• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پرانی بات ہے، دو صاحبان میرے دفتر تشریف لائے، دونوں کی وضع قطع شرعی تھی،پانچ وقت کے نمازی تھے، رمضان کے روزے رکھتے تھے، ایک سے زائد مرتبہ حج کر چکے تھے اور عمروں کی ادائیگی کا کوئی حساب ہی انہیں یاد نہیں تھا۔ انہوں نے سفارش کی کہ اُن کے کسی جاننے والے کو اسلام آباد کے فلاں سرکاری اسپتال میں ہاؤس جاب کی اجازت دے دی جائے۔ اُس اسپتال کے ایم ایس سے میری شناسائی تھی، میں نے اسے فون کیا تو اُس نے بتایا کہ ہاؤس جاب کیلئے اسپتال نے میرٹ پر مبنی ایک شفاف نظام بنایا ہوا ہے، جن صاحب کی سفارش ہے وہ میرٹ پر پورا نہیں اترتے۔ یہ بات سُن کر میں نے ایم ایس کا شکریہ ادا کیا اور فون بند کرکے اُن صاحبان سے معذرت کر لی۔ مجھے یہ خوش فہمی تھی کہ وہ اِس میرٹ کی تعریف کریں گے مگر وہ الٹا مجھ سے ناراض ہو گئے اور یہ کہہ کر چل دیے کہ ایک معمولی سا کام آپ سے نہیں ہو سکا۔

اِس قسم کے واقعات معمول ہیں، پہلے مجھے ایسی باتوں پر غصہ آ جایا کرتا تھا، اب نہیں آتا، اب صرف حیرت ہوتی ہے اور وہ بھی اُس صورت میں جب کوئی ’با عمل مسلمان‘ ایسی حرکت کرتا ہے۔ اگر اِس واقعے میں دو با عمل مسلمانوں کی جگہ دو ملحد کردار ہوتے تو پھر یہ واقعہ لکھنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی کیونکہ مذہبی لوگوں کے نزدیک ملحد کا تو کوئی اخلاقی پیمانہ ہی نہیں ہوتا لہٰذا اُس سے آپ کسی بھی غیر اخلاقی رویے کی توقع کر سکتے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ یہ مفروضہ سراسر غلط ہے، تاہم فی الحال یہ سوال زیرِ بحث نہیں، ابھی موضوع بحث یہ ہے کہ جو لوگ مذہب کی دی ہوئی اخلاقیات کے تابع ہیں وہ اِس قدر اطمینان کے ساتھ اور بغیر کسی شرمندگی اور احساسِ جرم کے، قانون کی خلاف ورزی پر کیسے آمادہ ہو جاتے ہیں؟ پاکستان میں چپے چپے پر مساجد ہیں اور الحمدللہ آباد ہیں، ہر سال ہم پورے احترام کیساتھ رمضان کے روزے رکھتے ہیں، حج اور عمرے کرتے ہیں، دس محرم کو امام حسینؓ کا سوگ مناتے ہیں اور ۱۲ ربیع الاوّل کی شان و شوکت کا تو کوئی موازنہ ہی نہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ فجر کی اذان کے ساتھ صبح کا آغاز کرنے والے اور عشا کے تین وتر پڑھ کر شب بخیر کہنے والے، اپنا پورا دن کسی بے دین کی طرح گزارتے ہیں؟ وہ قوم جو شریعت کی پابندی کا دم بھرتی ہے، وہ اپنے ہی ملک کے دستور اور قوانین کو اتنی آسانی سے نظر انداز کیوں کر دیتی ہے؟ یہ کروڑوں مسلمان جو ہمہ وقت دین کی عزت و حرمت پر مر مٹنے کو تیار ہوتے ہیں، دس سیکنڈ کیلئے ٹریفک کے اشارے کی پاسداری کیوں نہیں کرتے، سڑکوں پر گندگی کیوں پھیلاتے ہیں، وضو کرتے وقت پانی کا ضَیاع کیوں کرتے ہیں اور روز مرہ کے دنیاوی اور کاروباری معاملات میں اُس اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کیوں نہیں کرتے جس کی تعلیم ہمیں اللّٰہ اور اُس کے رسولﷺ نے دی ہے؟

پاکستان میں انگریزوں کا دیا ہوا کامن لا ہے اور ہمارا آئین جمہوری پارلیمانی ہے، یہ معروف معنوں میں ویسٹ منسٹر ڈیموکریسی تو نہیں کیونکہ اِسکے آئین کی کئی شقیں اسلامی ہیں اور اِس کی شروعات ہی اللّٰہ کی حاکمیت کے اصول سے ہوتی ہے لیکن اسلامی فقہ کی رو سے اِس آئین اور قانون کی شرعی حیثیت اسی صورت میں مُسلّم ہوتی ہے جب وہ شریعت کے بنیادی اصولوں یعنی عدل، انصاف، مساوات اور عوام کی بھلائی کے مطابق ہو۔ پاکستان کے عام مسلمان نے اپنے دل و دماغ کو یہ تاویل فراہم کی ہوئی ہے کہ یہ انسانی قانون چونکہ اسلامی شریعت اور احکامات سے مطابقت نہیں رکھتا (جو کہ حقائق کے منفی بات ہے) یا اِسے نافذ کرنے والا نظام ہی کرپٹ اور فرسودہ ہے تو اس قانون کی اطاعت نہ صرف غیر ضروری ہے بلکہ بعض اوقات گناہ کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ اسی لیے جب ایک عام مسلمان کسی سرکاری دفتر میں اپنا جائز کام نکالنے کیلئے سفارش یا رشوت سے کام لیتا ہے تو اس کے ذہن میں یہ بات ہوتی ہے کہ یہ تو ایک ناگزیر برائی ہے کیونکہ ’’سسٹم‘‘ ہی ایسے چل رہا ہے اور وہ نماز پڑھنے کے بعد اپنے آپ کو یہ تسلی دیتا ہے کہ دراصل یہ’’نظام‘‘ کا قصور ہے اُس کا اپنا ایمان تو نماز پڑھنے سے مضبوط ہے! وہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ شریعت کی خلاف ورزی نہیں کر رہا بلکہ ایک انسانوں کے بنائے ہوئے ناقص نظام کے خلاف اپنا دفاع کر رہا ہے۔

اِس مسئلے کا دوسرا پہلو آئین کی تقدیس ہے۔ کسی بھی ملک کے دستور کو سب سے مقدس دستاویز سمجھا جاتا ہے لیکن پاکستان میں دستور کو، فوجی آمروں اور سیاستدانوں نے اپنے مفادات کیلئے ،جب جی چاہا پامال کر دیا۔ اِس سے پاکستان کے شہریوں کے ذہنوں میں یہ تاثر راسخ ہو گیا کہ جب حکمران طبقہ خود اس ’’عہد نامے‘‘ کی حُرمت کی پروا نہیں کرتا جس پر ریاست کی بنیاد ہے تو عوام سے اس تقدس کی توقع کیوں کر رکھی جائے! یہاں ایک واقعہ یاد آ گیا۔ کسی مذاکرے میں ایک ریٹائرڈ بریگیڈئر صاحب اپنے فضائل بیان کر رہے تھے، جوش خطابت میں انہوں نے کہا کہ آئین کی کوئی حیثیت نہیں، اسے تو پھاڑ کر پھینک دینا چاہیے، غالباً وہ جنرل ضیا الحق سے متاثر تھے، مذاکرے میں سوائے اِس فدوی کے کسی نے اُن کے جملے پر اعتراض نہ کیا، بہرحال ہم نے موصوف کو معافی مانگنے پر مجبور کیا۔ یہی وہ لطیف نکتہ ہے جس پر اِس بحث کی پوری عمارت کھڑی ہے، اُن صاحب کی جرات نہیں تھی کہ وہ ایسی بات الہامی کتب کے بارے میں کرتے، مگر آئین کو چونکہ وہ تقدیس حاصل نہیں اِس لیے انہوں نے بلاخوف و خطر اُس کی توہین کر دی۔ مہذب اور ترقی یافتہ ممالک، جہاں قانون کی عملداری کی ہم مثالیں دیتے ہیں، انہوں نے آئین کو وہ تقدیس دی کہ کوئی اُس کی پامالی کی جرات نہیں کرتا، جب تک یہ تقدیس ہم پاکستانی آئین کو نہیں دیں گے اُس وقت تک پاکستان کا عام مسلمان اپنے لیے اِس ’فرسودہ‘ نظام اور اُس سے جُڑے ہوئے قوانین کی خلاف ورزی کی تاویلیں تلاش کرتا رہے گا۔ وہ نماز پڑھے گا، روزے رکھے گا اور ایک حج کر کے اخلاقی طور پر Minimalist بن جائے گا اور یہ فرض کر لے گا کہ قیامت کے دن اُس کی بخشش ہو جائے گی۔ یہ اُس کی غلط فہمی ہے، قیامت کے دن بخشش کے ایسے کسی بلینک چیک کا خدا نے وعدہ نہیں کیا۔

تازہ ترین