دوحہ کے آسمان پر جب وزیر اعظم پاکستان کا طیارہ نمودار ہوا تو اس کے انجن کی گھن گرج نے ایک نئی تاریخ کے آغاز کی خبر دی۔ قطر کی فضائیں روشن تھیں، ایئرپورٹ پر ہر طرف ہلکی ہوا کا خوشگوار جھونکا تھا اور قطری قیادت صف بستہ کھڑی تھی۔ جیسے ہی طیارے کا دروازہ کھلا اور وزیراعظم پاکستان شہباز شریف اپنی پُر وقار شخصیت کے ساتھ سیڑھیوں سے نیچے اترے، تو منظر نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا۔ ایسا محسوس ہوا کہ ایک بڑا بھائی اپنے چھوٹے بھائی کے دکھ میں شریک ہونے آیا ہے۔ قطر کے حکمرانوں کی آنکھوں میں جو غم کی پرچھائیاں تھیں، وہ امید کی روشنی میں بدلنے لگیں۔ استقبال میں جو گرمجوشی اور اپنائیت تھی، اس نے یہ واضح کر دیا کہ قطر کو اپنی تنہائی میں سب سے پہلے اور سب سے مضبوط سہارا پاکستان نے دیا۔یہ سوال قدرتی طور پر ذہنوں میں تھا کہ پاکستان کے وزیراعظم اتنی عجلت میں قطر کیوں پہنچے؟ اس کا جواب اس المیے میں پوشیدہ ہے جس نے پوری اسلامی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ اسرائیل نے اچانک قطر پر حملہ کر دیا،—وہ قطر جس نے امریکہ کے ساتھ مل کر افغانستان میں امن مذاکرات کرائے، وہ قطر جس نے حماس اور اسرائیل کے درمیان قیدیوں کی رہائی کیلئے ثالثی کی، وہ قطر جس نے امریکہ کو اپنی سرزمین پر محفوظ اڈے فراہم کیے۔ لیکن ان سب خدمات کو نظرانداز کرتے ہوئے اسرائیل نے قطر کے شہریوں اور حماس رہنماؤں کو خون میں نہلا دیا۔ یہ حملہ نہ صرف غیر متوقع تھا بلکہ ایک پیغام بھی تھا کہ طاقت کی دنیا میں صرف وہی زندہ رہتے ہیں جو خود مضبوط ہوں۔ قطر کے عوام جنازے اٹھا رہے تھے، حکمران حیران اور غمزدہ تھے کہ جس امریکہ کیلئے وہ برسوں سہولتیں فراہم کرتے رہے، اس کے قریب ترین اتحادی نے ہی ان پر وار کر دیا۔
ایسے میں اسلامی دنیا کی نظریں کسی ایسے ملک کی طرف تھیں جو مشکل وقت میں سب سے پہلے قطر کے ساتھ کھڑا ہو۔ اور وہ ملک پاکستان تھا۔ حملے کے دوسرے ہی روز شہباز شریف دوحہ پہنچے۔ ان کے ساتھ وزیر اطلاعات عطا تارڑ اوردیگر وزراء بھی تھے۔ جیسے ہی شہباز شریف نے زمین پر قدم رکھا، قطر کی قیادت کے چہروں پر پہلی بار سکون کے آثار نمایاں ہوئے۔ وہ لمحہ قطر کیلئے امید کا، اور پاکستان کیلئے قیادت کا اعلان تھا۔ استقبالیہ ہال میں قطر کے حکمرانوں کے چہروں پر غم کی لکیریں صاف دکھائی دے رہی تھیں۔ تاہم وہ جانتے تھے کہ پاکستان وہی ملک ہے جس نے حال ہی میں بھارت کو عبرتناک شکست دے کر دنیا کو حیران کر دیا۔ پاک فوج اور عوام نے اپنی بہادری سے یہ ثابت کیا کہ پاکستان اپنی سرحدوں کا محافظ ہے۔ اب یہی پاکستان قطر کے ساتھ کھڑا تھا۔ شہباز شریف نے نہ صرف قطر کی قیادت کو حوصلہ دیا بلکہ اس بات کا اعلان بھی کیا کہ پاکستان ہر محاذ پر قطر کا ساتھ دے گا اور مشکل وقت میں اپنے قطری بھائیوں کو اکیلا نہیں چھوڑے گا۔
شہباز شریف کی عالمی سفارت کاری نے پاکستان کو نئے مقام پر کھڑا کیا ہے۔ ان کی بصیرت اور قائدانہ انداز نے ترکیہ، ایران، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اب قطر کو پاکستان کی قیادت کا معترف بنا دیا ہے۔ شہباز شریف کو آج ایک بڑے بھائی اور اسلامی دنیا کے قائد کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ قطر پر اسرائیلی حملہ اسلامی دنیا کیلئے ایک بڑا سبق ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ عرب ممالک پاکستان کی عسکری و دفاعی قوت کے ساتھ اس کی معاشی بنیادوں کو بھی مضبوط کریں۔ ایک طاقتور پاکستان ہی اسلامی دنیا کا اصل قائد بن سکتا ہے۔دوحہ کے ایئرپورٹ پر پاکستانی جہاز کے انجنوں کی گرج سے لے کر قطر کے حکمرانوں کے چہروں پر ابھرتی ہوئی امید تک، یہ سب لمحے اس حقیقت کی تصدیق تھے کہ اسلامی دنیا کا نیا قائد پاکستان ہے۔ شہباز شریف نے بطور وزیراعظم یہ ثابت کر دیا کہ پاکستان مشکل وقت میں سب سے پہلے اپنے بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ آج دنیا کی نظریں پاکستان پر ہیں، اور پاکستان پر یہ ذمہ داری عائد ہو چکی ہے کہ وہ امتِ مسلمہ کا محافظ اور رہنما بنے۔یہ موقع ایک اور تلخ حقیقت بھی سامنے لایا۔ پاکستان اپنی عسکری طاقت اور بہترین انسانی وسائل کے باوجود معاشی طور پر کمزور ہے۔ دوسری طرف وہی عرب ممالک، جنہیں اللہ نے تیل کی دولت سے نوازا ہے، امریکہ کو کھربوں ڈالر کے معاہدے دے کر خوش کرتے ہیں۔امریکی صدر ٹرمپ ایک ہزار ارب ڈالر کا معاہدہ صرف متحدہ عرب امارات سے کر کے گئے، جبکہ سعودی عرب سمیت پورے خطے سے ڈھائی ہزار ارب ڈالر کے سودے کر گئے۔ لیکن پاکستان، جب ایک یا دو ارب ڈالر کی ضرورت ظاہر کرتا ہے، تو اسے سخت شرائط اور طویل مذاکرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر عرب ممالک چاہیں تو پاکستان کو پچیس سے تیس ارب ڈالر سرمایہ کاری کی شکل میں فراہم کر کے اسے معاشی طور پر اپنے پیروں پر کھڑا کر سکتے ہیں۔ ایک مضبوط پاکستان نہ صرف اپنی حفاظت کرے گا بلکہ عرب دنیا کیلئے بھی ایک ڈھال بنے گا اور صحیح قیادت کے ساتھ اپنے برادر اسلامی ممالک کا دفاع بھی کر سکے گا۔