرائط طے نہ کروا سکا،آئندہ کیا کروا لے گا۔ ماضی میں بھی ہندوستان نے شملہ معاہدے کی کسی ایک شق پر عمل نہ کیا جبکہ ہم شملہ معاہدے کی لاش کاندھے پر لادے امید کرتے رہے کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ہم کشمیر میں بھی استصوابِ رائے کے 1948 سے منتظر ہیں جبکہ ہندوستان نے کشمیر کو اپنا ’’اٹوٹ انگ‘‘ قرار دے کراسے ضم کر لیا اور ہم خاموش احتجاج ہی کرتے رہ گئے۔
ہندوستان نے مئی میں’’آپریشن سیندور‘‘ کے دوران نیلم جہلم پاور پراجیکٹ کو میزائل مار کر نقصان پہنچایا جو اس کی فاش غلطی تھی ۔ یہ پاکستان کو جواز فراہم کرتی تھی کہ وہ جوابی کارروائی میں ہندوستان کےسندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی میں تعمیر کردہ کئی غیر قانونی ڈیموں پر میزائل حملوں سے شگاف ڈال دیتا ۔ چونکہ اس وقت یہ ڈیم کسی حد تک خالی تھے لٰہذا یہ کام نسبتاً آسان ہوتا ۔ افسوس ہم نے دور اندیشی کا مظاہرہ نہ کیا اور عالمی عدالتوں کے چکر میں پڑ گئے جس میں ہمارا انجام پاکستانی عدالتوں میں دھکے کھاتے مدعیان جیسا ہی ہوگا ۔ ویسے بھی ہندوستان ، اسرائیل، امریکہ اور بڑی طاقتیں اقوامِ متحدہ کے فیصلوں کو خاطر میں نہیں لاتیں۔ سندھ طاس معاہدے کی معطلی کا اصل مقصد وقت حاصل کرکے تمام آبی وسائل جن کا منبہ ہندوستان ہے پر نئے ڈیم بنا کر پاکستان کا حق مارنا ہے۔ ہندوستان کو پاکستان سے حربی جنگ لڑنے کی اب ضرورت ہی نہیں ۔ پاکستان کے اربابِ اختیار اور قوم جنگ میں اپنی کامیابی پر نازاں اور آئندہ بھی ہندوستان کو دھول چٹانے میں پُر عزم ہیں لیکن پاکستان کی بقاء و سلامتی کیلئے پاکستان میں آتے دریاؤں پر تمام غیر قانونی ہندوستانی ڈیموں کو تباہ کرنا از حد ضروری ہے وگرنہ ہم ہر سال اسی آبی جارحیت کے شکار ہوں گے۔دہائیوں کی خواری، پر نتیجہ صفر!
؎تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازَل سے
ہے جُرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات!