پاکستان کی زوال زدہ معیشت اورا نسانیت کو ایک اور دھکا ایسے لگا کہ سارے باغ، ساری فصلیں اور سارے کھیت ایسے اجڑے کہ وہ لوگ جو سیلاب کے شروع دنوں میں کوئی چین اور جاپان میں تھا۔ اب غریبی میں ہیں،یہ دیکھ کر چودھویں کے چاند کو بھی اتنا غصہ آیا کہ وہ بھی سرخ رو ہوگیا ۔ہر خاندان والے اپنے بھرے پرے گھر کودیکھ رہے ہیں جو آج تک آنے والے سیلابوں میںایسے تباہ نہیں ہوا تھا کہ ایک ہاتھ کو دوسرے کی سمجھ نہیں آرہی۔ پانی،گلیشیر اور انڈیا سب مل کر جنم جنم کے بدلے لے رہے ہیں۔ اب تو دوسرا مہینہ ہے، سیلاب پھیلتا ہی جارہا ہے اور ہمارے سارے سیاستدان ، جتنے ہمدردی کے الفاظ آتے ہیںان میںوہ پھر ایک دفعہ اور ٹوٹنے والے وعدے کررہے ہیں۔
وعدوں کی ضرورت تو اس وقت ہوگی جب مہینے بھر سے چڑھا ہوا طوفان کچھ کم ہوگا۔ ابھی تو آدھا ملک پانی میں اور خلقت، بنگلہ دیش کی طرح کشتیوں اور پانی کے بیج پھنسی ہوئی ہے۔ اتنی بڑی خلقت کے پیٹوں کی بھوک دور کرنے کیلئے، لاکھوں میں کھانا بناتے ہوئے وہ سارے لوگ دونوں وقت کا کھانا ہر روز اور باقاعدگی سے تقسیم کرتے ہوئے، اپنی ذہنی فراخی کا رعب نہیں ڈال رہے ، ورنہ ایسے بھی لوگ ہیں جو اپنے ساتھ فوٹو گرافر لیے گھوم رہے ہیں۔ فکر کل کی آج میں شامل ہونی چاہیے کہ پانی اترتے اترتے بیماریاں اور خستہ گھروں کے ڈھانچے اور ہزاروں کے ڈوب مرنے کی المناک کہانیاں چھوڑ سکتا ہے۔
وہ سب کیمرے کے سامنے آئے بغیر ،نام ونمود کے بغیر دن رات ،ڈوبتے لوگوں کو گود میں بھر بھر کے نکال رہے ہیں۔ خدا کا عذاب بھی طیش میں ہے کہ وعدہ فردا پہ جینے والی قوم کوجھوٹ اور مصنوعی معیشت پہ بار بار وعدوں اور بار بار خوشحالی کے خواب دکھائے جا رہے ہیں کہ اس وقت وہ سامنے آتا جاڑا، اور گھر میں دانے نہ ہونے کا شکوہ کس سے کریں۔ جب یہ سارے سیاسی شعبدہ بازٹوکتے ہیں کہ سارے لوگ انکی ایک بات پر بھی اعتبار نہیں کرتے۔ بچوں کو کھلونے نہیں پہلے دودھ اور پھر پڑھنے کی کتابیں اورسونے کو گھر کا کونہ چاہئے ۔ جتنے دنیا بھر سے وعدے اور مالی امداد آرہی ہے۔میری عمر کو پہنچنے والے اور جوان کسانوں کو بھی پتہ ہے کہ سیلاب کے بعد، خیمے اور بستر، بازار میں فروخت ہوتے دکھائی دیں گے، جو چیز فروخت نہیں کی جاسکتی جو انکی ماں ہے یعنی زمین، جانوروں اور انکے کھانےکے لئے کیسے انتظامات ہونگے ؟ جلال پور ہوکہ راجن پور کہ کوٹری کے بےبس لوگ اس آزمائش میں کب تک پڑے رہیںگے۔رہا زرعی ایمرجنسی لگانے کا سوال تو وہ پانی نکلنے کے چند ہفتوں بعد کی منزل ہوگی۔
کوٹ مٹھن نے یاکیرتھر نے پانی کا اتنا بوجھ کبھی نہیں اٹھایا اوپر سے مسلسل بارش۔یا اللّٰہ! سزا توا نکو دےجو ملکی دولت سے اپنے محل دومحلے بناتے رہے۔ اس عالم کرب میں سارے افسر اب بھی کوٹ پتلون میں نظر آرہے ہیں، مگر رینجرز، مقامی صحت اور زراعت کے ملازمین، مستقل اپنے علاقے میں مستعد ہیں۔ یہ وقت تھا، جب عمران خان اپنے سارے چاہنے والوں کو خدمت خلق کیلئے آگے لاتے اور فوج کےساتھ مل کرلوگوں کو اپنے گھر بنانے کے لئے اینٹیں اٹھاتے، ریت بجری سیمنٹ رضا کارانہ طور پر اکھٹا کرکے لاتے علاقے میں سارے نوجوانوں کو ساتھ ملا کر یک جہتی کا ثبوت دیتے۔ سب نوجوان عہد کرتے کہ آنے والے دنوں میں اب کوئی لڑکے کے خاندان والے جہیز کا مطالبہ نہیں کرینگے۔ سب لوگ ہنر سیکھیں گے۔ پڑھی لکھی لڑکیاں، بچوں کو کھیل کھیل میں صحت وصفائی کے موضوع کہانیوں کے انداز میں سنائینگی ۔ اور یہ جو26 مذہبی جماعتیں ہیں۔ وہ بھی اس وقت درس نہیں،لوگوں کی دلجوئی اور امن کی باتیں اور دہشت گردی سے گریز کے علاوہ صرف نماز پڑھنے کی بات نہیں نماز معنی کے ساتھ سکھائیں۔ چھوٹے بچوں کو قاعدہ پڑھائیں۔ تہذیب وسادگی کے سبق سارے خاندانوں کے ساتھ مل کر بیٹھیں اور سکھائیں ۔
پنجاب میں لوکل گورنمنٹ چلانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ البتہ کراچی اور سندھ کے صوبے میں مقامی کونسلیں بھی سرگرم ہیں ۔کے پی کے وزیر اعلیٰ، چونچ پروں میں چھپائے پتہ نہیں کیا سوچ رہے ہیں کہ اس وقت بلوچستان میں پورے صوبے میں ہڑتال ہے سبب وہی جس کے باعث بلوچ عورتیں بغیر کسی مقدمے کے جیل میں ہیں۔ یہ وقت ہے کہ افغانستان اور ایران سے تجارت کیلئے بارڈر کھولے جائیں۔ انڈیا میں مودی کی اکڑفوں پر سب نالاں ہیں مگر پیوٹن سے کیا گلے ملے، اب تواپنی کرسی سے نیچے اترہی نہیں رہے۔ سب سے المناک کہ چند بچے ہوئے فلسطینی بھی نیتن یاہو کی فرعونیت سے برداشت نہیں ہورہے ۔
پہلے لڑنے کیلئے سیاستدان کونسے کم تھے کہ اب کئی ماہ سے ججوں کی بھی خط لکھنے کی تعداد بڑھتی چلی جارہی ہے۔ یہ طوفان لاقانونیت اور بدتہذیبی کوکون سمجھائے گا کہ پہلے سب سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹیں۔پھر ہم سے پوچھیں کہ سرگراں کیوں ہو۔ اس وقت خیموں میں عورتوں کیلئے باتھ روم کیوںنہیں ہیں یہ NDMAاور فلڈ ریلیف والے بتائیں کہ ٹی وی پر شور ہے کہ مدد کرنے کیلئےیہ لوگ سامنے آئیں۔