• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’کہیں ایسا تو نہیں کہ کسی معاشرے میں لامحدود رواداری بذات خود رواداری کو ختم کرنے کا باعث بن جائے؟ اگر ہم عدم برداشت کرنیوالوں کو لامحدود رواداری کے اصول تحت رعایت دیں گے یا ہم عدم برداشت کیخلاف ایک روادار معاشرے کا دفاع کرنے کیلئے تیار نہیں ہوں گے تو بالآخر رواداری کے اصول کا اتباع کرنے والے ہی تباہ ہو جائینگے، اور ان کیساتھ روادار معاشرہ بھی۔ کیا یہ بات قابل قبول ہو گی؟‘‘ یہ کارل پوپر کا مشہور معمہ ہے جسے Paradox of Tolerance کہتے ہیں۔ پوپر میرا پسندیدہ فلسفی ہے، اِس کی کتابیں میری میز پر دھری رہتی ہیں اور میں اکثر اِس کی گفتگو اور نظریات کا حوالہ بھی دیتا ہوں۔ پوپر کو پسند کرنے کی بہت سی وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ پوپر کسی دیومالائی شخصیت سے متاثر نہیں ہوتا اور کسی کلاسیکی نظریے کو محض اِس لیے قبول نہیں کر لیتا کہ وہ سینکڑوں برس سے کتابوں میں پڑھایا جا رہا ہے، پوپر تو افلاطون جیسے فلسفی کو نہیں بخشتا، باقی کس کھیت کی مولی ہیں۔ یہ معمہ بھی اس کا ثبوت ہے۔ افلاطون کا ماننا تھا کہ حقیقی جمہوریت بالآخر اکثریت کی استبدادی حکومت میں تبدیل ہو جاتی ہے (مسلم لیگ کی کانگریس کے خلاف یہی دلیل تھی) اِس لیے بہتر یہی ہے کہ ایک فلسفی بادشاہ کو حکومت سونپ دی جائے جو استبدادی نظام کے آگے بند باندھے اور معاشرے میں عدل، مساوات اور انصاف کا بول بالا کرے۔

خدا بھلا کرے پروفیسر انور برکت کا، وہ ہمیں ایم اے میں سیاسی فلسفہ پڑھاتے تھے، پورا کورس افلاطون سے لے کر کارل مارکس تک محیط تھا مگر افلاطون سے انہیں ایسا عشق تھا کہ بارہ میں سے آٹھ ماہ انہوں نے اسی پر لگا دیے۔ اب ایسے استاد کہاں! کارل پوپر پہ واپس آتے ہیں۔ پوپر نے افلاطون کو آڑے ہاتھوں لیا اور جوابی دلیل دی کہ اِس قسم کے فلسفی بادشاہ بازار میں دستیاب نہیں ہوتے کہ جن کا ہاتھ پکڑ کر مسندِ اختیار پہ بٹھا دیا جائے اور کہا جائے کہ آپ ہی بھگوان کے اوتار ہیں جو معاشرے میں نظم قائم کریں گے۔ پوپر نے کہا کہ اِس سے کہیں بہتر ہے کہ ہم ایک لبرل جمہوری نظام تشکیل دیں جس میں ایسی لامحدود آزادی اور رواداری پر نظر رکھیں اور وقت پڑنے پر پابندی بھی لگائیں جو اُس لبرل جمہوریت کیلئے خطرہ بن جائے۔ دوسرے الفاظ میں کسی بادشاہ کو حکومت دینے سے کہیں بہتر ہے کہ حکومت عوام کے نمائندوں کے پاس ہی رہے مگر اُس جمہوریت کو اکثریت کے استبداد یا کسی متشدد گروہ یا ایسی کسی جماعت کے شر سے بچانے کا اہتمام کیا جائے جو گروہ یا جماعت خود سرے سے رواداری یا برداشت میں یقین ہی نہ کرتی ہو۔ یہیں سے پوپر کا رواداری کا معمہ جنم لیتا ہے جسکے مطابق کسی معاشرے میں حقیقی برداشت اسی وقت آ سکتی ہے جب اُس معاشرے میں عدم برداشت کا رویہ رکھنے والوں کو برداشت نہ کیا جائے۔ اِس دلیل میں بہت وزن ہے مگر اصل بحث بھی یہیں سے شروع ہوتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لکیر کہاں کھینچی جائے، کون سی بات برداشت کے قابل ہونی چاہیے اور کس بات کو آزادی اظہار سمجھا جائے؟ اِس کا آسان اور سادہ جواب یہ دیا جاتا ہے کہ تشدّد سُرخ لکیر ہے، تشدّد کا کوئی بھی رویہ برداشت نہ جائے، اور صرف یہی نہیں بلکہ اگر کوئی ایسا عمل جو جسمانی ایذا کا باعث بنتا ہے وہ بھی ناقابل قبول ہے۔ یہاں دوسرا سوال پیدا ہوتا ہے کہ جسمانی ایذا کا سبب تو بہت سی باتیں بن سکتی ہیں، جیسے کہ کوئی شخص اپنی جان لے سکتا ہے تو کیا یہ حق اسے حاصل نہیں ہوگا، یا ہم بچوں کو فاسٹ فوڈ پر لگا دیتے ہیں تو کیا یہ اُن کی صحت کیلئے نقصان دہ نہیں، تو کیا ریاست کو یہ حق دیدیا جائے کہ وہ شہریوں کو بتائے کہ انہوں نے کیا کھانا ہے؟ اگر ایسا مان لیا جائے تو پھر وہ بدترین استبدادی ریاست بن جائے گی اور سارا مقصد ہی فوت ہو جائے گا۔ اِس مسئلے کا حل میرے ایک اور پسندیدہ فلسفی جان رالز نے پیش کیا۔ اُس نے یہ کہہ کر دریا کو کوزے میں بند کر دیا کہ جو معاشرہ عدل و انصاف پر کھڑا ہو اُس معاشرے کو عدم برداشت کا فلسفہ رکھنے والوں کو بھی برداشت کرنا چاہئے ورنہ وہ معاشرہ عدم برداشت کے اصول کی پیروی کرنے لگے گا اور یوں عدل و انصاف کے راستے سے بھٹک جائے گا۔ تاہم،اِس کے ساتھ رالز ایک شرط بھی عائد کرتا ہے اور کہتا ہے کہ غیر معمولی حالات میں، جب رواداری اور آزادی کے آدرش حقیقی خطرے سے دوچار ہو جائیں اور آئین میں دیے گئے تحفظات ناکافی لگیں تو اُن ناگزیر حالات میں، اُس روادار معاشرے کو عدم برداشت گروہ کے خلاف کارروائی کرنے کیلئے، خود کو تحفظ دینے کا معقول حق حاصل ہے تاکہ عدم برداشت گروہ کی آزادی کو محدود کیا جا سکے۔ رالز کے مقابلے میں مجھے پوپر کا نظریہ زیادہ لبھاتا ہے اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ اگر ہم اُس وقت تک عدم برداشت گروہ کو برداشت کرتے رہیں گے جب تک کہ وہ پُرامن شہریوں اور اداروں کیلئےحقیقی خطرہ نہیں بن جاتے تو اُس کے بعد اُن کے خلاف کارروائی کا وقت گزر چکا ہو گا۔ ہٹلر کو اسی جمہوری نظریے کی آڑ میں ڈھیل ملتی رہی اور پھر اُس نے منتخب ہو کر پارلیمنٹ کو ہی آگ لگا دی، اُس سے پہلے تو وہ رالز کے نظریے کے تحت فقط باتیں ہی کر رہا تھا جنہیں برداشت کیا جا رہا تھا۔ہمارے ہاں تو مسئلہ اور بھی گمبھیر ہے۔ اگر ہم عدم برداشت گروہ کو نکیل ڈالنے کی حمایت کریں تو اِس کی آڑ میں عام آدمی کی شخصی آزادی بھی سلب کر لی جاتی ہے، اور اگر ہم رالز کے نظریے کو درست مان لیں تو پھر ہمیں عدم برداشت گروہ کو ہر حال میں جھیلنا پڑے گا اور انہیں اُس وقت تک آزادی دینی پڑے گی جب تک وہ مخالفین کے گلے میں پھندا ڈال کر اپنے ہاتھوں سے پھانسیاں نہیں دیتے۔

اور ستم ظریفی یہ ہے کہ اُس گروہ نے کبھی اِس نظریے سے اعلانِ برات بھی نہیں کیا۔ اسی لیے کارل پوپر کی بات میں زیادہ وزن ہے کہ اگر ہم ایک ایسی ریاست میں رہنا چاہتے ہیں جہاں رواداری اور برداشت ہو تو ایسی ریاست میں عدم برداشت کے رویے کو بڑھاوا دینےکیلئے کوئی جگہ نہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک گروہ عام شہریوں پر کفر اور غدار ہونے کے فتوے لگائے اور جب اونٹ پہاڑ کے نیچے آئے تو اپنے لیے آئینی اور قانونی تحفظ کا مطالبہ کرے اور وہ بھی بغیر کسی جھوٹے سچے اظہار ندامت کے۔ یہ سیاسی فلسفے کا تقاضا ہے، مولانا روم کا نظریہ تصوف یہاں لاگو نہیں ہوتا!

تازہ ترین