• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روز نامہ جنگ نے اداریے کی اشاعت کا سلسلہ منقطع کرکے اردو صحافت میں مستقبل شناسی کی روایت قائم رکھی ہے۔ بے خبر صحافی کی اطلاع کے مطابق یہ فیصلہ کرتے ہوئے واقعاتی دلائل پر مبنی مضبوط نکات پیش نظر رکھے گئے ہیں۔ ان سے اردو صحافت کمزور ہونے کی بجائے رائے عامہ کی بہتر نمائندگی کی طرف بڑھے گی۔ میرے ہم عمر پڑھنے والوں کیلئے اس میں یاد ماضی کا پہلو ضرور نکلے گا لیکن وقت کی رفتار ہمارے ذاتی احساسات کے تابع نہیں ہوتی۔ انسانی سوچ کا ہر نیا قدم پرانے بندوبست کو زیر و زبر کرتا ہے لیکن امکانات کے نئے دروازے بھی کھولتا ہے۔ ہم نے شخصی صحافت کی دنیا بھی دیکھ رکھی ہے۔ ’الہلال‘ کا مطلب تھا مولانا ابوالکلام آزاد۔ ’زمیندار‘ کی ہر سطر پر مولانا ظفر علی خان کی چھاپ تھی۔ ’ہمدرد‘ اور ’کامریڈ‘ میں خبر یا ادارتی پالیسی مولانا محمد علی جوہر کی سیاست سے جڑی تھی۔ مولانا محمد علی جوہر کا نام آیا تو ایک شنیدہ روایت یاد آئی۔ پہلی عالمی جنگ بیسویں صدی کے ابتدائی برسوں کی الجھی ہوئی سیاست سے عبارت تھی۔ اس جنگ میں دو کروڑ اموات کے علاوہ روس، جرمنی، آسٹرو۔ہنگیرین اور ترکی جیسی چار بڑی سلطنتیں بھی ختم ہو گئیں۔ تب ہندوستان خود سلطنت برطانیہ کا حصہ تھا لیکن سات کروڑ ہندوستان مسلمان جو کبھی سلطنت عثمانیہ کا حصہ نہیں رہے تھے اس عالمی کشاکش کو مذہبی زاویے سے دیکھتے ہوئے ترکی میں خلافت یعنی سلطنت عثمانیہ کا تسلسل چاہتے تھے۔ تحریک خلافت اسی خواہش کا نتیجہ تھی۔ گاندھی جی کا تحریک خلافت میں شامل ہونا بظاہر تعجب انگیز تھا لیکن کانگریس کی داخلی پالیسی یہ تھی کہ غیر ملکی حکمرانی کے خلاف مزاحمت کو ہندوستان کی غیر فرقہ ورانہ قومی تحریک کا روپ دیا جائے۔ تحریک خلافت کا ایک وفد برطانیہ بھیجا گیا جس نے 19مارچ 1920ء کو برطانوی وزیراعظم لائیڈ جارج سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں ہندوستانی مسلم وفد نے خلافت قائم رکھنے کا مطالبہ کیا جسے برطانوی وزیراعظم نے اس بنا پر مسترد کر دیا کہ ’یہ جنگ مذہبی بنیادوں پر نہیں لڑی گئی۔ سلطنت عثمانیہ کے افریقہ اور عرب میں علاقے حق خود ارادیت کی بنیاد پر آزاد ہوئے ہیں‘۔ اس ملاقات کی ایک دلچسپ روایت یہ ہے کہ محمد علی جوہر نے لائیڈ جارج سے مخاطب ہو کر کہا کہ ’ہمارا مطالبہ تسلیم کیا جائے ورنہ …‘۔ وقت کی سب سے بڑی عالمی طاقت کے وزیراعظم نے حیران ہو کر پوچھا، ’ورنہ آپ کیا کرینگے؟‘ مولانا جوہر نے کہا ’ہم آپ کیخلاف کامریڈ میں اداریہ لکھیں گے‘۔

پاکستان کی اردو صحافت میں خالص اداریہ نویسی کے زاویے سے دیکھیں تو تین نام سامنے آتے ہیں۔ مولانا غلام رسول مہر (انقلاب) ، سید محمد تقی (جنگ) اور بشیر احمد ارشد (نوائے وقت)۔ انگریزی صحافت میں مظہر علی خان، عزیز صدیقی، خالد احمد، محمد ضیا الدین اور حالیہ برسوں میں عباس ناصر نے اداریے کی حرمت قائم رکھی۔ عباس ناصر کے قابل احترام استثنیٰ کے ساتھ یہ سب صاحبان علم و کردار رزق خاک ہو چکے۔ چند برس پہلے کراچی کی ایک محفل میں سہیل وڑائچ صاحب نے ایک پتے کی بات کہی تھی کہ آج کے پاکستان میں اخباری کالم ہی ادب ہے۔ اسی کو صحافت سمجھئے اور اسی کو ذہن سازی کا موثر ذریعہ جانئے۔ سہیل وڑائچ سے اختلاف کی جا نہیں ورنہ عرض کی جاتی کہ اردو کالم کی صنف بھی مختلف درجوں اور طبقات میں بٹ چکی۔ کہیں درپردہ مفاد کا کھیل ہے تو کہیں حسن طلب کا غبار۔ غیرجمہوری یا نیم جمہوری ریاستوں میں صحافت کی آزادی یوں بھی خواب نیم روز ہی ہوتی ہے۔ ہماری نسل نے بھٹو صاحب کے زمانے کی اردو صحافت دیکھ رکھی ہے۔ اس وقت بھی حمید جہلمی اور منو بھائی جیسے پیشہ ورانہ اخلاقیات کے حامل صحافیوں کا تناسب آج کی صحافت سے زیادہ مختلف نہیں تھا۔ سڑک کے حادثات کی خبر صفحہ اول پر شائع ہوتی تھی اور اس میں یہ ٹکڑا جڑ دیا جاتا تھا ’حادثہ ٹائی راڈ کھلنے سے پیش آیا‘۔ یہ سڑکوں اور ذرائع آمدورفت کی بدحالی پر پردہ ڈالنے کا ایک ڈھنگ تھا۔ حادثات تو اب بھی ہوتے ہیں لیکن ٹائی راڈ کے کھلنے کی خبر اب قصہ پارینہ ہو گئی۔ ہمارے جیسے ممالک میں بالائی سطح کا صحافی حکومتی جوڑ توڑ کا حصہ ہوتا ہے جیسے حمید نظامی، زیڈ اے سلہری اور ڈان والے الطاف حسین۔ نچلے طبقے کے صحافیوں کا منصب ریاستی بیانیے کو سو رنگ کے مضمون میں باندھنا ہوتا ہے۔ نظریہ پاکستان اور اسلام پسند کی اصطلاحات شیر علی خان پٹودی کی دین ہیں۔ ہماری نوجوانی میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کو ہندو اساتذہ سے منسوب کیا جاتا تھا۔ بھٹو صاحب کیخلاف چلنے والی تحریک مبینہ انتخابی دھاندلی پر احتجاج تھی جسے لاہور کے ایک ریٹائرڈ فوجی افسر کی تجویز پر ’تحریک نظام مصطفی‘ کا نام دیا گیا۔ اب ایک مدت سے نظریہ پاکستان اور نظام مصطفیٰ کی تراکیب اردو صحافت میں دکھائی نہیں دیتیں۔ افغان جہاد میں اردو صحافت نے گرم پانیوں کا افسانہ بیچا۔ نئی نسل کو شاید یاد نہ ہو کہ 1990ء تک ہمیں امریکی سرمایہ دار بلاک کا اتحادی ہونے پر فخر تھا اور روس کے بارے میں نرم گوشہ رکھنے والے وطن دشمن قرار پاتے تھے۔ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد معلوم ہوا کہ امریکی ادارے مکتبہ فرینکلن سے مالی مفاد اٹھانے والے حقیقت میں امریکا مخالف تھے۔ ان مہربانوں پر اچانک سامراج کی اصطلاح بھی منکشف ہو گئی نیز یہ کہ عرب بادشاہتیں تو دراصل امریکا کی مطیع ہیں۔ بلوچستان میں 2004ء سے بدامنی کی موجودہ لہر چل رہی ہے۔ ہمیں پچھلے برس اس میں بھارت کا ہاتھ معلوم ہوا۔ 2022ء میں ہم کالعدم تحریک طالبان کے ہزاروں تربیت یافتہ دہشت گردوں کو پاکستان واپس لائے۔ اب معلوم ہوا کہ طالبان تو دراصل ہندوستان کے پروردہ ہیں۔ فروری 1989ء سے اگست 2021ء تک کے 33 برس گویا حرف غلط ٹھہرے۔ اخبار میں واقعی اب اداریے کی ضرورت باقی نہیں کیونکہ صحافی اخبار کا نہیں تو کم از کم ریاستی موقف کا ٹھیک ٹھیک ابلاغ کر رہا ہے۔ ابھی آبی دہشت گردی کی اصطلاح تازہ ہے۔ ابھی آدھی ریاست کا رخ امریکا کی طرف ہے اور آدھی حکومت چین سے مصروف مکالمہ ہے۔ ایک سے زیادہ مراکز میں بٹی دنیا میں یہ فیصلہ نہیں ہوا کہ ہم نے اپنا کشکول کس دروازے پر دراز کرنا ہے۔

تازہ ترین